ڈاکٹر خالد محمود سومرو شہید کے المناک قتل کا درد ملک بھر کے بیشتر حلقوں میں یکساں طور پر محسوس کیا گیا ہے، اور ہر سطح پر اس کا اظہار ہوا ہے۔ قومی اسمبلی کے متعدد معزز ارکان نے یکم دسمبر کو ایوان میں اس المناک سانحہ پر اپنے جذبات کا اظہار کیا، جبکہ وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کے داماد اور مانسہرہ سے قومی اسمبلی کے رکن کیپٹن صفدر نے اس دکھ کو جس انداز میں پیش کیا ہے اس میں اس سلسلہ میں قومی اضطراب کی جھلک دیکھی جا سکتی ہے۔ انہوں نے قاری محمد یوسف ایم این اے کے بعد مندرجہ ذیل خطاب کیا جو ہمارے محترم دوست جناب حاجی عبد اللطیف چیمہ نے قلمبند کیا ہے، اور اسے قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے۔
قاری یوسف صاحب کی بات کو میں آگے بڑھاؤں گا اور خالد محمود سومرو کی شہادت پر بات کروں گا۔ یہ ڈاکٹر صاحب کی شہادت کسی ایک شخص کی شہادت نہیں ہے، کسی ایک جماعت کی شہادت نہیں ہے، کسی ایک فرد کی شہادت نہیں ہے۔ ایک عالم دین جو صبح کی نماز کے لیے مسجد میں جا رہا ہے اور سجدے میں اس کا سر ہے اور اس کو شہید کر دیا جاتا ہے۔ جناب ڈپٹی اسپیکر! اس سے کیا ہم سبق لیں گے۔ کس طرف ہم دیکھیں گے، کیا اس شخص کا قصور یہ تھا کہ وہ ننگے پاؤں چل کے مدارس میں حدیث پڑھنے گیا تھا، قرآن سیکھا، اب اللہ کے دین کو آگے پھیلا رہا تھا۔ آج اگر بات کریں تو ایسٹ انڈیا کمپنی والا نظریہ سامنے آرہا ہے۔ جب وہ لوگ ایسٹ انڈیا کمپنی والے برصغیر میں آئے تو انہوں نے پہلی رپورٹ میں لکھا کہ ان کے جو علماء ہیں ان کو جو پڑھانے والے ہیں ان کو اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کا راستہ دکھانے والے ہیں۔ ان کی تذلیل کی جائے، ان کی محبتیں دل سے ختم کی جائیں۔ اور جب علماء کی محبتیں دل سے ختم ہوئیں تو پھر ہمیں تاریخ بتاتی ہے مسلمانوں کی برصغیر کے اندر کتنی تذلیل ہوئی۔ اس لیے کہ ان کے دلوں سے علماء کی محبت نکل گئی تھی۔ آقا علیہ السلام فرماتے ہیں کہ میری امت کے علماء یہ نبیوں کے وارث ہیں۔ خواہ وہ کسی بھی مسلک سے تعلق رکھتے ہوں۔ مگر اللہ تعالیٰ کا قرآن اور نبی کی حدیث تو ان کے سینوں کے اندر پیوست ہوئی ہوتی ہے۔
جناب ڈپٹی اسپیکر! آج دل خون کے آنسو رو رہا ہے۔ ہم بھی انہی آستانوں، انہی ولیوں، انہی بزرگوں کی اولاد میں سے ہیں۔ ہمارا دل دکھا کہ ایک شخص کے بیٹے کی شادی بھی ہے۔ وہ ایک شاعر نے بڑا اچھا کہا تھا
اے شمر بد نہال ذرا ہاتھ روک لے
سجدے میں سر ہے محو عبادت حسینؓ ہےجب سجدے میں سر ہوتا ہے تو کون لوگ ان پر فائرنگ کرتے ہیں؟ جناب ڈپٹی اسپیکر اس کو بہت دور تک دیکھنا پڑے گا۔ کل مجھے بڑا دکھ ہوا، ہمارے صوبے کا نام نہاد وزیر اعلیٰ پرویز خٹک کہتا ہے ہم علماء کو سڑکوں پر گھسیٹیں گے۔ کوئی مائی کا لال پیدا ہوا ہے جو ہمارے اماموں کو سڑکوں پر گھسیٹے؟ پرویز خٹک صاحب ! کیا ہوا اگر آپ ناچ گانے کی محفل میں ذرا لیٹ پہنچ گئے۔ لوگ احتجاج کر رہے تھے، دل خون کے آنسو رو رہا تھا۔ اور جناب ڈپٹی اسپیکر! ۲۹ تاریخ ہمارے پاکستان اور صوبہ خیبر پختون خواہ کا ایک تاریخ ساز دن تھا جب پرائم منسٹر آف پاکستان تاشقند سے گوادر روڈ کی ابتدا آپ کے حلقے حویلیاں سے کر رہے تھے۔ اور میں دیکھ رہا تھا کہ وہ شخص افتتاح پر آنے والے لوگوں کو خطاب کر رہا تھا مگر اس کا دل دکھ رہا تھا، کیونکہ اس کے ساتھ حضرت مولانا فضل الرحمن صاحب دوسری نشست پہ نہیں تھے جنہوں نے جانا تھا کہ ان کا ایک ساتھی شہید ہوا تھا۔ جناب! اب وہ افتتاح کی تقریب بھی آہوں اور سسکیوں میں گزر رہی تھی۔
ڈاکٹر خالد ایک چھوٹی شخصیت نہیں تھے، ایک شخص کی شہادت ایک شخص کا قتل، پوری امت اور پوری انسانیت کا قتل ہے۔ یہ ہمارا دین کہتا ہے اور میں یہ آج پوچھتا ہوں کہ علماء دین بیٹھے ہیں، اگر ۱۸۵۷ء کی تحریک آزادی چلی تھی تو انہی علماء کے قدموں کا فیض تھا کہ وہ تحریک چلی اور تاج برطانیہ کے خلاف بغاوت ہوئی۔ جناب ڈپٹی اسپیکر! ذرا پیچھے چلیں، تحریک خلافت کا سہرا کس کے سر ہے؟ تحریک پاکستان کا سہرا کس کے سر ہے؟ لوگ کہتے ہیں ۷۳ء کا آئین، ۷۳ء کے آئین کے اندر تحریک تحفظ ختم نبوت کا سہرا بھی انہی لوگوں کے سر ہے۔ آج ان کی قبریں منور ہیں۔ میں اگر جاؤں سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ کی ہسٹری پر، حضرت مولانا مفتی محمودؒ کی ہسٹری پر، شاہ احمد نورانیؒ کی ہسٹری پر، بابا عبد الستار خان نیازیؒ جو خالص نیازی تھا، دوستو! آدھے راستے کا نیازی نہیں تھا۔ اس کی ہسٹری پر جاؤں تو آج ۷۳ء کے آئین کو جو رونق بخشی۔ آج لوگ اسے آئین کہتے ہیں، میں مقدس آئین کہتا ہوں۔
جناب ڈپٹی اسپیکر! اگر آپ اس آئین کو کفن میں رکھ کر لے جائیں۔ اللہ کے فرشتے پوچھیں کہ تمہارا رب کون ہے؟ تمہارا دین کیا ہے؟ اس شخصیت بابرکت کے متعلق تمہارا کیا نظریہ ہے؟ اگر ان سوالوں کا جواب نہ آئے تو اس وقت اپنے کفن سے ۷۳ء کا آئین نکالنا اور کہنا کہ میں نے ایک ایسے آئین کا تحفظ کیا تھا جو تحفظ ختم نبوت پر دلالت کرتا تھا۔ قسم خدا کی بخشے جاؤ گے۔
جناب اسپیکر! ذوالفقار علی بھٹو ہو، ہمارے علماء ہوں، رہتی دنیا تک ، اٹھا کے دیکھ لیں، اسلامی دنیا کے آئین جو ہیں، یہ ان میں واحد آئین ہے جو ان علماء کی محنتوں کا (نتیجہ ہے)، جن کی کاوشوں کا، جن کی قربانیوں کا کہ ۱۹۵۳ء کی وہ مسلم مسجد جو خون سے نہلا دی گئی تھی، جس کا خون باہر سڑکوں پر آگیا تھا، کون لوگ تھے اس میں، یہی علماء تھے۔ جنہوں نے پاکستان بنایا تھا، جو پاکستان بچا رہے تھے۔ جو تحفظ ختم نبوت کے مجاہدین بن کر نکلے۔ آج ڈاکٹر خالد محمود کو پوری قوم، پوری امت سلام پیش کرتی ہے اس کی شہادت پر۔
یہ ہماری امت کے علماء جن کی اگر تذلیل ہوگی تو اس امت کی بھی تذلیل ہوتی رہے گی۔ اگر ان پیروں، بزرگوں، علماء کا احترام ہوگا تو پھر رہتی دنیا تک ہمارا احترام جاری رہے گا۔ میں آج بڑے دکھ کے ساتھ اس کی اولاد کو، اس کے مشن کو جاری رکھنے والوں کو سلام پیش کرتا ہوں کہ اللہ کا دین، حدیث پاک، اللہ کا قرآن، ان راستوں سے پھیلتا رہے گا۔ ایک ڈاکٹر کی شہادت سے یہ نہیں رکے گا، ان شاء اللہ تعالیٰ کئی ڈاکٹر پیدا ہوں گے۔