آج میں اپنی ’’قادیانیت نوازی‘‘ کی داستان قارئین کی خدمت میں پیش کرنا چاہتا ہوں جس کے الزام کا مجھے گزشتہ چار پانچ برسوں سے بعض دوستوں کی طرف سے سامنا ہے اور اب اس الزام کا ہدف ہونے میں عزیزم حافظ محمد عمار خان ناصر بھی میرے ساتھ شریک ہو گیا ہے۔
چند برس پہلے کی بات ہے، پسرور کے ایک سن رسیدہ بزرگ قاضی عطاء اللہ صاحب میرے پاس تشریف لائے۔ وہ ایک سابق قادیانی خاندان سے تعلق رکھتے ہیں مگر نصف صدی قبل مسلمان ہو گئے تھے اور اب بحیثیت مسلمان زندگی بسر کر رہے ہیں۔ اردو ادب سے دلچسپی رکھتے ہیں۔ انہوں نے قرآن کریم کے مختلف تراجم کو سامنے رکھ کر ترجمہ قرآن کریم کو منظوم شکل میں پیش کیا ہے اور ’’مفہوم القرآن‘‘ کے نام سے اسے شائع کر رہے ہیں۔ اس کا پہلا حصہ ان کے پاس تھا اور وہ اس پر مجھ سے تقریظ لکھوانا چاہتے تھے۔ میں ان سے براہ راست واقف نہیں تھا اور ان کے ساتھ سابق قادیانی ہونے کا لاحقہ بھی ان کی گفتگو سے میرے علم میں آ چکا تھا، اس لیے میں نے ان سے کتاب لے کر رکھ لی اور عرض کیا کہ چند روز کتاب دیکھنے کے بعد کچھ لکھ سکوں گا۔ اس قسم کے معاملات میں میرا معمول یہ ہے کہ مقامی علماء کرام سے رجوع کرتا ہوں اور ان کی جو رائے ہو اس پر عمل کرتا ہوں۔ بادشاہی مسجد پسرور کے خطیب حضرت مولانا مفتی رشید احمد پسروری ان دنوں حیات تھے اور میرے بزرگ دوستوں میں سے تھے، ان سے ایک جگہ ملاقات ہوئی اور میں نے قاضی عطاء اللہ صاحب کے بارے میں دریافت کیا تو انہوں نے فرمایا کہ قادیانی تھے مگر اب صحیح العقیدہ مسلمان ہیں۔ اس پر میں نے اس کتاب کو چند جگہ سے دیکھا اور کچھ سطروں میں تقریظ لکھ دی جو انہوں نے کتاب کے اگلے ایڈیشن میں شامل کر دی۔
اس پر بعض دوستوں کی طرف سے اعتراض ہوا کہ میں نے ایک قادیانی کی تفسیر قرآن کریم پر تقریظ لکھ دی ہے۔ صرف اعتراض نہیں ہوا بلکہ ملک بھر میں اس کی خوب تشہیر کی گئی۔ چنانچہ مختلف شہروں سے مجھے فون آنے لگے بلکہ عام حلقوں میں تقسیم کیے جانے والے ایک پمفلٹ میں اس اعتراض کا ذکر کیا گیا۔ جس پر میں نے قاضی عطاء اللہ موصوف سے رابطہ کیا تو وہ ایک بڑی فائل لے کر میرے پاس آ گئے جو ان کے قادیانی ہونے کے اخباری پراپیگنڈا اور ان کی طرف سے جوابات پر مشتمل تھی اور ان کا ایک حلف نامہ بھی اس میں شامل تھا جس میں پوری وضاحت کے ساتھ کہا گیا ہے کہ وہ صحیح العقیدہ مسلمان ہیں اور قادیانی نہیں ہیں۔ اس حلف نامہ میں انہوں نے اپنے عقائد کا بھی دوٹوک انداز میں ذکر کیا ہے اور اس پر پسرور کے دیوبندی، بریلوی اور اہلحدیث مکاتب فکر کے معروف علماء کرام کی تصدیقات ہیں۔ اس کے بعد ایک موقع پر میں پسرور گیا تو مختلف علماء کرام سے براہ راست بھی اس مسئلے پر بات کی، انہوں نے پورے اطمینان کے ساتھ بتایا کہ قاضی صاحب موصوف پر قادیانی ہونے کا الزام غلط ہے اور وہ صحیح العقیدہ مسلمان ہیں۔ اس کے باوجود نہ صرف پراپیگنڈا مہم جاری رہی بلکہ مسلسل لابنگ بھی ہوتی رہی، چنانچہ ہمارے اپنے مدرسہ جامعہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ کے دو بزرگ اساتذہ حضرت مولانا سید عبد المالک شاہ صاحب اور حضرت مولانا اللہ یار خان صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ نے مجھ سے اس کی تحریری وضاحت طلب کی اور تقاضا کیا کہ میں قاضی عطاء اللہ موصوف کی کتاب ’’مفہوم القرآن‘‘ پر اپنی تقریظ سے رجوع کا اعلان کروں۔ اس پر میں نے ایک بار پھر پسرور کے علماء کرام سے رابطہ کیا مگر صورتحال میں کوئی تبدیلی نہ پا کر تقریظ واپس لینے سے معذرت کر دی اور دونوں بزرگوں کو تحریری طور پر اصل صورتحال اور اپنے موقف سے آگاہ کر دیا۔
میرا خیال تھا کہ اس کے بعد یہ مہم ختم ہو جائے گی مگر بدقسمتی سے ایسا نہ ہو سکا، البتہ اس کا رخ بدل گیا اور معترض دوستوں نے پنجاب حکومت کی طرف سے قائم کردہ ’’متحدہ علماء بورڈ‘‘ کو درخواست دی کہ یہ کتاب ایک قادیانی نے لکھی ہے اور اس میں قادیانی عقائد کا پرچار کیا گیا ہے، اس لیے اس پر پابندی لگائی جائے۔ متحدہ علماء بورڈ کے سربراہ حضرت مولانا پیر سید امین الحسنات شاہ صاحب آف بھیرہ شریف ہیں، وہ میرے مہربان اور بزرگ دوستوں میں سے ہیں۔ انہوں نے کتاب پر میری تقریظ دیکھی تو چونک گئے کہ ایک قادیانی کی کتاب پر میری تقریظ کیسے ہو سکتی ہے؟ انہوں نے مہربانی فرما کر مجھ سے فون پر براہ راست رابطہ کر لیا، میں نے انہیں صورتحال سے آگاہ کیا اور گزارش کی کہ آپ جو مناسب سمجھیں فیصلہ کریں لیکن میری درخواست صرف اتنی ہے کہ اس سلسلے میں میرے پاس متعلقہ کاغذات کی ایک فائل ہے اسے ایک نظر دیکھ لیں۔ اس کے بعد جو فیصلہ چاہیں کر لیں۔ حضرت پیر صاحب محترم کے ارشاد پر میں نے وہ فائل انہیں بھجوا دی۔ اس کے بعد مجھے معلوم نہیں کہ انہوں نے کیا فیصلہ فرمایا۔
مگر بات یہاں بھی نہیں رکی اور پاکستان شریعت کونسل میں میرے قریب کے ساتھیوں سے رابطہ کیا گیا اور ان سے کہا گیا کہ وہ مجھے اپنے موقف پر نظرثانی کے لیے کہیں۔ مولانا عبد الحق خان بشیر میرے حقیقی بھائی ہیں اور پنجاب شریعت کونسل کے امیر ہیں جبکہ لاہور باغبانپورہ کے مولانا قاری جمیل الرحمن اختر میرے حقیقی بھائیوں کی طرح ہیں اور مرکزی شریعت کونسل کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل ہیں۔ دونوں حضرت میرے پاس الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ میں تشریف لائے اور اس مسئلے پر مجھ سے تفصیلی بات کی۔ میں نے گزارش کی کہ مجھے اپنے موقف پر اس قدر اصرار نہیں ہے کہ اس پر کسی کی بات نہ سنوں۔ آپ دونوں حضرات خود پسرور تشریف لے جائیں اور اپنے طور پر وہاں کے علماء کرام سے بات کر کے تحقیق کریں۔ اس کے بعد آپ دونوں حضرات جو بھی کہیں گے، میں اسے قبول کرنے کے لیے تیار ہوں۔ چنانچہ یہ دونوں حضرات پسرور تشریف لے گئے اور اپنے طور پر صورتحال معلوم کی۔ واپسی پر انہوں نے جو رپورٹ پیش کی اس کا خلاصہ یہ ہے کہ قاضی عطاء اللہ صاحب کو قادیانی قرار دینے کی بات تو درست نہیں ہے، البتہ ان کی اس کتاب کے بعض مندرجات پر اشکالات ہیں اور ان سے یہ سمجھا جا رہا ہے کہ ان عبارات سے قادیانیوں کی بعض باتوں کی حمایت کا تاثر ملتا ہے۔ ان کی اگر وضاحت ہو جائے تو مناسب ہوگا۔ اس حوالے سے قاضی صاحب سے میری بات اس سے قبل بھی ہو چکی تھی اور انہوں نے صاف طور پر کہہ دیا تھا کہ وہ عالمِ دین نہیں ہیں اور نہ ہی انہوں نے قرآنِ کریم کا ازسرنو کوئی ترجمہ کیا ہے بلکہ انہوں نے اردو تراجم کو سامنے رکھ کر قرآن کریم کے اردو ترجمہ کو منظوم شکل دی ہے، اس لیے علماء کرام جہاں بھی کوئی اشکال محسوس کریں اس کی نشاندہی کر دیں، میں اس عبارت کی اصلاح کر دوں گا۔ مگر مولانا عبد الحق خان بشیر اور مولانا قاری جمیل الرحمن اختر کی پسرور سے واپسی کے بعد میں نے دوبارہ قاضی عطاء اللہ صاحب سے رابطہ کیا اور وہ میرے پاس تشریف لائے۔ ان کا موقف اب بھی وہی تھا کہ علماء کرام کتاب کا مطالعہ کر کے نشاندہی کریں، جو عبارت بھی مشتبہ ہوگی، وہ اسے تبدیل کر دیں گے۔ چنانچہ اب وہ کتاب میں نے نظرثانی اور تفصیلی مطالعہ کے لیے مولانا عبد الحق خان بشیر کو دے دی ہے اور ان کی ابتدائی رپورٹ یہ ہے کہ اس قسم کی کوئی واضح عبارت تو نظر نہیں آئی البتہ بعض عبارات سے اشتباہ ہوتا ہے جن کی اصلاح کی ضرورت ہے۔
یہ تو میرے ’’قادیانی نواز‘‘ ہونے کی داستان ہے اور اب عزیزم عمار خان بھی اس الزام میں میرے ساتھ شریک ہو گیا ہے۔ عمار خان نے اسلامی نظریاتی کونسل کے رسالہ ’’اجتہاد‘‘ میں اجتہادی رویوں اور دینی تحریکات کی حکمتِ عملی کے حوالے سے ایک مضمون لکھا جو ’’اجتہاد‘‘ کے بعد ماہنامہ الشریعہ کے دسمبر ۲۰۱۰ء کے شمارہ میں بھی شامل ہوا۔ اس میں اس نے قادیانیوں کے بارے میں اختیار کی جانے والی حکمتِ عملی کے حوالے سے لکھا کہ:
’’اگر کسی معاشرے میں کشف و الہام انفرادی دائرے سے اٹھ کر ایک باقاعدہ اداراتی صورت اختیار کر چکے ہوں، ان کی بنیاد پر شخصیات اور جماعتوں کے عند اللہ مقبول ہونے یا نہ ہونے کے فیصلے کیے جاتے ہوں، لوگوں کو ان کی طرف دعوت جاتی اور ان کے ساتھ وابستہ ہونے والوں کو نجات کی بشارت دی جاتی ہو، القا و الہام کی بنیاد پر مراقبہ و سلوک کے نظام مرتب کیے جاتے بلکہ سیاسی و مذہبی اختلافات میں بھی حق و باطل کی تفریق کرنا ایک عام چلن ہو، جہاں خواب اور بشارات کسی کے مامور من اللہ ہونے کا ایک مستند ذریعہ سمجھے جاتے ہوں، ایسی فضا میں اگر کوئی شخص ’’شبانی سے کلیمی دو قدم ہے‘‘ کا نعرۂ مستانہ بلند کر دے اور عام لوگ اس کے فریب میں مبتلا ہو کر اسے ایک ’’امتی نبی‘‘ مان لیں تو انہیں کس حد تک اس کا قصور وار ٹھہرایا جا سکتا اور راہ راست پر لانے کی ہمدردانہ کوشش کو بالکل نظر انداز کرتے ہوئے محض ان کا معاشرتی مقاطعہ کرنے اور قانونی اقدامات کے ذریعے سے انہیں مسلمانوں سے الگ کر دینے پر اکتفا کے طرزِ عمل کو کس حد تک اخلاق، حکمت اور دعوتِ دین کے تقاضوں کے مطابق قرار دیا جا سکتا ہے؟ ‘‘ (الشریعہ، دسمبر ۲۰۱۰، ص ۴۸)
