قادیانیت ۔ الطاف حسین کے مغالطے

   
۱۴ ستمبر ۲۰۰۹ء

قادیانیوں کے بارے میں متحدہ قومی موومنٹ کے سربراہ جناب الطاف حسین کے ایک انٹرویو کے بارے میں اخبارات میں اظہارِ خیال کا سلسلہ جاری ہے اور مختلف دینی حلقوں کی طرف سے اس پر سخت ردعمل کا اظہار کیا جا رہا ہے۔

مختلف وجوہ کی بنا پر قادیانیت کا مسئلہ پاکستان کے دینی حلقوں کے ہاں بہت زیادہ حساس مسئلہ کی حیثیت رکھتا ہے۔ ملک کے عوام اور دینی جماعتوں کے نزدیک اس حوالہ سے کسی بھی طرف سے لچک کا اظہار عام طور پر قابل قبول نہیں ہوتا۔ یہ صرف روایتی دینی حلقوں کی بات نہیں بلکہ جدید تعلیم یافتہ حلقوں کے جذبات بھی اس کے بارے میں روایتی دینی حلقوں سے مختلف نہیں۔ چنانچہ مفکر پاکستان علامہ ڈاکٹر محمد اقبالؒ نے قادیانیوں کے بارے میں جس لہجے میں بات کی ہے اور پنڈٹ جواہر لال نہرو کے ساتھ اس مسئلہ پر اپنی تاریخی خط و کتابت میں قادیانیوں کے عقیدہ و فلسفہ کو جس شدت کے ساتھ مسترد کیا ہے وہ برصغیر کے کسی بھی معروف روایتی مذہبی رہنما کے لب و لہجے سے مختلف نہیں ہے۔

ایک دوست نے مجھے فون پر جناب الطاف حسین کے مذکورہ انٹرویو کا متعلقہ حصہ سنایا ہے، اس میں اگرچہ الطاف حسین نے کہا ہے کہ انہوں نے قادیانیوں کا لٹریچر پڑھا ہے، لیکن ہمارے خیال میں انہوں نے تکلفاً یہ بات کہہ دی ہے۔ ورنہ اگر انہوں نے قادیانیوں کا لٹریچر پڑھا ہوتا، نیز قادیانیوں اور مسلمانوں کی کشمکش کی ایک سو سالہ تاریخ پر نظر ڈال لی ہوتی، یا کم از کم قادیانیوں کے بارے میں علامہ محمد اقبالؒ کے خیالات و جذبات سے آگاہی حاصل کر لی ہوتی تو وہ قادیانیوں کی حمایت میں اس قدر آگے نہ جاتے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ جناب الطاف حسین قادیانیوں اور مسلمانوں کی کشمکش کے موجودہ تناظر کے بارے میں چند مغالطوں کا شکار ہیں، اس وقت ہم انہی مغالطوں کا تذکرہ اور ان کی وضاحت کرنا چاہتے ہیں، اس امید پر کہ الطاف حسین اور ان کے پیروکار ان گزارشات پر سنجیدگی سے غور کریں گے اور قادیانیوں کے بارے میں اپنے موقف کا ازسرنو جائزہ لیں گے۔

قادیانیوں کے بارے میں دیگر بہت سے حضرات کی طرح الطاف حسین بھی اس مغالطے کا شکار لگتے ہیں کہ یہ کوئی فرقہ وارانہ قسم کا مذہبی مسئلہ ہے جس میں مولوی حضرات خوامخواہ شدت پسندی کا مظاہرہ کر رہے ہیں لیکن حقیقت میں ایسی بات نہیں ہے۔ علامہ محمد اقبال مرحوم کے ارشاد کے مطابق قادیانی گروہ نئی نبوت کے عنوان سے امت کا مرکزِ اطاعت تبدیل کر رہا ہے اس لیے کہ وحی کے نزول کی وجہ سے نئے نبی کی اطاعت واجب ہو جاتی ہے اور اطاعت کا سابقہ نظام تبدیل ہو جاتا ہے۔ چنانچہ مرزا غلام احمد قادیانی نے بھی یہی دعویٰ کیا ہے کہ چونکہ ان پر وحی نازل ہوتی ہے اس لیے اب ان کی اطاعت واجب ہے، ان کی اطاعت کو قبول کیے بغیر کوئی شخص ان کے بقول مسلمان نہیں رہ سکتا۔ اسی وجہ سے قادیانی حضرات مرزا غلام احمد قادیانی پر ایمان نہ لانے والے دنیا بھر کے سوا ارب سے زیادہ مسلمانوں کو دائرہ اسلام سے خارج قرار دیتے ہیں۔ جبکہ مسلمانوں کے مختلف مذہبی فرقوں کا معاملہ اس سے قطعی طور پر مختلف ہے، وہ آپس میں جس قدر بھی اختلاف رکھتے ہوں مگر ان کا مرکزِ اطاعت صرف جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی ہے اور وہ اپنی کسی بھی بات کے لیے حوالہ وہیں سے پیش کرتے ہیں۔ اس کے برعکس قادیانیوں کا مرکزِ اطاعت مرزا غلام احمد قادیانی ہیں اور وہ اپنی بات بزعم خود وحی کی بنیاد پر پیش کرتے ہیں۔ اس لیے مرکزِ ایمان اور مرکزِ اطاعت الگ الگ ہونے کی وجہ سے مسلمان اور قادیانی دو الگ الگ مذاہب سے تعلق رکھتے ہیں، لہٰذا قادیانی گروہ مسلمانوں کے مذہبی فرقوں میں سے نہیں بلکہ امتِ مسلمہ کے مقابلے پر ایک نئے مذہب کے پیروکار ہیں۔ الطاف حسین قادیانیوں کے مسئلہ کو مسلمانوں کے داخلی فرقوں کے تناظر میں نہیں بلکہ نئی نبوت اور نئی وحی کے ساتھ ایک نئے مذہب کے آغاز کے طور پر دیکھیں اور اس کے لیے علامہ محمد اقبالؒ سے رہنمائی حاصل کریں، ان کا یہ مغالطہ بہت جلد دور ہو جائے گا۔

متحدہ قومی موومنٹ کے قائد غالباً اس مغالطے کا بھی شکار نظر آتے ہیں کہ قادیانی گروہ پاکستان کا کوئی نارمل سا مذہبی گروہ ہے جس کے جائز مذہبی حقوق کو اکثریتی مذہبی فرقے پامال کر رہے ہیں۔ یہ بات بھی غلط ہے اس لیے کہ قیامِ پاکستان کے فورًا بعد سے قادیانی گروہ مسلسل اس کوشش میں ہے کہ ملک میں اقتدار کے سرچشموں تک ان کی رسائی ہو اور وہ ملک کی اکثریت پر تسلط قائم کر کے ملک کو اپنی مرضی کے ساتھ چلائے۔ باقی تمام باتوں سے قطع نظر صرف یہ بات بھی قابل قبول نہیں ہے کہ کوئی ایسا گروہ جو ملک کی آبادی میں بہت تھوڑی تعداد رکھتا ہے، اقتدار پر قبضہ کرنے اور ملک کو اپنی مرضی کے مطابق چلانے کی سازش کرے۔ جیسا کہ سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو مرحوم نے کہا تھا کہ قادیانی گروہ پاکستان میں وہی حیثیت حاصل کرنا چاہتا ہے جو امریکہ میں یہودیوں کو حاصل ہے کہ ملک کی کوئی پالیسی ان کی مرضی کے بغیر طے نہ ہو سکے۔ الطاف حسین جمہوریت کی بات کرتے ہیں اس لیے انہیں اس بات کا حقیقت پسندانہ جائزہ لینا چاہیے کہ ایک چھوٹی سی اقلیت بھٹو مرحوم کے بقول پورے ملک کے اقتدار پر تسلط اور ملک کی پالیسیوں پر کنٹرول حاصل کرنے کی سازش کرتی چلی آ رہی ہے، اور الطاف حسین اس حوالہ سے اس گروہ کے ماضی اور پوری تاریخ کو نظرانداز کر کے اس کی پشت پناہی کرنا چاہ رہے ہیں۔

الطاف حسین کے ذہن پر اس مغالطے کی پرچھائیاں بھی صاف دکھائی دے رہی ہیں کہ قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے کا فیصلہ پاکستان کے صرف مولوی طبقہ کا ہے۔ اور چونکہ الطاف حسین کو مولویوں کی کسی بات سے اتفاق نہیں اس لیے وہ اسے بھی مسترد کرنا ضروری سمجھتے ہیں۔ حالانکہ اصل صورتحال یہ نہیں ہے، قادیانیوں کے بارے میں علماء کرام کا اصل اور روایتی موقف تو یہ تھا کہ وہ مرتد ہیں اور مرتد شرعی احکام کی رو سے ایک اسلامی ریاست میں زندگی کا مستحق نہیں رہتا، اس کے لیے پاکستان کے پہلے شیخ الاسلام حضرت مولانا علامہ شبیر احمدؒ عثمانی کا رسالہ ’’الشہاب‘‘ ملاحظہ کیا جا سکتا ہے۔ لیکن مفکر پاکستان علامہ محمد اقبالؒ نے اس سے اتفاق نہ کرتے ہوئے قادیانیوں کو ایک غیر مسلم اقلیت کی حیثیت سے معاشرتی طور پر قبول کرنے کی تجویز پیش کی تھی جس سے پاکستان کے تمام مکاتبِ فکر کے علماء کرام نے اتفاق کر لیا اور قادیانیوں کو گردن زدنی قرار دینے کی بجائے صرف غیر مسلم اقلیت قرار دینے کا مطالبہ کیا۔ جس پر ایک طویل جدوجہد کے بعد ۱۹۷۴ء میں پاکستان کی منتخب پارلیمنٹ نے ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کی قیادت میں دستوری طور پر قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت کا درجہ دینے کا فیصلہ کیا۔ الطاف حسین سے گزارش ہے کہ وہ اس تاریخی حقیقت کو ذہنی طور پر قبول کریں کہ قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے کا فیصلہ اصل میں مولویوں کا نہیں بلکہ علامہ محمد اقبالؒ کا ہے، ملک کی منتخب پارلیمنٹ کا ہے اور جناب ذوالفقار علی بھٹو مرحوم اور ان کی پیپلز پارٹی کا ہے۔

الطاف حسین کے انٹرویو میں اس مغالطے کی جھلک بھی محسوس ہوتی ہے کہ قادیانیوں کے خلاف یہ فیصلہ صرف پاکستان کے علماء کرام کا ہے اور پاکستان کے علماء کرام کے بارے میں الطاف حسین کے دل میں غصے کی لہر ہر وقت موجود رہتی ہے۔ یہ بات بھی سراسر مغالطے پر مبنی ہے اس لیے کہ قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے کا فیصلہ دنیا بھر کے تمام مسلم علمی حلقوں اور دینی مراکز کا متفقہ فیصلہ ہے۔ اگر الطاف حسین کو کوئی شک ہے تو وہ عالمِ اسلام کے کسی بھی معروف دینی و علمی مرکز سے استفسار کر کے دیکھ لیں انہیں وہی جواب ملے گا جو پاکستان کے علماء کرام کہتے ہیں۔

الطاف حسین کی یہ شکایت بھی مغالطے پر ہی مبنی ہے کہ پاکستان میں قادیانیوں کے انسانی اور شہری حقوق پامال کیے جا رہے ہیں۔ جبکہ اصل جھگڑا قادیانیوں کے انسانی حقوق کی بحالی کا نہیں بلکہ ان کے تعین کا ہے، اس لیے کہ قادیانی گروہ اپنی وہ حیثیت تسلیم کرنے کے لیے تیار ہی نہیں ہے جو ملک کے دستور و قانون نے ان کے لیے طے کر رکھی ہے۔ وہ دستور و قانون کو مسترد کرتے ہوئے اپنے لیے غیر مسلم اقلیت کے طور پر نہیں بلکہ ایک اسلامی فرقے کے طور پر حقوق حاصل کرنے کے درپے ہیں، جو دستور و قانون یا اخلاق و شریعت کسی بھی حوالے سے درست بات نہیں ہے۔ وہ اپنے سوا کسی کو مسلمان ہی تسلیم نہیں کرتے جبکہ پاکستان کے تمام مسلمان متفقہ طور پر انہیں غیر مسلم قرار دیتے ہیں۔ اس صورتحال میں مسلمانوں میں شامل ایک گروہ کے طور پر ان کا وجود اور ان کے حقوق آخر کیسے تسلیم کیے جا سکتے ہیں؟ جہاں تک غیر مسلم اقلیت کے طور پر دیگر غیر مسلم اقلیتوں کی طرح شہری اور مذہبی حقوق کا تعلق ہے، ملک کے دینی حلقوں کو ان سے نہ پہلے کبھی انکار رہا ہے اور نہ ہی وہ اس سے اب انکار کر رہے ہیں۔ میں الطاف حسین کو یاد دلانا چاہوں گا کہ مولانا مفتی محمودؒ اور مولانا شاہ احمدؒ نورانی جیسے بزرگ ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کے دور میں ایک قادیانی اقلیتی رکن اسمبلی کے ساتھ ایوان میں بیٹھتے رہے ہیں، تو آج ان کے پیروکاروں کو قادیانیوں کے جائز حقوق سے انکار کیوں ہوگا؟

الطاف حسین نے اس انٹرویو میں کہا ہے کہ قادیانیوں کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے علامہ اقبالؒ کے خیالات کے خلاف ہو رہا ہے۔ مگر میں یہ عرض کروں گا کہ یہ سب کچھ علامہ اقبالؒ کی مرضی اور موقف کے مطابق ہی ہو رہا ہے، الطاف حسین سے گزارش ہے کہ وہ قادیانیوں سے علامہ محمد اقبالؒ کی تجویز اور موقف قبول کرا لیں، میں پوری ذمہ داری کے ساتھ انہیں یقین دلاتا ہوں کہ علامہ محمد اقبالؒ کے موقف کے مطابق قادیانیوں کے حقوق کی بحالی اور احترام کی مہم میں ہم ان کے ساتھ ہوں گے، ان شاء اللہ تعالیٰ۔

   
2016ء سے
Flag Counter