نفاذِ اسلام اور دورِ غلامی کی عبوری تعبیرات
دور غلامی میں بعض بنیادی مسائل میں ہمارے فقہاء نے وقتی اور عبوری طور پر ایسی صورتیں نکالی تھیں جن کا جواز بس اسی دور میں ہو سکتا تھا۔ آزادی اور اقتدار کے دور میں اسلامی احکام کی وہ صورتیں کسی طرح بھی قابل قبول نہیں ہو سکتیں۔ مثال کے طور پر نماز اور زکوٰۃ کے دو بنیادی احکام کو سامنے رکھ لیجیے جو اسلام کے احکام میں سب سے زیادہ اہمیت رکھتے ہیں اور جنہیں سوسائٹی میں عملی طور پر لاگو اور نافذ کرنے کی ذمہ داری کو قرآن نے اسلامی حکومت کے فرائض میں بیان کیا ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر
وزیراعظم کا استقبال اور غریب عوام کی درگت
یہ واقعات نئے نہیں ہیں، جب بھی حکمرانوں کو کسی حوالہ سے بڑے ہجوم اور اجتماع کی ضرورت پڑتی ہے اس کے لیے اسی طرح کے حربے اختیار کیے جاتے ہیں۔ اس سے حکمرانوں کی وقتی سیاسی ضرورتیں تو پوری ہو جاتی ہیں، انتظامی افسران اور ممبران اسمبلی کو شاباش مل جاتی ہے اور کچھ لوگوں کی انا کو نفسیاتی تسکین بھی حاصل ہو جاتی ہے، مگر غریب عوام کی جو درگت بنتی ہے اس کا اندازہ انہی لوگوں کو ہو سکتا ہے جو عوام میں رہتے ہیں اور انہی کے ساتھ میسر سفر کے ذرائع اختیار کرنے پر مجبور ہوتے ہیں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر
ربوہ کا نام اور اس کے باشندوں کے مالکانہ حقوق
ایک فریق قرآن کریم کے ایک لفظ کو غلط استعمال کر کے دنیا بھر کے لوگوں کو دھوکہ دے رہا ہے، جبکہ دوسرے فریق نے دھوکہ کی اس فضا کو ختم کرنے کے لیے پیش رفت کرنا چاہی ہے۔ اب انصاف پسند لوگ خود فیصلہ کریں کہ ان میں سے کون سا فریق انسانی حقوق کی خلاف ورزی کر رہا ہے اور کون سا فریق انسانی حقوق کی پاسداری میں مصروف ہے۔ بلکہ اگر انصاف کی نظر سے دیکھا جائے تو ربوہ کے نام کی تبدیلی انسانی حقوق کا مسئلہ نہیں بلکہ اس شہر کے باشندوں کو مکانات اور دکانوں کے مالکانہ حقوق دینے کا مسئلہ انسانی حقوق کا مسئلہ ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر
اسلامی نظام حکومت میں صوبائی خودمختاری
اس پس منظر میں جب ہم صوبائی خودمختاری کے مسئلہ کو سنت نبویؐ اور خلفاء راشدینؓ کے طرز عمل کی روشنی میں دیکھتے ہیں تو دو باتیں بطور اصول سمجھ میں آتی ہیں۔ ایک یہ کہ اسلام نے علاقائی یونٹوں کے وجود کو تسلیم کیا ہے لیکن لسانی اور قومی عصبیتوں کی نفی کی ہے۔ نبی اکرمؐ نے ایک طرف تو زبان، رنگ اور نسل کی بنیاد پر اجتماع کرنے اور اس حوالہ سے دوسروں کے خلاف نفرت پھیلانے کو جاہلی عصبیت قرار دے کر اس سے بیزاری کا اظہار فرمایا۔ اور دوسری طرف آپؐ کے زمانے میں جو علاقے فتح ہوئے ان کی انتظامی وحدتوں کو برقرار رکھا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر
سیرت نبویؐ اور ڈکٹیٹرشپ
یہ مسئلہ فی الواقع سنگین ہے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے سب سے اعلیٰ قانون ساز ادارے کے ایک رکن کی زبان پر جناب رسالت مآبؐ کی ذات گرامی کے بارے میں یہ گمراہ کن اور گستاخانہ الفاظ آخر کس طرح آگئے؟ اس معاملہ کے ضروری پہلوؤں کا جائزہ لینا اور انصاف و دینی حمیت کے تقاضے کو پورا کرنا متعلقہ شخصیات اور اداروں کی ذمہ داری ہے۔ مگر ہم اس مسئلے کے بارے میں ایک اور پہلو سے کچھ عرض کرنا چاہتے ہیں کہ جناب رسول اللہؐ کے بارے میں مذکورہ سینیٹر کا یہ جملہ اس کا اپنا نہیں بلکہ ایک درآمدی فقرہ ہے جو مغرب کے نظریہ ساز کارخانوں میں ڈھلا ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر
اسلام کا نظامِ حکومت اور رائے عامہ
اسلام کے سیاسی نظام کے حوالے سے ’’جمہوریت‘‘ کی نفی کرنے والے حضرات بھی عام طور پر ادھوری بات کہتے ہیں جس سے کنفیوژن پیدا ہوتا ہے۔ کیونکہ وہ یہ بات تو کہہ دیتے ہیں کہ مغربی جمہوریت کی اسلام میں کوئی گنجائش نہیں ہے لیکن اس کے ساتھ یہ وضاحت نہیں کرتے کہ خود اسلام میں حکومت کی تشکیل کا اصول کیا ہے اور حکومت کے قیام اور اسے چلانے میں رائے عامہ کو کیا مقام حاصل ہے؟ چنانچہ اس سلسلہ میں ایک دو اصولی باتیں قارئین کی خدمت میں پیش کرنے کو جی چاہتا ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر
قبائلی علاقہ جات اور شرعی قوانین
پاکستان کی شمالی مغربی سرحد کے ساتھ ساتھ آزاد قبائل کو ایک عرصہ سے یہ منفرد حیثیت حاصل ہے کہ ان کا نظام اور کلچر باقی ملک کے لوگوں سے مختلف ہے۔ فرنگی حکمرانوں کے دور میں یہ ’’آزاد علاقہ‘‘ کہلاتا تھا اور افغانستان اور روس سے فاصلہ قائم رکھنے کے لیے ’’بفر زون‘‘ کا کام دیتا تھا۔ جبکہ قیام پاکستان کے بعد بھی اس کی اس حیثیت میں کوئی نمایاں تبدیلی نہیں آئی اور پاکستان کا حصہ ہونے کے باوجود اس خطہ کا انتظامی اور عدالتی نظام ملک کے دیگر حصوں سے جداگانہ ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر
قرآن کریم اور پاکستان کا تعلق
قائد اعظم محمد علی جناحؒ اور تحریک پاکستان کے دیگر قائدین نے قیام پاکستان سے پہلے اور بعد اپنی بیسیوں تقاریر و بیانات میں اس کا اظہار کیا۔ بلکہ ایک موقع پر قائد اعظمؒ سے پوچھا گیا کہ پاکستان کا دستور کیا ہوگا تو انہوں نے واضح طور پر کہا کہ پاکستان کا دستور ہمارے پاس پہلے سے قرآن کریم کی شکل میں موجود ہے اور وہی ہمارے دستور و قانون کی بنیاد ہوگا۔ اس کے ساتھ انہوں نے یہ بھی واضح کیا کہ قرآن کریم جس طرح چودہ سو سال قبل سیاسی و معاشرتی حوالہ سے قابل عمل تھا اسی طرح وہ آج بھی قابل عمل ہے اور ہماری راہنمائی کرتا ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر
مولانا محمد عبد اللہ شہیدؒ
مولانا محمد عبد اللہؒ اسلام آباد کی مرکزی جامع مسجد (لال مسجد) کے خطیب کی حیثیت سے سرکاری ملازم تھے اور ان کا عہدہ وفاقی حکومت کے ایڈیشنل سیکرٹری کے برابر بتایا جاتا ہے۔ لیکن ان کی یہ حیثیت دینی اور ملی معاملات میں ان کی حق گوئی میں کبھی حائل نہیں ہوئی۔ وہ صاف گو اور حق گو عالم دین تھے اور جس بات کو صحیح سمجھتے تھے اس کے اظہار میں کوئی خوف، مصلحت یا لالچ ان کی راہ میں کبھی رکاوٹ نہیں بن سکی۔ وہ تحفظ ختم نبوت اور نفاذ شریعت کی جدوجہد میں ہمیشہ پیش پیش رہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر
حدیث نبویؐ کی ترویج میں مسلم خواتین کی خدمات
مولانا محمد اکرم ندوی انڈیا سے تعلق رکھنے والے ایک محقق عالم دین ہیں جو آکسفورڈ سنٹر فار اسلامک اسٹڈیز میں ایک عرصہ سے علمی و تحقیقی خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔ ان سے پہلی ملاقات اچانک اور عجیب انداز میں ہوئی۔ پانچ سال قبل کی بات ہے جب راقم الحروف نے لندن جانے کے لیے تاشقند کا راستہ اختیار کیا، ازبک ائیرلائن سفر کا ذریعہ تھی، تاشقند میں چار پانچ روز گزارنے کے بعد جب تاشقند کے بین الاقوامی ہوائی اڈے سے لندن کے لیے روانہ ہوا تو ایئرپورٹ پر اسی قسم کے حالات کا سامنا کرنا پڑا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر