بیانات و محاضرات

’’یوم پاکستان‘‘

حتیٰ کہ اب یہ کہنے میں کوئی باک محسوس نہیں کیا جا رہا کہ ’’پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الا اللہ‘‘ کا نعرہ لگانے میں اور پاکستان میں قرآن و سنت کے قوانین نافذ کرنے کے اعلان میں تحریک پاکستان کی قیادت سنجیدہ نہیں تھی بلکہ صرف وقتی سیاست کی خاطر ایسا کیا گیا تھا۔ اگرچہ درحقیقت ایسا نہیں ہے کیونکہ قائد اعظم محمد علی جناح مرحوم کے ارشادات اور سابق وزیراعظم خان محمد لیاقت خان شہید کی طرف سے قانون ساز اسمبلی میں پیش کی جانے والی قرارداد مقاصد اس خیال کی نفی کرتے ہیں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۲ مارچ ۲۰۱۷ء

حضرت مولانا عبید اللہ انورؒ

مولانا عبید اللہ انورؒ میرے شیخ تھے اور امیر بھی۔ میں نے ایک طویل عرصہ ان کے ساتھ ایک خادم، مرید اور ساتھی کے طور پر گزارا ہے۔ حضرت لاہوریؒ کے بڑے بیٹے حضرت مولانا حافظ حبیب اللہؒ فاضل دیوبند تھے، ان کی زیارت میں نہیں کر سکا کہ وہ میرے ہوش سنبھالنے سے پہلے ہی ہجرت کر کے مکہ مکرمہ چلے گئے تھے۔ اسی وجہ سے وہ ’’مہاجر مکی‘‘ کہلاتے تھے، وہیں زندگی گزاری اور ان کا انتقال بھی وہیں ہوا۔ حضرت لاہوریؒ کے دوسرے بیٹے حضرت مولانا عبید اللہ انورؒ تھے۔ جبکہ حضرت لاہوریؒ کے تیسرے بیٹے حضرت مولانا حافظ حمید اللہ تھے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۸ اگست ۲۰۱۶ء

تجدیدِ عہد برائے دفاع وطن

آج کی اس تقریب کا عنوان ’’تجدیدِ عہد اور دفاعِ وطن‘‘ ہے مگر میں اس میں ایک لفظی ترمیم کر کے اسے ’’تجدیدِ عہد برائے دفاعِ وطن‘‘ کی صورت میں پیش کرنا چاہوں گا اور اپنے ان عزیز نوجوانوں کو جو اسلام، وطن اور قوم کی خدمت کا جذبہ رکھتے ہیں، وطنِ عزیز پاکستان کے حوالہ سے چند باتوں کی طرف توجہ دلاؤں گا۔ وطنِ عزیز پاکستان اس وقت ہم سے جن باتوں کا تقاضہ کر رہا ہے اسے سامنے رکھنا ہم سب کے لیے ضروری ہے۔ وطنِ عزیز کا پہلا تقاضہ پاکستان کی تکمیل ہے، جغرافیائی تکمیل بھی، نظریاتی تکمیل بھی اور معاشی تکمیل بھی ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۲ جنوری ۲۰۱۷ء

قرآن و سنت کا باہمی ربط

حدیث گفتگو کو کہتے ہیں اور سنت طریقے کو محدثین کی اصطلاح میں حدیث اور سنت میں فرق بھی ہے اور یہ دونوں مترادف بھی ہیں۔ بعض نے کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کا نام حدیث ہے اور عمل کا نام سنت ہے۔ محدثین نے یہ بھی کہا ہے کہ حدیث وہ ہے جو ایک آدھ مرتبہ بیان ہوئی جبکہ سنت وہ ہے جو معمول یا قانون کا درجہ اختیار کر گئی۔ بعض نے یہ بھی کہا ہے کہ آپؐ کی ساری زندگی کے ارشادات حدیث ہیں، جبکہ جن ضوابط اور قوانین پر آپؐ رخصت ہوئے یعنی آپؐ کی زندگی کے جو آخری اقوال و اعمال ہیں وہ سنت کا درجہ رکھتے ہیں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۰۱۱ء

روزے کا تاریخی پس منظر اور رمضان المبارک کی فضیلت

رمضان المبارک کی آمد آمد ہے۔ قرآن مجید میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے رمضان المبارک اور اس کے ساتھ روزے کا ذکر فرمایا ہے اور یہ بات بتائی ہے کہ تم پر روزے فرض کیے گئے ہیں اور بھوکا پیاسا رہنا تمہارے لیے عبادت قرار دیا گیا ہے۔ پھر یہ بتایا کہ یہ پہلا موقع نہیں ہے بلکہ اس سے پہلے بھی امتوں پر روزے فرض کیے گئے تھے۔ اور جب سے یہ مذہب اور انسان چلے آرہے ہیں نماز، روزہ اور دیگر عبادات بھی چلی آرہی ہیں۔ یعنی تم سے پہلے لوگ بھی روزے رکھتے تھے اور ان پر بھی روزے ایسے ہی فرض تھے جیسے تم پر فرض کیے گئے ہیں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

ستمبر ۲۰۰۸ء

قرآن کریم کی بعض آیات سمجھنے میں اشکال

آج کی گفتگو کا عنوان یہ ہے کہ قرآن مجید میں جہاں کہیں بھی بات سمجھنے میں کوئی الجھن پیش آتی تو صحابہ کرامؓ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے رجوع کرتے تھے اس لیے کہ حضورؐ قرآن مجید کے شارح ہیں۔ حضورؐ کی سنت اور حضورؐ کے ارشادات قرآن کریم کی تشریح ہے۔ چنانچہ تابعین یعنی خیر القرون اور قرون اولیٰ کے لوگ صحابہ کرامؓ سے رجوع کرتے تھے اس لیے کہ انہی کے سامنے قرآن کریم نازل ہوا تھا اور وہ اس کے پس منظر اور موقع محل کو زیادہ بہتر جانتے تھے اور اس کی زیادہ بہتر تشریح کر سکتے تھے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۰۱۱ء

حضرت شیخ احمدفاروقی المعروف مجدد الفؒ ثانی اور ان کی جدوجہد

سب سے پہلے تو اِس خطاب یعنی ’’مجددِ الفِ ثانی‘‘ کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ ’’الف‘‘ ہزار کو کہتے ہیں۔ ’’الفِ ثانی‘‘ یعنی دوسرا ہزاریہ۔ مطلب یہ ہوا کہ ایک ہزار سال گزرنے کے بعد جو دوسرا ہزاریہ شروع ہوا تھا مجدد صاحب اس کے آغاز میں آئے۔ وہ دسویں صدی ہجری کے آخر میں پیدا ہوئے اور ان کی محنت کا جو دورانیہ ہے وہ گیارہویں صدی کے پہلے تین عشرے ہیں۔ ۱۰۳۲ء تک حضرت مجدد الفؒ ثانی نے اپنی علمی و دینی خدمات سر انجام دیں۔ چنانچہ انہیں دوسرے ہزاریے کا مجدد کہا جاتا ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۰۱۲ء

استحکامِ پاکستان اور اس کے تقاضے

میں مسلم سٹوڈنٹس آرگنائزیشن (MSO) کو اس بر وقت اجتماع پر مبارک باد دینا چاہوں گا۔ آج پاکستان کا استحکام، پاکستان کی سالمیت اور پاکستان کی وحدت بہت سی غیر ذمہ دارانہ حرکتوں کی وجہ سے سوالیہ نشان بنے ہوئے ہیں۔ اِن حالات میں وہ نوجوان جو دین کی بات کرتے ہیں اور دین سے تعلق رکھتے ہیں، اُن کا استحکام پاکستان کے عنوان پر اکٹھے ہونا پاکستان کے اچھے مستقبل کی علامت ہے۔ اللہ تعالیٰ آپ حضرات کے جذبات قبول فرمائیں۔ مجھ سے پہلے ہمارے فاضل دوست جناب قمر الزمان صاحب جس صورت حال کی طرف اشارہ کر رہے تھے، یہ کشمکش تو ہماری صدیوں سے جاری ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

نامعلوم

دینی اور دنیاوی علوم کی ضرورت

ایک صحابیؓ نے سوال کیا کہ یا رسول اللّٰہ متی الساعۃ؟ کہ اے اللہ کے رسول قیامت کب آئے گی؟ یہ وہی سوال ہے جو کافر بھی کیا کرتے تھے اور جو حضرت جبرائیلؑ نے کیا تھا۔ حضورؐ نے جواب دیا کہ ما أعددت لھا؟ کہ (قیامت کا تو پوچھ رہے ہو) کوئی تیاری بھی کر رکھی ہے؟ یعنی جناب نبی کریمؑ نے سوال کا رخ موڑ دیا کہ ایک مسلمان کا یہ سوال کرنا نہیں بنتا کہ قیامت کب آئے گی بلکہ مسلمان کا سوال یہ ہونا چاہیے کہ میری قیامت کے لیے تیاری کتنی ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

جون ۲۰۱۱ء

اسلام میں حج کا تصور اور نظم

فتح مکہ ۸ ہجری کے سال ہوئی۔ فتح مکہ کے بعد پہلا حج ۹ ہجری میں آیا۔ نبی کریمؐ نے ۹ ہجری کا حج ادا نہیں فرمایا بلکہ مدینہ منورہ میں مقیم رہے۔ آپؐ نے حضرت صدیق اکبرؓ کی اِمارت میں صحابہ کرامؓ کو ادائیگیٔ حج کے لیے بھیجا۔ حضورؐ نے ۹ ہجری کا سال اصلاحات و تبدیلیوں کے لیے استعمال کیا۔ آپؐ نے حضرت صدیق اکبرؓ کے ذریعے ۹ ہجری کے حج کے موقع پر بہت سے اعلانات کروائے جو حج کے نظام کی تطہیر ، دیگر قوموں کے ساتھ معاہدات، جاہلی رسومات پر پابندی اور دیگر دینی و انتظامی امور کے متعلق تھے۔ یہ اعلان بھی ہوا کہ اگلے سال حضورؐ حج کے لیے تشریف لائیں گے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۰۱۱ء

دینی اداروں کی ضرورت

دینی مدارس میں جو تعلیم دی جاتی ہے اس کا ہماری عملی زندگی سے کیا تعلق ہے؟ یعنی ہمیں اپنی پریکٹیکل لائف میں دینی تعلیم کی کہاں کہاں ضرورت پڑتی ہے اور کس کس جگہ یہ ہمارے کام آتی ہے۔ سب سے پہلے تو ہمیں اپنی ذات کی پہچان کے لیے اس کی ضرورت پڑتی ہے۔ ہم کوئی چیز دنیا میں دیکھتے ہیں تو یہ معلوم کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ یہ کیا ہے، کیوں ہے اور کس نے بنائی ہے? ایک قلم کی مثال لے لیں۔ پہلی بات تو ہم یہ دیکھتے ہیں کہ یہ قلم کس چیز سے بنا ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

ستمبر ۲۰۰۸ء

تعلیم نسواں کی اہمیت و تقاضے

آج کے دور میں جبکہ ہر مسلمان اپنے اپنے معاملات میں بے حد مصروف ہے یہ جو ریفریشر کورسز اور سمر کورسز وغیرہ ہیں یہ بہت ضروری ہیں اور بہت زیادہ فائدہ مند بھی ہیں۔ اگرچہ اصل ضرورت تو باقاعدہ تعلیم حاصل کرنے کی ہے لیکن باقاعدہ تعلیم حاصل کرنے کا وقت اور گنجائش نہ ہو اور اس کی مہلت نہ ملے تو کم از کم اس طرح کے چھوٹے کورسز یعنی ایک ہفتے کا، ایک مہینے کا، دو ماہ کا، ان سے فائدہ اٹھانا بہت ضروری ہے۔ دین کی معلومات حاصل کرنے سے ذوق بنتا ہے، حصولِ علم کا شوق پیدا ہوتا ہے اور انسان مزید علم و معلومات حاصل کرنے کے مواقع تلاش کرتا ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

جولائی ۲۰۱۰ء

فقہ حنفی کی چار امتیازی خصوصیات

فقہ حنفی کی ایک امتیازی خصوصیت یہ ہے کہ یہ عالم اسلام کی پہلی باقاعدہ فقہ ہے۔ امام صاحبؒ سے پہلے بھی تفقہ کے مختلف دائرے رہے ہیں لیکن اس تفقہ کی بنیاد پر کسی باقاعدہ فقہ کی تشکیل سب سے پہلے امام صاحبؒ نے کی۔ فقہ حنفی کی اولین امتیازی خصوصیت یہ ہے کہ یہ عالم اسلام کی پہلی باضابطہ مدون فقہ ہے۔ اس کا اعتراف مؤرخین و محدثین نے کسی تأمل کے بغیر کیا ہے۔ ہمارے علمی ماضی کا ایک حسن یہ بھی ہے کہ ایک دوسرے کے امتیازات کا اور ایک دوسرے کی خصوصیات کا اعتراف کرنے میں کبھی بخل سے کام نہیں لیا گیا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۰ دسمبر ۲۰۱۱ء

عصرِ حاضر میں امام ابو حنیفہؓ کے طرزِ فکر کی اہمیت

یہ سیمینار حضرت امام اعظم ابو حنیفہؒ کے حوالے سے ہے اس لیے میں اِن تین اسلامی شخصیات کے تعارف کے حوالے سے یہ بات مزید لمبی نہیں کرتا۔ لیکن ایک طالب علم کے طور پر میری ذاتی رائے یہ ہے کہ انقلاب اور حکومتی نظام میں حضرت عمر بن عبد العزیزؒ ، فقہ اور قانون میں حضرت امام ابو حنیفہؒ ، جبکہ فکر و فلسفے میں حضرت شاہ ولی اللہؒ ۔ میں علماء سے درخواست کیا کرتا ہوں کہ ان شخصیات کا بطور خاص مطالعہ کریں۔ آج کے حالات کو سامنے رکھ کر گہرائی سے ان شخصیات اسٹڈی کو کریں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۰۱۰ء

امام ابوحنیفہؒ کی سیاسی خدمات

امام اعظم حضرت امام ابوحنیفہؒ کی خدمات اور حیات کے بارے میں اس سیمینار کا انعقاد ایک خوش آئند امر ہے اور ہماری دینی ضروریات میں سے ہے۔ اپنے اسلاف کو یاد کرنا اور ان کی تعلیمات اور جدوجہد کو اجاگر کر کے نئی نسل کی راہنمائی کا سامان فراہم کرنا ایک اہم ضرورت ہے جس کے اہتمام پر میں سیمینار کے منتظمین کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ مجھے گفتگو کے لیے حضرت امام اعظمؒ کی سیاسی خدمات کا موضوع دیا گیا ہے اور میں اسی کے حوالے سے کچھ گزارشات پیش کرنا چاہتا ہوں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

جون ۲۰۱۱ء

حدیث قدسی کسے کہتے ہیں؟

چند سالوں سے معمول ہے کہ جناب نبی کریمؐ کی احادیث مبارکہ کے کسی ایک پہلو پر گفتگو ہوتی ہے۔ ایک سال بخاری شریف کی ’’ثلاثیات‘‘ پر بات ہوئی، ایک سال مسلم شریف کے ’’باب الفتن‘‘ کے بارے میں گفتگو ہوئی، اور ایک سال ابن ماجہ کی’’ کتاب السنن‘‘ پر خطاب کا موقع ملا۔ اس سال بھی احادیث مبارکہ ہی کے ایک پہلو ’’احادیث قُدسیہ‘‘ کا انتخاب کیا ہے جو کہ احادیث کریمہ میں ایک مستقل شعبہ ہے۔ اہل علم کے ہاں حدیث اور سنت میں تھوڑا سا تکنیکی فرق ہے لیکن عام لوگوں کے ہاں یہ دونوں لفظ ایک ہی معنٰی میں سمجھے جاتے ہیں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

جولائی ۲۰۰۸ء

حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ کی خدمات

حضرت تھانویؒ کو 1857ء کی جنگ آزادی میں مسلمانوں کی ناکامی اور برطانوی استعمار کے مکمل تسلط کے تناظر میں دیکھا جائے تو صورتحال کا نقشہ کچھ اس طرح سامنے آتا ہے کہ 1857ء کی جنگِ آزادی کے بعد اس خطہ کے مسلمان اپنا سب کچھ کھو کر نئے سرے سے معاشرتی زندگی کا آغاز کر رہے تھے۔ صدیوں اس خطہ پر حکومت کرنے کے بعد مسلمانوں کا سیاسی نظام ختم ہو چکا تھا، عدالتی اور انتظامی سسٹم ان کے ہاتھ سے نکل گیا تھا، عسکری قوت اور شان و شوکت سے وہ محروم ہو چکے تھے، اور ان کا علمی و تہذیبی ڈھانچہ بھی شکست و ریخت سے دوچار تھا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۹ جنوری ۲۰۱۷ء

معاصر اسلامی معاشروں کو درپیش فکری تحدیات

اسلامی علوم کے ان شعبوں میں علمی و فکری سرگرمیوں میں اضافہ کے ساتھ جو بات خوشی اور اطمینان کا باعث بن رہی ہے، یہ ہے کہ یونیورسٹیوں اور دینی مدارس کے فضلاء میں میل جول بڑھ رہا ہے جو وقت کی اہم ضرورت ہے۔ ان سرگرمیوں میں شریک ہونے والے اور ان کا اہتمام کرنے والے اساتذہ و طلبہ میں دونوں طرف کے فضلاء شریک ہیں۔ پی ایچ ڈی اسکالرز میں دینی مدارس کے فضلاء کی تعداد روز افزوں ہے اور دینی مدارس کے اساتذہ و فضلاء کی دلچسپی اس میں مسلسل بڑھ رہی ہے جو ہمارے پرانے خواب کی تعبیر ہے کہ قدیم و جدید علوم کے ماہرین یکجا بیٹھیں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۳۱ دسمبر ۲۰۱۶ء

قرآن کریم کا معجزہ

بعد الحمد والصلوٰۃ۔ میں نے سورۃ العنکبوت کی دو آیات تلاوت کی ہیں جو اکیسویں پارے کے پہلے رکوع کی آخری آیتیں ہیں، ان میں اللہ تعالیٰ نے مشرکین مکہ کے ایک سوال کا جواب دیا ہے۔ مشرکین مکہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اکثر و بیشتر نشانیوں اور معجزات کا مطالبہ کرتے رہتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے جناب نبی اکرمؐ کو سینکڑوں معجزات عطا فرمائے ہیں جن میں سے بعض معجزات ایسے ہیں جو مشرکین کی فرمائش پر دیے گئے اور ایسے معجزات بھی ہیں جو اللہ تعالیٰ نے کسی فرمائش کے بغیر اپنی حکمت سے عطا فرمائے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۴ جون ۱۹۹۹ء

ذرائع ابلاغ اور سنت نبویؐ

قرآن کریم کا پیغام فطری جبکہ اسلوب فصاحت و بلاغت کے کمال کا تھا، اس لیے مخالفین کو اس کا اثر کم کرنے کے لیے طعن و تشنیع اور کردار کشی کے سوا کوئی بات نہیں سوجھتی تھی۔ کبھی مجنون کہتے، کبھی شاعر، کبھی ساحر اور کبھی کاہن کے طعنے کا سہارا لیتے۔ ایک مرحلہ میں قریشی سردار نضر بن حارث کو قرآن کریم کے مقابلہ میں محفلیں بپا کرنے کی سوجھی تو اس نے ناچ گانے، موسیقی اور قصے کہانیوں کو ذریعہ بنایا جس کا ذکر قرآن کریم نے ’’لھو الحدیث‘‘ کے عنوان سے کیا ہے اور ’’لیضل عن سبیل اللە‘‘ کے ارشاد کے ساتھ گمراہی پھیلانے کا اہم سبب قرار دیا ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۱ دسمبر ۲۰۱۶ء

تحریک ولی اللہ کا موجودہ دور اور معروضی حالات میں کام کی ترجیحات

علماء حق کی وہ جماعت جس نے گزشتہ دو صدیوں کے دوران برصغیر پاک و ہند و بنگلہ دیش میں دین اسلام کے تحفظ و بقا اور ترویج و اشاعت کی مسلسل جدوجہد کی ہے اور اسلامی عقائد و نظریات اور مسلم معاشرہ کو بیرونی اثرات سے بچانے کے لیے صبر آزما جنگ لڑی ہے، آج پھر تاریخ کے ایک نازک موڑ پر کھڑی ہے اور عالمی سطح پر اسلام اور اسلامی معاشرت کے خلاف منظم اور ہمہ گیر انداز میں لڑی جانے والی ثقافتی جنگ علماء حق کی اس جماعت سے نئی صف بندی، ترجیحات اور حکمت عملی کا تقاضا کر رہی ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

جون ۱۹۹۵ء

انسانی حقوق کا مغربی تصور سیرت طیبہؐ کی روشنی میں

دراصل مغرب حقوق و فرائض میں توازن قائم رکھنے اور ان کے درمیان حد فاصل قائم کرنے میں ناکام رہا ہے۔ جبکہ جناب رسول اللہؐ نے حقوق اور فرائض کو نہ صرف یکجا ذکر کیا بلکہ ان کے درمیان ایسا حسین توازن قائم کر دیا جو گاڑی کے دو پہیوں کی طرح انسانی زندگی کا یکساں بوجھ اٹھا سکتا ہے اور اسے لے کر کامیابی کے ساتھ آگے بڑھ سکتا ہے۔ مگر مغرب نے حقوق و فرائض کو آپس میں گڈمڈ کر دیا اور ان کے درمیان کوئی خط امتیاز قائم نہ رہنے دیا جس کی وجہ سے انسانی معاشرہ ذہنی انتشار اور فکری انارکی کی آماجگاہ بن کر رہ گیا ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۸ نومبر ۱۹۹۴ء

’’دینِ الٰہی‘‘ اور حضرت مجدد الفؒ ثانی: آج کے مغربی فلسفہ کے تناظر میں

حضرت مجدد الفؒ ثانی کی حیات د خدمات کے بارے میں ارباب فکر و دانش اس محفل میں اظہار خیال کر رہے ہیں جو حضرت مجددؒ کی جدوجہد کے مختلف پہلوؤں کے حوالہ سے ہوگی، میں ان میں سے صرف ایک پہلو پر کچھ عرض کرنا چاہتا ہوں۔ عام طور پر یہ کہا جاتا ہے کہ حضرت مجددؒ نے اکبر بادشاہ کے خودساختہ ’’دین الٰہی‘‘ کو اپنی مخلصانہ جدوجہد کے ذریعہ ناکام بنا دیا تھا۔ وہ دین الٰہی کیا تھا اور اس کے مقابلہ میں حضرت مجددؒ کی جدوجہد کیا تھی؟ اکبر بادشاہ کے دین الٰہی کے خدوخال اور حدود اربعہ کے بارے میں تاریخ بہت کچھ بتاتی ہے جسے میں چار دائروں یا مراحل میں تقسیم کروں گا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۷ نومبر ۲۰۱۶ء

مولانا عبید اللہ سندھیؒ کا پیغام

حضرت مولانا عبید اللہ سندھیؒ کے بارے میں گفتگو کے مختلف پہلو ہیں جن میں سے ہر ایک مستقل گفتگو کا متقاضی ہے۔ مثلاً ان کا قبول اسلام کیسے ہوا؟ ضلع سیالکوٹ کے گاؤں چیانوالی کے سکھ گھرانے کے ایک نوجوان نے اسلام قبول کیا تو اس کے اسباب کیا تھے اور وہ کن حالات و مراحل سے گزر کر حلقہ بگوش اسلام ہوئے۔ اسلام کی دعوت و تبلیغ اور غیر مسلموں کو اسلام کی طرف راغب کرنے میں اس سے استفادہ کیا جا سکتا ہے۔ بوٹا سنگھ نامی نوجوان جب مسلمان ہوا تو سیالکوٹ سے جام پور اور وہاں سے بھرچونڈی شریف سندھ تک کے سفر کی داستان بھی توجہ کی مستحق ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

نومبر ۲۰۱۶ء

نظامِ حج میں اسلام کی اصلاحات اور حج کا سب سے بڑا سبق

جو حضرات حج بیت اللہ کے لیے جا رہے ہیں اللہ تعالیٰ ان کے لیے اسے مبارک کریں اور سب مسلمانوں کو اپنے گھر کی حاضری نصیب فرمائیں، آمین یا رب العالمین۔ حج اسلام کے بنیادی فرائض اور ارکان میں سے ہے، جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر ہے: (۱) کلمہ شہادت کا اقرار (۲) نماز (۳) زکوٰۃ (۴) روزہ (۵) اور حج۔ جبکہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ارشاد فرمایا ہے کہ ’’وللّٰہ علی الناس حج البیت من استطاع الیہ سبیلا‘‘ (سورہ آل عمران ۹۷) اللہ تعالیٰ کے لیے ان لوگوں پر حج فرض ہے جو بیت اللہ شریف تک پہنچنے کی استطاعت رکھتے ہوں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۱ اکتوبر ۲۰۱۰ء

پاکستان کے داخلی معاملات میں امریکی مداخلت اور مسیحی رہنماؤں سے مخلصانہ گزارش

امریکی سینٹ کی خارجہ تعلقات کمیٹی نے 1987ء میں پاکستان کی فوجی و اقتصادی امداد کے لیے شرائط عائد کر کے اسلامی جمہوریہ پاکستان کے خلاف جس نظریاتی اور اعصابی جنگ کا آغاز کیا تھا وہ اب فیصلہ کن مرحلہ میں داخل ہوگئی ہے۔ ان شرائط میں پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے خاتمہ کے ساتھ ساتھ اسلامی قوانین نافذ نہ کرنے کی ضمانت، جداگانہ طرز انتخاب کی منسوخی، اور قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دیے جانے کے اقدامات کی واپسی کے مطالبات شامل تھے، اور ان میں اب گستاخ رسولؐ کے لیے موت کی سزا کا قانون تبدیل کرنے کے تقاضہ کا اضافہ بھی ہوگیا ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۵ اپریل ۱۹۹۴ء

وطن کے دفاع کے حوالے سے جناب نبی اکرمؐ کی سنت مبارکہ

جناب رسول اللہؐ جب ہجرت کر کے مدینہ منورہ تشریف لائے اور ایک ریاست کا ماحول بنا تو آنحضرتؐ نے سب سے پہلا کام یہ کیا کہ مدینہ منورہ اور اردگرد کے سب قبائل کو جمع کر کے مشترکہ حکومتی نظام کے ساتھ ساتھ مشترکہ دفاع کے معاہدہ کا اہتمام فرمایا۔ ’’میثاق مدینہ‘‘ میں سب نے مل کر طے کیا کہ مدینہ منورہ پر حملہ کی صورت میں اس کے دفاع کی ذمہ داری سب پر ہوگی اور مسلمان و کافر مل کر اس وطن کا تحفظ کریں گے۔ اس طرح آپؐ نے یہ اصول دیا کہ وطن کا دفاع سب اہل وطن کی مشترکہ ذمہ داری ہوتی ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۳ اکتوبر ۲۰۱۶ء

تجارت اور سیرت نبویؐ

تجارت وہ ناگزیر ضرورت ہے جس کے بغیر انسانی معاشرے کا نظام نہیں چل سکتا، اللہ تعالیٰ نے تجارت کو انسانوں کی معاشی ضروریات پوری کرنے کا ایک ذریعہ بنایا ہے۔ جناب نبی کریمؐ کے فرمان کے مطابق زراعت، تجارت، ملازمت، اور مال غنیمت کمائی کے وہ حلال اور جائز طریقے ہیں جن کے ذریعے انسان اپنی ضروریات زندگی مہیا کر سکتا ہے۔ جناب رسول اللہؐ نے تجارت کو کمائی کے بہترین ذرائع میں ارشاد فرمایا ہے، بہت سی روایات ہیں جن میں نبی کریمؐ نے تجارت کی فضیلت و اہمیت ذکر فرمائی ہے، درجات بیان فرمائے ہیں اور تجارت کے متعلق احکامات ارشاد فرمائے ہیں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

ستمبر ۲۰۰۷ء

صلح و جنگ اور سیرت نبویؐ

جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگیں بھی کی ہیں اور صلحات بھی۔ حضورؐ نے جو جنگیں کی ان کا مقصد کیا تھا اور وہ کن اصولوں کے تحت لڑی گئیں؟ اور آپؐ نے جو صلحیں کیں وہ کن مصلحتوں کے تحت کی گئیں اور حضورؐ نے ان صلحوں کو کیسے نبھایا؟ اس حوالے سے مختصراً چند باتیں عرض کرنے کی کوشش کروں گا۔ جناب نبی کریمؐ نے جو دین پیش کیا وہ صرف اخلاقیات اور عبادات پر ہی مشتمل نہیں بلکہ یہ دین پوری زندگی کا انسانی ضابطہ حیات ہے۔ ہمارا یہ عقیدہ اور ایمان ہے کہ یہ دین زندگی کے ہر شعبے کو محیط ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

ستمبر ۲۰۰۷ء

صلہ رحمی اور سیرت نبویؐ

خاندانی زندگی کے حوالے سے جناب نبی کریمؐ کی تعلیم یہ ہے کہ زیادہ سے زیادہ رشتوں کو جوڑ کر رکھو، آپس میں میل جول پیدا کرو، تعاون کی فضا قائم کرو اور ضرورت کے وقت ایک دوسرے کی مدد کا سلسلہ رکھو۔ جناب رسول اللہؐ نے فرمایا ’’صِل من قطعک‘‘ کوئی تم سے تعلق توڑے تب بھی اس سے تعلق جوڑ کر رکھو۔ آپؐ نے یہ تعلیم دی کہ رشتہ داروں کے ساتھ صلہ رحمی کا معاملہ کرو، اس سے خاندان میں جوڑ پیدا ہوتا ہے آپس میں محبت بڑھتی ہے اور ضرورت کے وقت دوسروں کی مدد اور تعاون میسر ہوتا ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

ستمبر ۲۰۰۷ء

غلامی کا تصور اور سیرت نبویؐ

جب غلامی کو ممنوع قرار دینے کی بات ہوئی تو یہ کہا گیا کہ اسلام بھی ان مذاہب میں سے ہے جنہوں نے غلامی کو جائز قرار دیا اور اپنے نظام میں غلامی کا رواج برقرار رکھا۔ اس بات کی بظاہر تائید بھی ہوتی ہے اس لیے کہ قرآن کریم میں غلامی کے بارے میں آیات موجود ہیں، احادیث میں ان کا ذکر ہے اور غلامی کے متعلق فقہ کے ابواب ہیں۔ اگرچہ آج کے دور میں عملاً غلامی موجود نہیں ہے لیکن اسلام کے اندر غلامی کا ایک مستقل تصور ہے جو پڑھا اور پڑھایاجاتا ہے۔ چنانچہ اس بات کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ غلامی کیا تھی اور اسلام نے اس کے ساتھ کیا معاملہ کیا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

ستمبر ۲۰۰۷ء

گھریلو زندگی اور سیرت نبویؐ

انسان گھریلو زندگی کا آغاز ماں باپ کے زیر سایہ ایک بچے کی حیثیت سے کرتا ہے، بڑا ہوتا ہے تو بہن بھائیوں کا ساتھ میسر آتا ہے، خود مختار ہوتا ہے تو میاں بیوی کے رشتے میں منسلک ہوتا ہے جس کے بعد اولاد کی نوبت آتی ہے، یہ ہر شخص کی گھریلو زندگی کا ایک عمومی خاکہ ہے۔ اور گھر معاشرے کی ایک بنیادی اکائی ہے، اللہ تعالیٰ نے اکیلے انسان کو اس دنیا میں نہیں بھیجا بلکہ جنت سے میاں بیوی کا ایک جوڑا زمین پر اتارا، حضرت آدم علیہ السلام اور حضرت حوا علیہا السلام کی صورت میں ایک کنبہ بھیجا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

ستمبر ۲۰۰۷ء

غیر مسلموں سے سلوک اور سیرت نبویؐ

غیر مسلموں کے ساتھ جناب نبی کریمؐ کے معاملات کی نوعیت کیا تھی یہ ایک بڑا موضوع ہے جس کے بیسیوں پہلو ہیں۔ یہ ایک حساس اور پیچیدہ موضوع بھی ہے جس پر میں اصولی طور پر چند گزارشات پیش کرنے کی کوشش کروں گا۔ قرآن کریم اور جناب رسول اللہؐ کی سنت و سیرت کے حوالے سے کافروں کے ساتھ تعلقات دیکھے جائیں تو اس کی الگ الگ نوعیتیں اور درجات سامنے آتے ہیں جن کے الگ الگ احکام ہیں۔ مسلمانوں کے غیر مسلموں کے ساتھ تعلقات کی سب سے پہلی نوعیت وہ ہے جس کا دائرہ پوری دنیا ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

ستمبر ۲۰۰۷ء

عورتوں کے حقوق اور سیرت نبویؐ

عورتوں کے حقوق، آج کی دنیا کے موضوعات میں سے ایک بہت اہم موضوع ہے۔ اسلام میں عورت کو رائے دینے کا حق ہے یا نہیں، تعلیم حاصل کرنے کا حق ہے یا نہیں، اسے مرد کے برابر حقوق حاصل ہیں یا نہیں اور یہ کہ عورت کو معاشرے کے اندر عام زندگی کے معاملات میں شرکت کا مساوی موقع ملنا چاہیے یا نہیں۔ یہ ایک ایسا موضوع ہے جس کے کئی پہلوؤں پر گفتگو ہو سکتی ہے لیکن میں چند ایک ضروری نکات پر جناب رسول اللہؒ اور آپ کے متبعین سنت کے چند واقعات کے حوالے سے کچھ ضروری گزارشات پیش کرنے کی کوشش کروں گا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

ستمبر ۲۰۰۷ء

عدل و انصاف اور سیرت نبویؐ

اللہ تعالیٰ کے اسمائے گرامی میں بھی ایک اسم ’’عادل‘‘ ہے یعنی اللہ تعالیٰ عدل کرنے والے ہیں۔ اور جناب نبی کریمؐ کے اسماء میں بھی ایک اسم ’’عادل‘‘ ہے یعنی رسول اللہؐ بھی عدل کے پیکر تھے، عدل کرنے والے تھے۔ ہر چیز کا حق ادا کرنے کو عدل کہتے ہیں۔ عدل کے مقابلے میں ظلم کا لفظ آتا ہے۔ ظلم کہتے ہیں کسی کے ساتھ ناحق سلوک کرنے کو، کسی کے حق کو ضبط کرنا یا کسی کا حق دوسرے کو دے دینا۔ لغوی اصطلاح میں ’’وضع الشئی فی غیر محلہ‘‘ ظلم کا معنٰی ہے کسی چیز کو اس کے اصل مقام کے بجائے کسی دوسری جگہ پر رکھنا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

ستمبر ۲۰۰۷ء

خاندان نبوتؐ

حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دو بیٹے تھے، ایک حضرت اسحاق علیہ السلام اور دوسرے حضرت اسماعیل علیہ السلام۔ یوں حضرت ابراہیمؑ کی اولاد میں دو سلسلے چلے۔ حضرت اسحاقؑ کے بیٹے حضرت یعقوبؑ تھے جن کا لقب ’’اسرائیل‘‘ تھا جو کہ عبرانی زبان میں ’’عبد اللہ‘‘ کو کہتے ہیں یعنی اللہ کا بندہ ۔ حضرت اسحاقؑ سے بنی اسرائیل کا سلسلہ چلا، اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل میں تقریباً تین ہزار پیغمبر مبعوث فرمائے۔ جبکہ حضرت ابراہیمؑ کے دوسرے بیٹے حضرت اسماعیلؑ کی اولاد میں سے صرف ایک ہی پیغمبر ہوئے جو کہ جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

ستمبر ۱۹۹۵ء

دعوت اسلام اور سیرت نبویؐ

دعوتِ اسلام کے حوالے سے میں تین پہلوؤں پر بات کروں گا: پہلی بات یہ کہ اسلام کی دعوت کی بنیادی حیثیت و نوعیت کیا ہے۔ دوسری بات اس الزام کی حقیقت کو واضح کرنا کہ رسول اللہؐ نے اسلام کو تلوار کے زور سے پھیلایا تھا اور یہ کہ اسلام دنیا میں طاقت کے بل پر پھیلا ہے۔ تیسری بات یہ کہ اسلام کی دعوت اور دوسروں کو اسلام کی طرف بلانے کے حوالے سے رسول اللہؐ کا طریقہ کار کیا تھا۔ جناب رسالت مآب حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے جتنے انبیاء علیہم الصلواۃ والتسلیمات بھی دنیا میں آئے ان کی نبوت علاقہ، قوم اور وقت کے لحاظ سے محدود تھی ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

ستمبر ۱۹۹۵ء

معاشی انصاف اور سیرت نبویؐ

انسان کی ضروریات کیسی بھی ہوں یہ وسائل کے ذریعے سے پوری ہوتی ہیں کیونکہ یہ دنیا وسائل اور اسباب کی دنیا ہے، اسباب اور وسائل کے بغیر اس دنیا میں زندگی بسر کرنا ممکن نہیں ہے اور اللہ تعالیٰ کے ضابطے کے خلاف ہے۔ ایک وقت آئے گا جب انسانی زندگی جنت میں اسباب اور وسائل کی محتاج نہیں ہوگی اور جب انسان کو اپنی خواہشات و ضروریات کو پورا کرنے کے لیے محنت و مشقت کا راستہ اختیار نہیں کرنا پڑے گا۔ لیکن اس دنیامیں بہرحال اللہ تبارک وتعالیٰ نے انسانی زندگی کو محنت و مشقت اور وسائل و اسباب کے ساتھ وابستہ کیا ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

ستمبر ۱۹۹۵ء

قانون کی بالادستی اور سیرت نبویؐ

آج جب مسلمان دنیا کے کسی خطے میں بھی حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کو حکومت و قانون کی بنیاد بنانے کی بات کرتے ہیں اور یہ کہتے ہیں کہ ایک مسلمان ملک کا سارے کا سارا نظام قرآن کریم اور سنت رسولؐ کے مطابق ہونا چاہیے، وہاں اسلام کی بالادستی ہونی چاہیے، حدودِ شرعیہ نافذ ہونی چاہئیں، خلافت کا مکمل نظام نافذ ہونا چاہیے، تو اس کے جواب میں عام طور پر ایک بات کہی جاتی ہے کہ آج کے دور میں تھیاکریسی نہیں چل سکتی، یا آج کے دور میں پاپائیت کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ تھیا کریسی اور پاپائیت کسے کہتے ہیں؟ ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

ستمبر ۱۹۹۵ء

سیاسی قیادت اور سیرت نبویؐ

سیاست بھی انسانی زندگی کا ایک بہت اہم شعبہ ہے۔ سیاست کسے کہتے ہیں؟ قوم کی اجتماعی قیادت کرنا، ان کے لیے نظام حکومت قائم کرنا، اس نظام حکومت کا نظم اچھے طریقے سے چلانا اور اجتماعی معاملات میں قوم کی راہنمائی کرنا، اسے سیاست کہتے ہیں۔ حضرات انبیاء کرامؑ نے اس شعبے میں بھی وحی الٰہی کی بنیاد پر انسانیت کی راہنمائی کی، اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن کریم میں بہت سے انبیاء کرامؑ کا تذکرہ فرمایا ہے جو اپنے اپنے دور میں وقت کے حکمران بھی تھے اور دینی و مذہبی معاملات میں قائد بھی تھے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

ستمبر ۱۹۹۵ء

انسانی حقوق اور سیرت نبویؐ

آج دنیا میں انسانی حقوق کے حوالے سے سب سے زیادہ گفتگو ہو رہی ہے۔ دنیا کی تمام اقوام کے ذرائع ابلاغ میں اصحابِ علم و دانش اس موضوع پر سب سے زیادہ گفتگو کر رہے ہیں کہ دنیا میں انسانوں کو کیا حقوق حاصل ہونے چاہئیں ، کونسے حقوق انہیں حاصل ہیں اور کن حقوق سے وہ محروم ہیں۔ میں آج کی گفتگو میں تاریخی حقائق کی بنیاد پر یہ بات واضح کرنا چاہوں گا کہ انسانی حقوق کا تصور سب سے پہلے اسلام نے پیش کیا جس کی عملی شکل جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی زندگیوں میں ملتی ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

ستمبر ۱۹۹۵ء

خواتین کی معاشرتی حیثیت اور سیرت نبویؐ

انسانی زندگی ایک مشین کی مانند ہے جبکہ مرد و عورت اس کے دو کلیدی پرزے ہیں۔ دنیا میں اصول یہ ہے کہ جو کمپنی ایک مشینری بناتی ہے وہ اس کے استعمال کے لیے ہدایات بھی دیتی ہے اس لیے کہ جس کمپنی نے مشینری بنائی ہے وہی اس کی قوت اور کارکردگی کو زیادہ بہتر سمجھتی ہے۔ پھر جن لوگوں تک وہ مشینری پہنچتی ہے وہ ان ہدایات کی پیروی کرتے ہوئے اسے استعمال میں لاتے ہیں۔ اسی طرح ہمارا یہ ایمان ہے کہ اللہ تعالیٰ انسانی زندگی کی اس مشینری کا خالق ہے اور وہی اس کی کارکردگی اور نظم و ضبط کو سمجھتا ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

ستمبر ۱۹۹۵ء

سماجی خدمت اور سیرت نبویؐ

اجتماعی حقوق کا معنٰی یہ ہے کہ معاشرے کا انسان پر کیا حق ہے، سوسائٹی کا جو مشترکہ حق انسان پر ہے اسے سماجی خدمت یا سوشل ورک کہتے ہیں۔ معاشرہ اجتماعی طور پر جو انسان سے تقاضا کرتا ہے اس تقاضے کو پورا کرنا سماجی خدمت کرنا کہلاتا ہے۔ اس پیمانے پر دیکھا جائے تو حضرات انبیاء کرام علیہم الصلواۃ والتسلیمات سے بڑھ کر اور کوئی سماجی خدمت گزار نہیں رہا اور پھر انبیاء میں سب سے بڑے سوشل ورکر جناب رسالت مآبؐ ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کے بالکل آغاز میں ہی آپؐ کا تعارف ایک سوشل ورکر کے طور پر سامنے آتا ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

ستمبر ۱۹۹۵ء

علاج معالجہ اور سنت نبویؐ

علاج معالجہ اور اس کے لیے ریسرچ، محنت اور فکرمندی انسانی ضرورت ہے، سوسائٹی کا تقاضا ہے اور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت مبارکہ بھی ہے۔ جناب نبی اکرمؐ نے جسمانی اور روحانی دونوں قسم کی بیماریوں کے علاج معالجے کی تلقین فرمائی ہے۔ اور آپؐ نے بیماریوں کے لیے جسمانی و روحانی دونوں طرز کے علاج خود بھی تجویز کیے ہیں، اس لیے انسانی بیماریوں کا علاج انسانی خدمت ہونے کے ناتے عبادت اور سنت رسولؐ بھی شمار ہوتا ہے۔ اسی طرح عام سطح پر محسوس کیے جانے والے خدشات کا لحاظ رکھنا بھی آنحضرتؐ کی سنت مبارکہ ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۹ دسمبر ۲۰۱۱ء

نبی اکرمؐ کی خارجہ پالیسی

مدینہ منورہ کی ریاست وجود میں آنے کے بعد خارجہ پالیسی کے بارے میں آپؐ نے کیا طرز عمل اختیار کیا تھا اور کیا ہدایات دی تھیں، اس کے لیے ہمیں بنیادی طور پر (۱) حضورؐ کے ان خطوط کا مطالعہ کرنا ہوگا جو آپؐ نے دنیا کے مختلف ممالک کے حکمرانوں کو ارسال فرمائے تھے، (۲) ان معاہدات کا جائزہ لینا ہوگا جو متعدد اقوام اور ریاستوں کے ساتھ آپؐ نے کیے تھے، اور (۳) ان وفود کے ساتھ رسالت مابؐ کی گفتگو اور رویے کو سامنے رکھنا ہوگا جو مختلف مواقع پر مختلف اقوام کی طرف سے مدینہ منورہ آئے اور انہوں نے حضورؐ کے ساتھ باہمی معاملات پر گفتگو کی ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۱ فروری ۲۰۱۲ء

سرور کائناتؐ اور اتحاد بین المسلمین

مجھے جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کے ہزاروں پہلوؤں میں سے ایک اہم پہلو پر کچھ عرض کرنے کی دعوت دی گئی ہے کہ آقائے نامدار امت مسلمہ کے اتحاد کا مرکزی نقطہ ہیں۔ حضورؐ کی ذات اقدس ہمیشہ مسلمانوں کی وحدت کا مرکز رہی ہے، آج بھی امت آپؐ کی ذات پر مجتمع ہے، اور قیامت تک آپؐ تمام مسلمانوں کی یکساں عقیدت و اطاعت کا مرکز رہیں گے۔ اس عنوان پر گفتگو کرتے ہوئے میں وقت کے اختصار کے باعث صرف تین حوالوں سے کچھ گزارشات پیش کرنا چاہوں گا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۱ اپریل ۲۰۰۶ء

نعتیہ شاعری اور ادب و احترام کے تقاضے

جناب نبی اکرمؐ کا تذکرہ نثر میں ہو یا نظم میں، باعث برکت و سعادت ہے اور ذکر رسولؐ کے ہزاروں پہلو ہیں جن پر مختلف حوالوں سے علمی کاوشوں کا سلسلہ جاری ہے۔ نعتیہ شاعری کے بعض پہلوؤں پر میرے پیش رو مقررین نے خوبصورت خیالات و جذبات کا اظہار کیا ہے۔ ذکر رسولؐ کا مقصد اپنے جذبات اور محبت و عقیدت کا اظہار تو ہوتا ہی ہے کہ ایک مسلمان اپنی نسبت کا اظہار بھی کرتا ہے اور محبت و عقیدت بھی پیش کرتا ہے۔ لیکن نعتیہ شاعری کا ایک اہم پہلو ہمارے پیش نظر ضرور ہونا چاہیے کہ خود جناب نبی اکرمؐ نے اس کا کس حوالہ سے تقاضہ کیا تھا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۷ مارچ ۲۰۱۴ء

مکارم اخلاق اور سیرت نبویؐ

سب سے پہلے تو میں مدنی مسجد (نوٹنگھم، برطانیہ) کی منتظمہ اور بالخصوص مولانا رضاء الحق سیاکھوی کا شکرگزار ہوں کہ انہوں نے میرے لیے اس سعادت میں شمولیت کا اہتمام فرمایا کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ پر چند دن مسلسل کچھ گزارش کرنے کا موقع مل رہا ہے۔ اس کے بعد میں آپ حضرات سے درخواست کروں گا کہ گفتگو کے باقاعدہ آغاز سے پہلے اللہ تبارک وتعالیٰ کی بارگاہ میں خصوصی دعا فرمائیں کہ اللہ تعالیٰ ہماری نیتوں کی اصلاح فرمائیں اور یہ عمل جو ہم شروع کر رہے ہیں، اللہ تعالیٰ خلوص نیت کے ساتھ اس کی تکمیل کی توفیق عطا فرمائیں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

ستمبر ۱۹۹۵ء

دستور سے مسلسل انحراف کا نوٹس کیوں نہیں لیا جاتا؟

1974ء کی منتخب پارلیمنٹ کے سامنے یہ مسئلہ ’’استفتاء‘‘ کے طور پر پیش نہیں کیا گیا تھا کہ وہ یہ فیصلہ دے کہ قادیانی مسلمان ہیں یا کافر؟ بلکہ اسمبلی کے سامنے ’’دستوری بل‘‘ رکھا گیا تھا کہ قادیانیوں کو پوری ملت اسلامیہ غیر مسلم قرار دے چکی ہے اس لیے پارلیمنٹ بھی دستور و قانون کے دائرے میں اس فیصلہ کو تسلیم کرے اور اس کے مطابق قادیانیوں کو ملک میں مسلمانوں کے ساتھ شامل رکھنے کی بجائے غیر مسلم اقلیتوں کے ساتھ شمار کرے۔ یہ استفتاء نہیں تھا بلکہ قادیانیوں کے معاشرتی اسٹیٹس کو مسلمانوں سے الگ کرنے کا دستوری بل تھا اور پارلیمنٹ نے یہی فیصلہ کیا تھا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۷ ستمبر ۲۰۱۶ء

حضرت ابراہیمؑ اور مذاہب عالم

حضرت ابراہیمؑ کا بنیادی پیغام توحید ہی ہے لیکن ان کا یہ امتیاز بھی ہے کہ ان کی توحید صرف فکری اور قولی نہیں بلکہ عملی اور فعلی بھی تھی۔ اس لیے کہ انہوں نے بت پرستی کو نہ صرف مسترد کیا بلکہ کھلم کھلا پوری قوم کو بت پرستی ترک کر کے ایک اللہ کی بندگی کرنے کی تلقین کی اور بت پرستی کے خلاف عملی کاروائی بھی کی۔ اور جہاں حضرت ابراہیمؑ کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ تمام آسمانی مذاہب ان کی طرف اپنی نسبت کرنے پر فخر کرتے ہیں وہاں یہ بھی ایک تاریخی حقیقت ہے کہ حضرت ابراہیمؑ کی ذات گرامی اور شخصیت کو اسلام کا راستہ روکنے کے لیے بطور شیلٹر بھی استعمال کیا گیا ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۴ دسمبر ۲۰۰۸ء

Pages

2016ء سے
Flag Counter