نظام حکومت کی اصلاح کے لیے سعودی علماء کی تجاویز

اس ’’یادداشت‘‘ میں ملک کی داخلی، خارجی، دفاعی، معاشی، انتظامی اور قانونی پالیسیوں پر الگ الگ بحث کرتے ہوئے ان میں خامیوں کی نشاندہی کی گئی ہے اور شرعی نقطۂ نظر سے اصلاحی تجاویز پیش کی گئی ہیں۔ ان سب تجاویز کا احاطہ تو اس مختصر کالم میں ممکن نہیں ہے، البتہ ان میں سے چند تجاویز کا تذکرہ کیا جا رہا ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ الشیخ اسامہ بن لادن اور سعودی عرب کے دیگر علماء اور دانشوروں کا اصل موقف اور مشن کیا ہے جس کے لیے وہ محاذ آرائی، جلا وطنی اور قید و بند کے مراحل سے دوچار ہیں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۷ فروری ۱۹۹۹ء

جمہوریت، مولانا صوفی محمد اور اسلام

بنیادی فلسفے کے لحاظ سے جمہوریت اور اسلام ایک دوسرے کے بالمقابل کھڑے ہیں۔ اور صرف جمہوریت ہی نہیں بلکہ جو طرز حکومت بھی آسمانی تعلیمات کی پابندی کو قبول نہیں کرتا اور فائنل اتھارٹی کے اختیارات اپنے پاس رکھتا ہے، سراسر کفر ہے ۔ ۔ ۔ جہاں ایک اسلامی حکومت کے لیے قرآن و سنت کا پابند ہونا شرط ہے وہاں یہ بھی ضروری ہے کہ اسے عام مسلمانوں کا اعتماد حاصل ہو۔ چنانچہ آج کے دور یہ اعتماد حاصل کرنے کی واحد صورت ووٹ ہے، اس کی شرائط اپنی جگہ لیکن ووٹ اور اکثریت کی مطلقاً نفی درست نہیں ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۶ فروری ۱۹۹۹ء

وکالت کا مروجہ سسٹم اور اسلامی نظام

الجھن یہ ہے کہ وکلاء صاحبان مروجہ عدالتی نظام اور وکالت کے سسٹم کو ’’اسلام‘‘ کا لیبل لگا کر من و عن باقی رکھنا چاہتے ہیں، جبکہ مولانا صوفی محمد دو سو برس پہلے کے عدالتی نظام اور وکالتی سسٹم کو کسی تبدیلی کے بغیر نفاذ اسلام کی بنیاد بنانا چاہتے ہیں۔ یہ دونوں موقف غیر حقیقت پسندانہ ہیں اور صحیح راستہ اسی وقت سامنے آئے گا جب دونوں طبقوں (علماء اور وکلاء) کے مخلص دیندار اور اسلام کی بالادستی پر یقین رکھنے والے سنجیدہ ارباب فہم و دانش سر جوڑ کر بیٹھیں گے اور ایک دوسرے کا موقف سمجھتے ہوئے مل جل کر کوئی قابل قبول لائحہ عمل طے کریں گے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲ فروری ۱۹۹۹ء

جرائم شکنی ۔ ہمارا روایتی نظام اور اسلام کا مزاج

ہمارے ارباب حل و عقد ابھی تک یہ نکتہ نہیں سمجھ پا رہے کہ کسی واقعہ کے بعد اس کے اثرات کے ازالہ کے لیے ہاتھ پاؤں مارنے کی بجائے وقوعہ سے پہلے ایسے اسباب کی روک تھام ضروری ہے جو ان واقعات کا باعث بنتے ہیں۔ ورنہ اگر اسباب موجود رہیں گے تو واقعات رونما ہوتے رہیں گے اور کسی ایک جگہ عارضی رکاوٹ و بندش دیکھ کر وہ اسباب اپنے نتائج دکھانے کے لیے کسی اور جگہ سر اٹھا لیں گے۔ اسی لیے جب قانون نافذ کرنے والے ادارے کسی ایک علاقے میں شکنجہ سخت کرتے ہیں تو دہشت گردی اپنا علاقائی دائرہ کار تبدیل کر لیتی ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۵ جنوری ۱۹۹۹ء

این جی اوز اور انسانی حقوق کے ادارے

یہ این جی اوز یعنی غیر سرکاری تنظیمیں سماجی خدمت، صحت، انسانی حقوق، اور نادار لوگوں کی خدمت کے نام پر ملک بھر میں ہزاروں کی تعداد میں موجود ہیں۔ انہیں عالمی اداروں سے کروڑوں روپے کی امداد ملتی ہے اور وہ ایک وسیع نیٹ ورک میں لاکھوں پاکستانیوں کو شریک کار بنا کر اپنے مقاصد کے لیے مسلسل مصروف کار ہیں۔ یہ تنظیمیں اگر فی الواقع غریب عوام کی فلاح و بہبود کے لیے کام کریں اور نادار عوام کے نام پر حاصل ہونے والے فنڈز ان کی صحت اور بہبود کے لیے صرف کریں تو ان سے کسی کو کیا شکایت ہو سکتی ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۸ جنوری ۱۹۹۹ء

عبادات اور معاملات میں توازن

اس واقعہ سے جہاں یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ اسلام حقوق اللہ اور حقوق العباد میں توازن قائم رکھنے حکم دیتا ہے اور حقوق اللہ کی ادائیگی کی کوئی ایسی صورت قبول نہیں کرتا جس سے حقوق العباد متاثر ہوتے ہوں۔ وہاں ایک اور بات بھی ذہن میں آتی ہے کہ انسان جب بھی اپنے بارے میں کوئی فیصلہ کرتا ہے تو اس کے سامنے وقتی حالات ہوتے ہیں اور وہ انہی کی روشنی میں معاملات انجام دیتا ہے۔ جبکہ اسلام ایسا کوئی فیصلہ کرنے میں تمام احوال و ظروف کا لحاظ رکھتا ہے جو کہ بسا اوقات انسان کو عجیب محسوس ہوتا ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۴ جنوری ۱۹۹۹ء

مسیحی دنیا کو قرآن کریم کی دعوت

تاریخ نے قرآن کریم کی اس پیش گوئی کو اس طرح سچا کر دکھایا کہ آج یہودی اور عیسائی اپنی تمام تر دشمنی اور لڑائیاں بھلا کر باہم شیر و شکم ہوگئے ہیں کہ عیسائی دنیا کے وسائل اور یہودی دماغ مل کر اسلام اور عالم اسلام کے خلاف متحدہ محاذ قائم کیے ہوئے ہیں۔ مگر ان سب باتوں سے قطع نظر جی چاہتا ہے کہ مسیحی برادری کو ان کی اس عید پر مبارکباد پیش کرتے ہوئے قرآن کریم کی وہ دعوت دہرا دی جائے جس میں مسیحی دنیا بلکہ سب اہل کتاب کو آسمانی تعلیمات کی ’’مشترک اقدار‘‘ کی طرف واپس لوٹ آنے کی دعوت دی گئی ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۳۱ دسمبر ۱۹۹۸ء

حلال و حرام کا فرق اور عام مسلمان

مرکزی جامع مسجد میں اپنے دفتر میں بیٹھا تھا کہ دو اصحاب تشریف لائے، انہوں نے کہا کہ ہم مسئلہ پوچھنے آئے ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے ایک دوست نے، جو یورپ کے ایک ملک میں رہتا ہے، لاعلمی میں اس جانور کا گوشت کھا لیا ہے جس کا نام بھی نہیں لینا چاہیے۔ اب اس کا کیا حکم ہے اور اسے اس کی تلافی کے لیے کیا کرنا چاہیے؟ میں نے عرض کیا کہ اگر لاعلمی میں کھایا ہے تو اس کا قصور نہیں ہے، البتہ اس بے احتیاطی پر اسے توبہ استغفار کرنی چاہیے کیونکہ کوئی چیز کھاتے وقت ایک مسلمان کو اس کے بارے میں باخبر ہونا چاہیے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۷ دسمبر ۱۹۹۸ء

مروجہ قوانین کی اسلامائزیشن کے لیے اسلامی نظریاتی کونسل کی رپورٹ

اب دستور کے مطابق ملک میں رائج تمام قوانین کے بارے میں اسلامی نظریاتی کونسل کی مکمل رپورٹ پارلیمنٹ کے سپرد کی جا چکی ہے جس میں متعدد قوانین اور ان کی مختلف شقوں کا جائزہ لے کر ان کی شرعی حیثیت کا تعین کر دیا گیا ہے۔ اور کونسل نے جن قوانین اور دفعات کو قرآن و سنت سے متصادم محسوس کیا ہے ان کی جگہ متبادل قوانین کے مسودہ جات بھی رپورٹ میں شامل کر دیے گئے ہیں۔ دستور کے مطابق پارلیمنٹ اس بات کی پابند ہے کہ حتمی رپورٹ اس کے حوالے ہونے کے بعد دو سال کے اندر اس کے مطابق قانون سازی کرے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۶ دسمبر ۱۹۹۸ء

اسلامی نظریاتی کونسل اور جہاد سے متعلق عصری سوالات

قرآن کریم نے قتال کا لفظ تو ہتھیار کی جنگ کے لیے ہی استعمال کیا ہے مگر جہاد کے لفظ میں عموم ہے۔ قرآن کریم نے جہاد بالنفس کے ساتھ جہاد بالمال کا ذکر کیا ہے جبکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جہاد باللسان کو بھی اس کے ساتھ شامل کیا ہے۔ بلکہ غزوۂ احزاب کے بعد حضورؐ نے واضح اعلان فرمایا تھا کہ اب قریش ہمارے مقابلہ میں ہتھیار لے کر نہیں آئیں گے بلکہ زبان کی جنگ لڑیں گے اور شعر و خطابت کے میدان میں جوہر دکھائیں گے۔ چنانچہ آپؐ کے ارشاد پر صحابہ کرامؓ میں سے نامور خطباء اور شعراء نے جہاد باللسان کا یہ معرکہ سر کیا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۵ اپریل ۲۰۱۶ء

Pages

2016ء سے
Flag Counter