مسجد میں تقریبِ نکاح
نکاح کی کوئی تقریب مسجد میں ہوتی ہے تو مجھے بہت خوشی ہوتی ہے کہ یہ سنت کے مطابق ہے، اور پھر شادی کے حوالہ سے جو خرافات عام ہوگئی ہیں کم از کم خطبہ اور ایجاب و قبول کے معاملات اس سے ہٹ کر مسجد کے ماحول میں طے پا جاتے ہیں۔ اس لیے ایسی تقریب کے ہر موقع پر خوشی کا اظہار کرتا ہوں اور اپنی گفتگو میں اس کی ترغیب اور حوصلہ افزائی کو بھی شامل کر لیتا ہوں۔ خرافات کا یہ سلسلہ اس قدر وسعت پکڑ چکا ہے کہ کہیں مجبورًا شریک ہونا پڑ جائے تو بہت پریشانی ہوتی ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر
چنیوٹ میں تعزیتی ریفرنس
چنیوٹ میں حضرت مولانا محمد نافع جھنگویؒ اور حضرت مولانا مشتاق احمد چنیوٹیؒ کی یاد میں منعقد ہونے والے ایک تعزیتی ریفرنس میں شرکت کا موقع ملا جس کا اہتمام ’’خدام فکر اسلاف‘‘ نے جامع مسجد گڑھا میں بعد نماز عشاء کیا تھا۔ اس کی صدارت حضرت مولانا حافظ ناصر الدین خاکوانی نے کی اور مفکر اسلام حضرت علامہ ڈاکٹر خالد محمود مہمان خصوصی تھے۔ خطاب کرنے والوں میں مولانا محمد الیاس چنیوٹی، مولانا مفتی شاہد مسعود، برادرم مولانا عبد القدوس قارن، حافظ محمد عمیر چنیوٹی اور راقم الحروف شامل تھے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر
ایران کا علاقائی تشخص
یہ چار خبریں ہیں جو صرف تین روز کے اندر مختلف اخبارات میں شائع ہوئی ہیں لیکن اپنے اندر معانی، سوالات اور خدشات و امکانات کا ایک وسیع جہان سموئے ہوئے ہیں جس کے بہت سے پہلوؤں میں سے ہر ایک مستقل گفتگو اور بحث و تجزیہ کا متقاضی ہے۔ مگر سرِ دست ان کی تفصیلات میں جانے کی بجائے ہم اہل السنۃ والجماعۃ کے علماء کرام، راہ نماؤں اور دانشوروں کی خدمت میں ایک سوال پیش کرنے کی جسارت پر اکتفاء کر رہے ہیں کہ کیا ہمارے لیے اس ساری صورت حال میں کچھ سوچنے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر
مذہبی ہم آہنگی اور باہمی رواداری کے تقاضے
آرا و افکار کا تنوع اور خیالات و تاثرات کا اختلاف سیاست میں بھی ہے، تہذیب و ثقافت میں بھی ہے، معیشت و تجارت میں بھی ہے، طب و حکمت میں بھی ہے، اور مذہب میں بھی ہے۔ اس لیے اختلافات کا موجود ہونا کوئی پریشانی کی بات نہیں ہے بلکہ انسانی عقل و دانش کے مسلسل استعمال کی علامت ہے۔ البتہ اختلاف کا اظہار جب اپنی جائز حدود کو کراس کرنے لگتا ہے تو وہ تنازعہ اور جھگڑے کی صورت اختیار کر لیتا ہے۔ رواداری اور ہم آہنگی کے باب میں یہی نکتہ سب سے زیادہ قابل توجہ ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر
خلیفہ کی اصطلاح اور غامدی صاحب کا موقف
محترم جاوید احمد غامدی صاحب نے اپنے ایک تازہ مضمون میں انکشاف فرمایا ہے کہ ’’خلیفہ‘‘ کوئی شرعی اصطلاح نہیں ہے بلکہ بعد میں مسلمانوں نے اپنے نظام حکمرانی کے لیے یہ اصطلاح اختیار کر لی تھی۔ ان کا یہ بھی ارشاد ہے کہ غزالیؒ ، ابن خلدونؒ ، رازیؒ ، ماوردیؒ اور ابن حزمؒ کے بنانے سے دینی اصطلاحات نہیں بنتیں بلکہ اللہ اور اس کے رسول کے بنانے سے بنتی ہیں۔ یہ بات اپنی جگہ بحث طلب ہے کہ اگر کوئی دینی اصطلاح مذکورہ بالا بزرگوں سے نہیں بنتیں تو خود غامدی صاحب کی ان اصطلاحات کی کیا حیثیت باقی رہ جاتی ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر
کراچی اور لاہور میں چند نشستیں
جامعہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ میں شش ماہی امتحان کی تعطیلات کے دوران حسب سابق چند روز کراچی میں گزارنے کا موقع ملا اور دو تین دن لاہور کی مصروفیات میں گزر گئے۔ 22 تا 25 فروری پاکستان شریعت کونسل کے امیر حضرت مولانا فداء الرحمن درخواستی نے جامعہ انوار القرآن آدم ٹاؤن نارتھ کراچی میں مختلف عنوانات پر مسلسل فکری نشستوں کے لیے پابند کر رکھا تھا۔ چار روز کے دوران کم و بیش سات نشستوں میں متعدد عنوانات پر گفتگو ہوئی ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر
اکیسویں آئینی ترمیم کے حوالے سے تحفظات
اکیسویں آئینی ترمیم کے بارے میں قوم کے دو بڑے طبقوں کے تحفظات اس وقت سب سے زیادہ زیر بحث ہیں۔ وکلاء برادری نے بعض حوالوں سے اکیسویں آئینی ترمیم کو ملکی دستور کے بنیادی ڈھانچے اور جمہوری و شہری حقوق کے منافی قرار دیا ہے اور اس پر اپنے تحفظات کا واضح طور پر اظہار کیا ہے۔ جبکہ دینی جماعتوں نے اکیسویں آئینی ترمیم کے تحت قائم ہونے والی فوجی عدالتوں کو صرف مذہبی حوالہ سے ہونے والی دہشت گردی کے مقدمات کی سماعت تک محدود کرنے کو مذہب کے ساتھ امتیازی سلوک قرار دیا ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر
قرآن کریم صرف ماضی کی کتاب نہیں!
قرآن کریم کی تعلیم و تدریس اور حفظ و تلاوت کا سلسلہ دنیا بھر میں تمام تر مخالفتوں اور رکاوٹوں کے باوجود دن بدن وسیع ہوتا جا رہا ہے اور اس کے دائرے کو سمیٹنے کی کوئی کوشش کامیاب نہیں ہو رہی، جو بلاشبہ قرآن کریم کا اعجاز ہے۔ لیکن اس سے عالمی استعماری حلقے اس مغالطہ کا شکار ہوگئے ہیں کہ قرآن کریم کی تعلیم و تدریس اور قراءت و تلاوت کا یہ سلسلہ دینی مدارس کی وجہ سے باقی ہے۔ اس لیے وہ دینی مدارس کے پیچھے پڑ گئے ہیں اور دینی مدارس کا کردار محدود کرنے اور انہیں غیر مؤثر بنانے کے لیے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر
وراثت میں خواتین کے ساتھ نا انصافی
سپریم کورٹ کے جسٹس جواد ایس خواجہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ یہ معاشرے کی روایت بن چکی ہے کہ بہنوں اور بیٹیوں کو وراثت میں ایک ٹکہ بھی نہیں دیا جاتا، انہیں ڈرا دھمکا کر وراثت نہ لینے پر قائل کیا جاتا ہے۔ زمینوں سے پیار کرنے والے اپنی وراثت بچانے کے لیے سگی بہنوں اور بیٹیوں کے وجود تک سے انکار کر دیتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اسلامی معاشرہ نے خواتین کو وراثت میں جو حقوق دیے ہیں اس سے کوئی انکار کی جرأت نہیں کر سکتا، وقت آگیا ہے کہ بیٹیوں اور بہنوں کے حقوق کا تحفظ کیا جائے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر
دینی جماعتیں اپنی ترجیحات پر نظرثانی کریں ۔ مجلس علماء اسلام پاکستان کا اجلاس
ملک میں نفاذ شریعت کی بات ہو یا سیکولر قوتوں کی ہمہ جہت یلغار کے مقابلہ کا مسئلہ ہو، نہ صرف پارلیمانی اور انتخابی سیاست کے ذریعہ اس جدوجہد میں کوئی پیشرفت ہو سکتی ہے اور نہ ہی ہتھیار اٹھانا اس مسئلہ کا حل ہے۔ ہماری اصل ضرورت اور ہماری جدوجہد کا اصل میدان پر امن اور عدم تشدد پر مبنی عوامی جدوجہد ہے، اور دستور و قانون کے دائرہ میں پر جوش احتجاجی سیاست ہے۔ اس کے بغیر نہ ہم کوئی پیشرفت کر سکتے ہیں اور نہ ہی موجودہ صورت حال کو مزید خراب ہونے سے بچا سکتے ہیں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر