مولانا سعید احمد رائے پوریؒ
مولانا سعید احمد رائے پوریؒ کے ساتھ میرا رابطہ سب سے پہلے ۱۹۶۷ء میں ہوا جب دینی مدارس اور کالجوں کے طلبہ پر مشتمل ایک مشترکہ طالب علم تنظیم ’’جمعیت طلباء اسلام پاکستان‘‘ کے نام سے وجود میں آئی۔ سرگودھا اور لاہور کے ساتھ ساتھ گوجرانوالہ بھی اس تنظیم کی سرگرمیوں کے ابتدائی مراکز میں سے تھا۔ گوجرانوالہ میں ہمارے ایک استاذ محترم مولانا عزیز الرحمنؒ ، میاں محمد عارف اور راقم الحروف اس کے لیے متحرک تھے جبکہ مولانا سعید احمد رائے پوریؒ جمعیۃ طلباء اسلام کی تنظیم و توسیع کے لیے مسلسل سرگرم عمل تھے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر
ملالہ یوسف زئی پر حملہ
ہمارا ماتھا اسی وقت ٹھنک گیا تھا جب ہم نے دیکھا کہ ملالہ جس حملے میں زخمی ہوئی ہیں، اسی حملے میں ان کے ساتھ اسی سکول کی دو اور طالبات شازیہ اور کائنات بھی زخمی ہوئی ہیں۔ لیکن کوریج اور پروٹوکول دونوں حوالوں سے شازیہ اور کائنات اس سلوک کی مستحق قرار نہیں پائیں جو ان کی ایک زخمی ساتھی کو ملا۔ حالانکہ وہ دونوں بھی سوات کی رہنے والی تھیں، اسی سکول کی طالبات تھیں، قوم کی بچیاں تھیں، ایک ہی حملہ میں ملالہ کے ساتھ زخمی ہوئی تھیں اور ان کے جسم سے خارج ہونے والا خون بھی سرخ رنگ کا ہی تھا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر
عمل تدریس میں استاد کا کردار
دنیا کے حالات کو محسوس کریں۔ علمی، فکری، ایمانی اور تہذیبی دنیا میں مستقبل کے خطرات کو محسوس کریں اور اپنے طلبہ کو اپنے نصاب کے دائرے میں ان سے آگاہ کریں۔ استاد سب کچھ کر لیتا ہے، استاد کے لیے کتاب نہیں بلکہ اس کا ذوق اہم ہے۔ کوئی بھی کتاب ہو، استاد کا فہم اصل اہمیت رکھتا ہے۔ اس بات کو سامنے رکھیں کہ آج ہماری ذمہ داری کیا ہے اور ہمارے زیر تعلیم جو پود ہے، اس کو مستقبل میں کیا صورت حال پیش آنے والی ہے، اس کے لیے ہم نے انہیں کیسے تیار کرنا ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر
توہین رسالت کا مستقل سدباب کرنے کی ضرورت
یہ بات مغرب کے بہت سے دانش ور عرصے سے کہتے آ رہے ہیں اور آج بھی یہ بات سب سے زیادہ زور دے کر کہی جا رہی ہے کہ مسلمانوں کو اپنے اندر اختلاف اور تنقید برداشت کرنے کا حوصلہ پیدا کرنا چاہیے۔ میرا مغرب کے ان دانش وروں سے سوال ہے کہ اختلاف وتنقید اور اہانت وتحقیر میں کوئی فرق ہے یا نہیں؟ اور کیا اختلاف وتنقید کے نام پر ہم سے تمسخر واستہزا اور توہین وتحقیر کا حق تو نہیں مانگا جا رہا؟ جہاں تک اختلاف اور تنقید کا تعلق ہے، اس کو مسلمانوں سے زیادہ کس نے برداشت کیا ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر
انسانی حقوق، اقوام متحدہ اور عالم اسلام
مغربی ممالک میں ایک عرصہ تک حکمرانی کا حق اور اس کے تمام تر اختیارات تین طبقوں کے درمیان دائر رہے ہیں: (۱) بادشاہ (۲) جاگیردار اور (۳) مذہبی قیادت۔ ان میں مختلف مراحل میں آپس میں کشمکش بھی رہی ہے لیکن عام شہری اس تکون کے درمیان جو دراصل جبر اور ظالمانہ حاکمیت کی تکون تھی صدیوں تک پستے رہے ہیں، مغرب خود اس دور کو جبر و ظلم اور تاریکی و جاہلیت کا دور کہتا ہے اور اس تکون سے نجات حاصل کرنے کے لیے مغربی دنیا کے عوام کو طویل جدوجہد اور صبر آزما مراحل سے گزرنا پڑا ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر
شام کا بحران
شام کی صورت حال کا ایک پہلو تو یہ ہے کہ عرب ممالک میں آمر اور مطلق العنان حکمرانوں کے خلاف عوامی احتجاج کی لہر تیونس، لیبیا اور مصر کے بعد شام میں بھی اپنی جولانیاں دکھا رہی ہے اور عوام کی ایک بڑی تعداد سڑکوں پر ہے جو بشار الاسد کی حکومت کے جبر اور تشدد کا شکار ہے اور سیکڑوں شامی شہری اس میں جاں بحق ہو چکے ہیں۔ لیکن اس کا ایک مذہبی پہلو ہے جس نے اس بحران کی شدت کو مزید دو آتشہ کر دیا ہے، وہ یہ کہ شام کے صدر بشار الاسد اور فوجی قیادت کی اکثریت کا تعلق نصیری فرقہ سے ہے جو اہل تشیع میں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر
برما کے مسلمانوں کی حالت زار
برما جسے اب سرکاری طور پر ’’میانمار‘‘ کہا جاتا ہے، بدھ اکثریت کا ملک ہے جو بنگلہ دیش کے پڑوس میں واقع ہے اور طویل عرصہ تک متحدہ ہندوستان کا حصہ رہا ہے۔ برطانوی استعمار نے اسے ایک الگ ملک کی حیثیت دی تھی، جبکہ اراکان مسلم اکثریت کا علاقہ ہے جو صدیوں تک ایک آزاد مسلم ریاست کے طو رپر اس خطے کی تاریخ کا حصہ رہا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ بنگلہ دیش کا ساحلی شہر چٹا گانگ بھی ایک زمانے میں اراکان میں شامل تھا مگر نوآبادیاتی دور میں برطانوی استعمار نے چٹا گانگ کو بنگال میں اور اراکان کو برما میں شامل کر دیا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر
اسلامی تحریکوں کا مخمصہ
مسلم ممالک میں نفاذِ اسلام کی تحریکوں کو ایک عرصے سے اس صورت حال کا سامنا ہے کہ جو تحریکیں عسکری انداز میں ہتھیار اٹھا کر نفاذِ شریعت کا پروگرام رکھتی ہیں، انہیں نہ صرف اپنے ملک کی فوجی قوت کا سامنا ہے بلکہ عالمی سطح پر انہیں دہشت گرد قرار دے کر ان کے خلاف کردار کشی کی مہم چلائی جاتی ہے اور ایک طرح سے پوری دنیا ان کے خلاف یک آواز ہو جاتی ہے۔ جبکہ دوسری طرف وہ تحریکیں ہیں جو سیاسی انداز میں نفاذِ اسلام کے مقصد کی طرف آگے بڑھتی ہیں، جمہوری راستہ اختیار کرتی ہیں، رائے عامہ اور ووٹ کو ذریعہ بناتی ہیں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر
سنجیدہ اور ہوش مندانہ حکمتِ عملی کی ضرورت
اہلِ فکر و دانش کے باہم مل بیٹھنے کی ضرورت ہے، اس طرزِ عمل پر نظر ثانی کی ضرورت ہے، پورے خطے کی مجموعی صورتحال کا گہرائی کے ساتھ جائزہ لینے کی ضرورت ہے، اس سلسلے میں مختلف ممالک میں کام کرنے والوں کے ساتھ رابطہ و مشاورت کی ضرورت ہے، عالمی استعماری قوتیں اس کشمکش کو اپنے مفادات کے لیے استعمال کرنے کے لیے جس طرح مستعد و متحرک ہیں اسے سمجھنے کی ضرورت ہے، اور جذباتیت و سطحیت سے ہٹ کر مضبوط علمی و فکری اساس پر جدوجہد کی نئی منصوبہ بندی کی ضرورت ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر
ائمہ وخطبا کی مشکلات ۔ مسائل اور ذمہ داریاں
آج کل خطباء کے لیے ایک بڑا مسئلہ یہ ہے، جو دن بدن بڑھتا جا رہا ہے کہ لوگ جمعۃ المبارک کے دن بالکل خطبہ کے وقت آتے ہیں خطبہ سنتے ہیں نماز پڑھتے ہیں اور چلے جاتے ہیں۔حاضرین کو گفتگو سے زیادہ دلچسپی نہیں ہوتی، اکثر مساجد میں یہی ہوتاہے۔ اس کی ایک وجہ میں عرض کرتاہوں۔آج سے دس پندرہ سال پہلے جنگ اخبار لندن میں ایک نوجوان کا مراسلہ شائع ہوا، اس نے لکھا کہ اب ہم نے یہاں مساجد میں جانا کم کردیاہے جس کی تین وجوہات ہیں۔ ایک وجہ تو یہ ہے کہ خطیب صاحب جس موضوع پر گفتگو کر رہے ہوتے ہیں وہ ہماری دلچسپی کا موضوع نہیں ہوتا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر