نظام کی ناکامی کا فطری ردعمل
حاجی محمد سرور نے خود اپنی جان اور عزت دونوں کو خطرے میں ڈال کر ہماری غفلت اور کوتاہیوں کو بے نقاب کیا ہے اور مروجہ سسٹم کی ناکامی پر مہر تصدیق ثبت کر دی ہے۔ حاجی محمد سرور اپنے اعتراف کے مطابق چار قتلوں کا مجرم ہے اور اسے قانون ہاتھ میں لینے کی سزا ضرور ملنی چاہئے لیکن اس کے ساتھ وہ مروجہ نظام کی فرسودگی اور ناکامی کا عنوان بن کر سامنے آیا ہے اور حوالات کی سلاخوں کے پیچھے سے اس سسٹم کے ذمہ داروں اور شریک طبقات کا منہ چڑا رہا ہے۔ کیا اس کے اس چیلنج کا سامنا کرنے کا ہم میں سے کسی طبقہ یا شخص میں حوصلہ ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر
ڈاکٹر مراد ولفرڈ ہوف مین کے خیالات
ڈاکٹر مراد ہوف مین جرمنی کے دفتر خارجہ میں اہم عہدوں پر فائز رہے، نیز مراکش اور الجزائر میں سفیر کے منصب پر فائز رہنے کے علاوہ برسلز میں نیٹو کے ڈائریکٹر انفرمیشن کی حیثیت سے بھی خدمات سر انجام دیتے رہے۔ اسلام قبول کرنے کے بعد انہوں نے مختلف مضامین و مقالات میں اسلام اور مغرب کی تہذیبی کشمکش کا تفصیل سے جائزہ لیا ہے اور اس ثقافتی جنگ کے اسباب و علل کی نشاندہی کرنے کے ساتھ مستقبل کے امکانات کا نقشہ بھی پیش کیا ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر
جابر حکمران کے سامنے کلمۂ حق کہنے کی روایت
خلیفہ ہارون الرشید کو ایک دفعہ مسجد نبویؐ میں حضرت امام مالکؒ کی مجلس میں حدیث رسولؐ پڑھنے کا شوق ہوا تو وہ اپنے صاحبزادوں سمیت حاضر ہوا۔ امام مالکؒ کی مجلس عروج پر تھی۔ خلیفۂ وقت نے گزارش کی کہ وہ آپ کی خدمت میں چند احادیث پڑھنا چاہتا ہے مگر دوسرے لوگوں کو تھوڑی دیر کے لیے یہاں سے اٹھا دیا جائے۔ امام مالکؒ نے جواب دیا کہ ’’اگر خواص کی خاطر عوام کو محروم کر دیا جائے گا تو پھر خود خواص کو بھی کوئی فائدہ نہیں پہنچے گا۔‘‘ یہ کہہ کر امام مالکؒ نے مجلس میں حدیث رسولؐ کی قرأت کرنے کے لیے شاگرد کو پڑھنے کی ہدایت دی ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر
ڈاکٹر عبید اللہ غازی سے ملاقات
دوسرا مسئلہ آج کے عالمی ماحول اور ضروریات کے لیے علماء کرام اور اسکالرز تیار کرنے کا ہے جس کا ہمارے ہاں بہت بڑا خلاء ہے اور بدقسمتی سے اس خلاء کو پر کرنے یا کم کرنے کی ضرورت تک محسوس نہیں کی جا رہی۔ ڈاکٹر صاحب کا کہنا ہے کہ ہمیں ایسے علماء کی ضرورت ہے جو آج کے فکری چیلنجز اور معاصر افکار و نظریات کو سمجھتے ہوں، ان کا تقابلی مطالعہ رکھتے ہوں، دنیا میں مروج مذاہب سے واقفیت رکھتے ہوں، انگلش و دیگر عالمی زبانوں میں گفتگو اور تحریر کی صلاحیت رکھتے ہوں، اور ابلاغ عامہ کے جدید ترین ذرائع کے استعمال کی صلاحیت سے بہرہ ور ہوں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر
تذکرہ عمر فاروقؓ اور حسنین کریمینؓ
حضرت عمرؓ کے بارے میں تو ہمارے چیف جسٹس صاحب بھی فرماتے ہیں کہ اگر ملک میں کرپشن کو ختم کرنا ہے اور گڈ گورننس کا قیام عمل میں لانا ہے تو ہمیں حضرت عمر فاروقؓ کے طرز حکومت کو اپنانا ہوگا۔ جبکہ حضرت حسنؓ کی زندگی ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ امت کی وحدت کے لیے بڑی سے بڑی قربانی سے دریغ نہیں کرنا چاہیے اور مسلمانوں میں اتحاد کے لیے ہر وقت محنت کرنی چاہیے۔ اسی طرح سیدنا حضرت حسینؓ کی قربانی اور شہادت ہمیں یاد دلاتی ہے کہ ظلم و جبر کے خاتمہ اور عدل و انصاف کے قیام کے لیے ٹوٹ جانا ہی اہل حق کی نشانی ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر
ان کو ڈھونڈے گا اب تو کہاں راشدی
شیخ صفدرؒ بھی ہم سے جدا ہو گئے۔ علم و دین پر وہ آخر فدا ہو گئے۔ علم تھا ان کا سب سے بڑا مشغلہ۔ ذوق و نسبت میں اس کی فنا ہو گئے۔ وہ جو توحید و سنت کے منّاد تھے۔ شرک و بدعت پہ رب کی قضا ہو گئے۔ خواب میں ملنے آئے مسیح ناصریؐ۔ شرف ان کو یہ رب سے عطا ہو گئے۔ بو حنیفہؒ سے ان کو عقیدت رہی۔ اور بخاریؒ کے فن میں سَوا ہو گئے۔ شیخ مدنی ؒ سے پایا لقب صفدری۔ اور اس کی علمی نہج کی ادا ہو گئے۔ میانوالی کا اک بطل توحید تھا۔ جس کی صحبت میں وہ با صفا ہو گئے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر
۱۰ اکتوبر کے ’’الاہرام‘‘ پر ایک نظر
مرکزی سرخی مصر کے صدر حسنی مبارک اور فلسطینی لیڈر یاسر عرفات کی ملاقات کے بارے میں ہے جس میں اسرائیل کی تازہ صورتحال، نہتے فلسطینیوں پر اسرائیلیوں کے حالیہ وحشیانہ تشدد، اور چند روز میں ہونے والی عرب سربراہ کانفرنس کے ایجنڈے کے اہم نکات زیر بحث آئے۔ اس کے ساتھ ہی صفحۂ اول پر خبر ہے کہ عرب سربراہ کانفرنس میں کم و بیش ستر بادشاہوں اور حکومتی سربراہوں کی شرکت متوقع ہے۔ اور مصری صدر کی اہلیہ سوزان مبارک کی سربراہی میں فلسطینی شہداء کے خاندانوں کی امداد کے لیے فنڈ کے قیام کا اعلان ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر
قرآنی اصول اور جناب معین قریشی
حسب منشاء نئے احکام و قوانین وضع کرنے کی یہی خواہش فقہائے اربعہ حضرت امام ابوحنیفہؒ ، حضرت امام مالکؒ ، حضرت امام شافعیؒ ، اور حضرت امام احمد بن حنبلؒ کے فقہی اجتہادات کے حوالہ سے تعامل امت سے انحراف کی راہ ہموار کرتی ہے۔ اسی خواہش کی کوکھ سے اجماع صحابہؓ کی اہمیت سے انکار جنم لیتا ہے۔ یہی خواہش سنت نبویؐ کو غیر ضروری قرار دینے پر اکساتی ہے۔ اور یہی تقاضا قرآن کریم کے ظاہری احکام کو چودہ سو سالہ پرانے دور کی ضرورت قرار دینے اور اس کی روح کے مطابق نئے احکام و قوانین تشکیل دینے پر آمادہ کرتا ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر
مولوی اور وکیل
زمینی حقیقت یہ ہے کہ مولوی دینی علوم اور شریعت کے قوانین کا علم تو رکھتا ہے مگر مروجہ قوانین اور قانونی نظام کا علم اس کے پاس نہیں ہے۔ جبکہ وکیل مروجہ قوانین اور قانونی نظام کا علم و تجربہ تو رکھتا ہے مگر شریعت کے قوانین و احکام اس کے علم کے دائرہ میں شامل نہیں ہیں۔ اس لیے یہ ضروری ہوگیا تھا کہ مولوی اور وکیل دونوں مل کر اس ذمہ داری کو قبول کریں اور اس کے لیے کام کریں لیکن ایسا نہیں ہوا۔ جس کی وجہ سے ملک میں دستور اور قانون و شریعت میں سے کسی کی حکمرانی ابھی تک عملاً قائم نہیں ہو سکی ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر
محبت کی شادیاں اور ہماری اعلیٰ عدالتیں
ہمارے فاضل جج صاحبان اس پورے پراسیس سے آنکھیں بند کرتے ہوئے محبت اور رضامندی کی شادیوں کو جواز کا سرٹیفکیٹ مہیا کرتے چلے جا رہے ہیں۔ اس لیے بڑے ادب کے ساتھ ہائی کورٹس کے جج صاحبان سے یہ سوال کرنے کی جسارت کر رہا ہوں کہ محبت اور رضامندی دونوں کی اہمیت مسلم ہے۔ مگر ہمارے معاشرے میں اس محبت اور رضامندی تک پہنچنے کے جو مراحل مروج ہیں، کیا قرآن و سنت نے ان مراحل کے بارے میں بھی کوئی حکم دیا ہے یا نہیں؟ ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر