حضرت مولانا سلیم اللہؒ ، حضرت قاری محمد انورؒ، حضرت مولانا عبد الحفیظ مکیؒ

   
۱۸ جنوری ۲۰۱۷ء

گزشتہ دو روز سے صدمہ در صدمہ در صدمہ کی کیفیت میں ہوں۔ شیخ الحدیث حضرت مولانا سلیم اللہ خانؒ کی وفات پر صدمہ کے اظہار کے لیے حواس کو مجتمع کر رہا تھا کہ مدینہ منورہ سے استاذِ محترم حضرت قاری محمد انورؒ کی وفات کی خبر نے دوہرے صدمے سے دوچار کر دیا ۔ اور ابھی اس کی تفصیلات معلوم کرنے کی کوشش میں تھا کہ جنوبی افریقہ سے حضرت مولانا عبد الحفیظ مکیؒ کی اچانک وفات کی خبر آگئی، انا للہ وانا الیہ راجعون۔

تینوں بزرگوں کا تذکرہ خاصی تفصیل کا متقاضی ہے مگر سرِدست ابتدائی تاثرات ہی پیش کر سکوں گا۔ حضرت مولانا سلیم اللہ خانؒ علماء حق کے قافلہ کے سالار تھے اور انہوں نے علمی، عملی اور مسلکی محاذ پر جو خدمات سرانجام دیں وہ تاریخ کے ایک مستقل باب کی حیثیت رکھتی ہیں۔ وہ شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنیؒ کے شاگرد تھے اور اپنے استاذِ گرامی سے انہوں نے اپنے اردگرد ماحول پر ہر طرف نظر رکھنے کا ذوق بھی پایا تھا۔ ان کے اس ذوق کو دیکھتے ہوئے مجھے حضرت خالد بن ولیدؓ کا وہ واقعہ یاد آجاتا ہے جو ابن عساکرؒ نے ’’تاریخِ دمشق‘‘ میں ذکر کیا ہے کہ دمشق کی فتح کے بعد حضرت خالد بن ولیدؓ نے حمص میں رہائش اختیار کر لی تھی اور یوں سمجھ لیں کہ ریٹائرمنٹ کی زندگی بسر کرنے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ دمشق کے تین فاتحین حضرت ابوعبیدہؓ، حضرت خالد بن ولیدؓ اور حضرت یزید بن ابی سفیانؓ میں اول الذکر بزرگ فوت ہوگئے تھے، حضرت یزیدؓ کو امیر المومنین حضرت عمرؓ نے شام کا گورنر مقرر کر دیا تھا جبکہ حضرت خالد بن ولیدؓ حمص میں رہائش پذیر ہوگئے تھے۔ اس دوران انہوں نے ایک مجلس میں ذکر کیا کہ حضرت عمرؓ نے اب شاید غزوۂ ہند کا ارادہ کر لیا ہے اور انہیں یعنی حضرت خالد بن ولیدؓ کو اس کی تیاری کے لیے کہا جا رہا ہے۔ اس پر مجلس میں موجود کسی صاحب نے کہا کہ آپ اس سے معذرت کر دیں۔ ایک اور صاحب نے یہ سن کر کہا کہ اس طرح معذرت کرنے سے تو فتنہ پیدا ہوگا۔ حضرت خالد بن ولیدؓ نے ان صاحب کو یہ کہہ کر ٹوک دیا کہ ’’امّا فی عہد عمر فلا‘‘ کہ اس بات کی تسلی رکھو حضرت عمرؓ کی زندگی میں کوئی فتنہ کھڑا نہیں ہوگا۔ چنانچہ حضرت مولانا سلیم اللہ خانؒ کی ہر طرف نظر دیکھ کر یہ اطمینان رہتا تھا کہ کوئی فتنہ ان کی نظر سے اوجھل نہیں رہ سکے گا اور وہ اس کی نشاندہی اور روک تھام کے لیے کچھ نہ کچھ ضرور کریں گے۔

حضرت مولانا قاری محمد انورؒ میرے حفظ قرآن کریم کے استاذ تھے، میں نے ان سے گکھڑ ضلع گوجرانوالہ میں ۱۹۶۰ء میں حفظ قرآن کریم مکمل کیا تھا۔ وہ خاصا عرصہ گکھڑ میں رہے اور ہم سب بہن بھائی ان کے شاگرد ہیں۔ بڑے مشفق استاذ تھے، کم و بیش چالیس سال سے مدینہ منورہ میں مقیم تھے اور تحفیظ القرآن کی خدمات سرانجام دے رہے تھے۔ ان کی بہت سی یادیں ذہن میں تازہ ہو رہی ہیں جن میں سے ایک کا سرِدست تذکرہ کرنا چاہتا ہوں کہ ۱۹۷۷ء میں تحریک نظام مصطفیٰؐ کے دوران پاکستان قومی اتحاد کے ایک جلوس کی قیادت والد محترم حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ کر رہے تھے، ان کے ساتھ استاذ محترم قاری محمد انورؒ اور جے یو پی کے راہنما حاجی سید ڈارؒ بھی تھے۔ جلوس کو روکنے کے لیے فیڈرل سکیورٹی فورس کے کمانڈر نے ایک جگہ لائن لگا کر اعلان کیا کہ اس سے آگے بڑھنے والے کو گولی مار دی جائے گی، اس کے ساتھ ہی چاروں طرف سنگینیں تن گئیں جن کا رخ اس لائن کی طرف تھا۔ حضرت والد محترمؒ یہ سن کر اپنے ان دونوں ساتھیوں کے ہمراہ کلمۂ شہادت پڑھتے ہوئے سرخ لائن عبور کر گئے اور فرمایا کہ ’’مسنون عمر پوری کر چکا ہوں اور اب شہادت کے لیے تیار ہوں‘‘۔ ان تینوں حضرات کی اس جرأت رندانہ پر سنگینوں کا رخ زمین کی طرف ہوگیا اور فیڈرل سکیورٹی فورس نے پسپائی اختیار کر لی۔

حضرت مولانا عبد الحفیظ مکیؒ کے ساتھ تحریک ختم نبوت کے محاذ پر گزشتہ تین عشروں سے میری مسلسل رفاقت چلی آرہی تھی۔ انہوں نے ۱۹۸۵ء میں لندن میں پہلی انٹرنیشنل ختم نبوت کانفرنس منعقد کرنے کا پروگرام بنایا تو ان کے رفقاء کی ٹیم میں حضرت مولانا علامہ خالد محمود، حضرت مولانا منظور احمد چنیوٹیؒ اور حضرت مولانا محمد ضیاء القاسمیؒ کے ساتھ میں بھی شامل تھا۔ تب سے تحریک ختم نبوت کے محاذ پر ہماری باہمی رفاقت و تعاون کا سلسلہ چلا آرہا تھا اور میں نے ان کی دعوت و اہتمام پر اسی سلسلہ میں جنوبی افریقہ کا بھی دو دفعہ سفر کیا۔ وہ شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا کاندھلویؒ کی خدمت میں کافی عرصہ رہے اور ان کے خلیفہ مجاز تھے۔ حضرت شیخؒ کا رنگ ان کی زندگی میں نمایاں دکھائی دیتا تھا۔ وہ مکہ مکرمہ کی معروف دینی درسگاہ مدرسہ صولتیہ میں حدیث و فقہ کی تدریس کے فرائض سرانجام دیتے رہے ہیں اور تحریک ختم نبوت کے لیے کام کرنے والی بین الاقوامی تنظیم ’’انٹرنیشنل ختم نبوت موومنٹ‘‘ کے سربراہ ہونےکے ساتھ ساتھ اپنے شیخؒ کی طرز پر خانقاہی نظام میں خاصے متحرک و فعال تھے۔

آج صبح جامعہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ میں طلبہ کے ساتھ ایک نشست کے دوران ان تینوں بزرگوں کی خدمات کے تذکرہ کے ساتھ قرآن خوانی اور دعا کا اہتمام کیا گیا اور میں نے ان بزرگوں کی خدمات کے بارے میں مختصرًا کچھ گزارشات پیش کیں۔ یہ صدمہ تمام اہلِ دین کا مشترکہ صدمہ ہے اور قیامت کی نشانیوں میں سے ہے کہ اہل علم یکے بعد دیگرے اٹھتے جا رہے ہیں مگر ان کی جگہ سنبھالنے کے لیے نعم البدل تو کجا کوئی بدل بھی دکھائی نہیں دے رہا۔ اللہ تعالیٰ ان بزرگوں کے درجات جنت میں بلند سے بلند تر فرمائیں اور ہم سب کو ان کی حسنات کی پیروی کی توفیق سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔

   
2016ء سے
Flag Counter