دور جدید میں اجتہاد کی ضرورت اور دائرۂ کار

قرآن وسنت کی نئی تعبیر وتشریح اور جدید فقہ اسلامی کی تدوین کے نعرہ سے تو ہمیں اتفاق نہیں ہے کہ اس سے چودہ سو سالہ اجماعی تعامل سے کٹ جانے کا تصور اجاگر ہوتا ہے مگر فقہ اسلامی پر اجتماعی نظر ثانی کو ہم وقت کی ناگزیر ضرورت سمجھتے ہیں۔ ویسی ہی ضرورت جیسی اورنگزیب عالمگیرؒ کے دور میں محسوس کی گئی اور جس کے نتیجے میں فتاویٰ عالمگیری وجود میں آیا تھا۔ اگر گیارہویں صدی میں فقہ کے سابقہ ذخیرہ پر نظر ثانی اور اس دور کے جدید مسائل کے حل کے لیے مشترکہ علمی کاوش فقہی تسلسل کے منافی نہ تھی تو آج بھی اس کی ضرورت سے انکار نہیں کیا جا سکتا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۸ مارچ ۲۰۰۳ء

قرب قیامت کی پیش گوئیاں

قرآن کریم یا جناب نبی اکرم ﷺ کی پیش گوئیوں کا اپنے دور کے واقعات پر اطلاق یا انہیں مستقبل کے حوالہ کر کے ان کے وقوع کا انتظار خود حضرات صحابہ کرام کے دور میں بھی مختلف فیہ رہا ہے۔ سورۃ الدخان میں ’’دخان‘‘ اور ’’البطشۃ الکبریٰ‘‘ کی پیش گوئیوں کا حضرت عبد اللہ ابن مسعودؓ اپنے دور کے حالات پر اطلاق کرتے ہیں، جبکہ حضرت عبد اللہ بن عباسؓ انہیں قیامت کی نشانیوں میں شمار کر کے اپنے دور میں ان کے وقوع کی بات قبول نہیں کرتے۔ اس سے اصولاً یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ پیش گوئیوں کے بارے میں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

مارچ ۲۰۰۳ء

امریکی استعمار، عالم اسلام اور بائیں بازو کی جدوجہد

عالمی سطح پر اقوام متحدہ کے چارٹر اور انسانی حقوق کے مغربی فلسفہ کے حوالے سے اسلامی احکام وقوانین کی مخالفت اور ان کے خلاف مکروہ اور معاندانہ پراپیگنڈا بھی امریکی مہم کا حصہ ہے جس کے بارے میں امریکی قیادت کے ذمہ دار حضرات کئی بار اظہار خیال کر چکے ہیں۔ اس لیے ہم پورے شعور اور شرح صدر کے ساتھ یہ سمجھتے ہیں کہ افغانستان، عراق اور دیگر مسلم ممالک کے خلاف امریکی عزائم اور یلغار صرف اور صرف معاشی مفادات کے حوالے سے نہیں ہے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ اس میں مذاہب کے درمیان کشمکش اور مغربی تہذیب کو زبردستی مسلط کرنے کی مہم بھی بنیادی اسباب کے طور پر پوری طرح کار فرما ہیں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

مارچ ۲۰۰۳ء

پاکستان میں نفاذ اسلام کی ترجیحات

بد قسمتی سے پاکستان بننے کے بعد سے اب تک نفاذ اسلام کے علمی و فکری تقاضوں اور عصری مسائل کے اسلامی تناظر میں تجزیہ و حل کے لیے غیر سرکاری سطح پر کوئی اجتماعی کام منظم نہیں ہو سکا۔ اگرچہ اس حوالہ سے شخصی حوالوں سے اچھا خاصا کام سامنے آیا ہے مگر شخصی فکر اور عقیدت کے دائروں میں محدود ہونے کی وجہ سے قوم کی اجتماعی زندگی میں اس کے خاطر خواہ ثمرات مرتب نہیں ہو سکے اور نفاذ اسلام کے محاذ پر علمی و فکری ہوم ورک کا خلا بدستور ارباب علم و دانش کو کھٹک رہا ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۱ جنوری ۲۰۰۳ء

ڈاکٹر محمد حمید اللہؒ

ڈاکٹر محمد حمید اللہ رحمۃ اللہ علیہ نے طویل عرصہ تک اسلام کی دعوت واشاعت کے حوالہ سے گراں قدر خدمات سرانجام دیں۔ فرانسیسی زبان میں قرآن کریم کا ترجمہ کیا اور بے شمار لوگوں کو اسلام کی تعلیمات سے روشناس کرایا۔ بہت سے فرانسیسی باشندوں نے ان کے ہاتھ پر اسلام قبول کیا۔ وہ بنیادی طور پر تعلیم وتحقیق کی دنیا کے آدمی تھے اور انہوں نے ساری زندگی لکھنے پڑھنے کے ماحول میں گزار دی۔ فقیر منش اور قناعت پسند بزرگ تھے، کتاب زندگی بھر ان کی ساتھی رہی اور کتاب ہی کی خدمت میں وہ آخر دم تک مصروف رہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۴ دسمبر ۲۰۰۲ء

جدید مغربی معاشرے کے لیے دینی مدارس کا پیغام

تعجب کی بات یہ ہے کہ ہم مسلمانوں کے لیے بنیاد پرستی کو طعنہ بنا دیا گیا ہے اور اہل مغرب خود بنیادوں کی طرف واپسی کا راستہ تلاش کر رہے ہیں۔ برطانوی ولی عہد شہزادہ چارلس نے بی بی سی پر کئی لیکچر دیے اور کہا کہ ہم نے صرف عقل کو معیار قرار دے کر ٹھوکر کھائی ہے اور ہم نسل انسانی کو نقصان کی طرف لے جا رہے ہیں اس لیے ’’وجدان‘‘ کی طرف واپسی کی ضرورت ہے۔ برطانوی شہزادے نے ’’وجدان‘‘ کی اصطلاح استعمال کی ہے جو ابتدائی مرحلہ ہے۔ اس کے بعد وحی اور الہام ہی کی بات آئے گی ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۷ اکتوبر ۲۰۰۲ء

دور جدید کے فکری تقاضے اور علماء کرام

نوجوان علماء کو اس بات سے بھی باخبر ہونا چاہیے کہ جب یونان،ایران اور ہندوستان کے فلسفوں نے مسلمانوں کے عقائد واعمال میں دراندازی شروع کی، ان کے اثرات ہمارے ہاں پھیلنے لگے اور ان فلسفوں نے ہمارے عقائد کو متاثر کرنا چاہا تو اس وقت کے باشعور علماء اسلام نے ان فلسفوں سے آگاہی حاصل کی، ان پر عبور حاصل کیا اور ان فلسفوں کی زبان اور اصطلاحات استعمال کر کے انہی کے دلائل سے اسلام کی حقانیت کو دنیا کے سامنے پیش کیا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

نومبر ۲۰۰۲ء

’’دہشت گردی‘‘ کے حوالے سے اسلامی نظریاتی کونسل کا سوالنامہ

خلافت راشدہ سے لے کر خلافت عثمانیہ کے خاتمہ (۱۹۲۴ء) تک چونکہ اسلامی احکام وقوانین کا نفاذ کسی نہ کسی شکل میں اور کسی نہ کسی سطح پر تسلسل کے ساتھ موجود رہا ہے اس لیے ہر دور میں نئے پیش آمدہ مسائل ومشکلات کا حل بھی ساتھ ساتھ سامنے آتا رہا ہے، جس میں قضاۃ کے اجتہادی فیصلوں کے علاوہ ارباب علم اور اصحاب استنباط کی آزادانہ اجتہادی کاوشیں بھی شامل ہیں اور انسانی سوسائٹی کے حالات میں تغیر کے ساتھ ساتھ اجتہادی دائرہ میں ضرورت کے مطابق شرعی احکام وقوانین میں تغیر و تبدل کا سلسلہ بھی جاری رہا ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

اکتوبر ۲۰۰۲ء

دینی مدارس اور آج کے سوالات

جب ۱۸۵۷ء کے بعد انگریز حکمرانوں نے ہمارا پورا نظام تلپٹ کر دیا تھا، دینی مدارس ختم کر دیے تھے، نظام تعلیم کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا تھا اور ہر چیز الٹ پلٹ کر رکھ دی تھی تب دو طبقے سامنے آئے تھے اور انہوں نے ملت کو سہارا دیا تھا۔ دونوں نے الگ الگ شعبوں کی ذمہ داری قبول کی تھی۔ علماء کرام نے قرآن وسنت کی تعلیم کو باقی رکھنے کی ذمہ داری اپنے سر لی تھی اور اسلامی ثقافت اور تہذیب کے تحفظ کا وعدہ کیا تھا۔ انہوں نے اس مقصد کے لیے عوام سے تعاون کے لیے رجوع کیا، چندے مانگے، گھر گھر دستک دے کر روٹیاں مانگیں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۰ اگست ۲۰۰۲ء

حضرت سرفراز خان صفدرؒ کے دروس قرآن کی اشاعت کا آغاز

شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر مدظلہ کے درس قرآن کریم کے چار الگ الگ حلقے رہے ہیں۔ ایک درس بالکل عوامی سطح کا تھا جو صبح نماز فجر کے بعد مسجد میں ٹھیٹھ پنجابی زبان میں ہوتا تھا۔ دوسرا حلقہ گورنمنٹ نارمل سکول گکھڑ میں جدید تعلیم یافتہ حضرات کے لیے تھا جو سالہا سال جاری رہا۔ تیسرا حلقہ مدرسہ نصرت العلوم گوجرانوالہ میں متوسط اور منتہی درجہ کے طلبہ کے لیے ہوتا تھا اور دوسال میں مکمل ہوتا تھا۔ جبکہ چوتھا مدرسہ نصرۃ العلوم میں ۷۶ء کے بعد شعبان اور رمضان کی تعطیلات کے دوران دورۂ تفسیر کی طرز پر تھا جو پچیس برس تک پابندی سے ہوتا رہا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

اگست ۲۰۰۲ء

Pages


2016ء سے
Flag Counter