عزیزم عمار کی اس عبارت پر ملک کے مختلف دینی جرائد میں تبصرہ شائع ہوا ہے اور اس عبارت سے یہ مطلب اخذ کیا گیا ہے کہ ’’امتی نبی‘‘ ہونا کوئی قابل اعتراض بات نہیں ہے اور قادیانیوں کے معاشرتی مقاطعہ اور ان کے خلاف قانونی اقدامات کا طرزِ عمل درست نہیں ہے۔ حالانکہ تھوڑے سے غور و خوض کے بعد یہ بات معلوم ہو جاتی ہے کہ اس عبارت میں:
- تصوف میں مبالغہ آرائی کی بعض صورتوں پر طنز کیا گیا ہے جو خود میرے نزدیک بھی مناسب بات نہیں ہے۔ یہ بات اس سے بہتر اسلوب میں بھی کہی جا سکتی تھی۔
- اس طرزِ عمل کو عام مسلمانوں کے قادیانی فریب سے متاثر ہونے کا سبب قرار دیا گیا ہے اور
- فریب کاری سے متاثر ہونے والے سادہ لوح مسلمانوں کے بارے میں کہا گیا ہے کہ انہیں ہمدردی کے ساتھ اس فریب سے نکالنے اور اسلام میں واپس لانے کی تدابیر اختیار کی جانی چاہئیں۔
یہ مضمون الشریعہ کے دسمبر ۲۰۱۰ء کے شمارے میں شائع ہوا ہے، جبکہ اس سے قبل مارچ ۲۰۱۰ء کے شمارے میں مولانا مشتاق احمد چنیوٹی کی تصنیف ’’اقبالؒ اور قادیانیت‘‘ پر تبصرہ کرتے ہوئے عمار خان اپنا یہی موقف ان الفاظ میں لکھ چکا ہے کہ:
’’انیسویں صدی کے آخر میں مرزا غلام احمد قادیانی نے اپنی ظلی نبوت کے عنوان سے برصغیر میں ایک نیا باب الفتن کھولا تو سادہ لوح عوام کو اس کے دجل و فریب سے آگاہ کرنے کے لیے اہلِ حق کو میدان میں آنا پڑا اور اہلِ علم نے علمی و تحقیقی اور مناظرانہ و مجادلانہ، ہر دو انداز میں پوری مستعدی سے قادیانی نبوت کی تاویلات و تحریفات کا پردہ چاک کیا۔ اہلِ دین کی کم و بیش پون صدی کی مسلسل جدوجہد قادیانی فرقے کو عالمِ اسلام میں قانونی اور آئینی سطح پر غیر مسلم قرار دینے پر منتج ہوئی۔ اس تحریک کی قیادت اور راہ نمائی بنیادی طور پر علماء نے کی، تاہم اس کی کامیابی میں بہت سی ایسی شخصیات کا حصہ بھی کم نہیں جو روایتی مذہبی حلقے کی نمائندہ نہیں سمجھی جاتیں۔ ان شخصیات میں علامہ محمد اقبالؒ کا نام سرِفہرست ہے۔
قادیانی گروہ نے اپنی معاشرتی حیثیت کو مستحکم کرنے کے لیے لوگوں کو مذہبی تاویلات اور گورکھ دھندوں میں الجھانے کے ساتھ ساتھ کئی سیاسی اور سماجی عوامل کا بھی سہارا لینے کی کوشش کی۔ برصغیر کی فضا مختلف مذہبی گروہوں کی طرف سے ایک دوسرے کی تکفیر کے واقعات سے مانوس تھی، جبکہ مرزا غلام احمد دعوائے نبوت سے پہلے کئی سال تک ہندوؤں اور عیسائیوں کے مقابلے میں دفاعِ اسلام کے محاذ پر محنت کر کے اپنے حق میں ہمدردی کی فضا بڑے پیمانے پر پیدا کر چکے تھے، چنانچہ جب ان کے دعوائے نبوت پر کفر کا فتویٰ لگایا گیا تو ایک وقت تک ناواقف مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد اسے روایتی مذہبی فتوے بازی ہی کا ایک نمونہ سمجھتی رہی۔ اس کے ساتھ ساتھ نہ صرف انگریز سرکار بلکہ اسلام سے محض نسبت کا تعلق رکھنے والے نام نہاد لبرل طبقات کی ہمدردیاں بھی اس نوزائیدہ گروہ کو حاصل تھیں۔ اس تناظر میں علامہ اقبالؒ جیسی قد آور اور معتبر مِلی شخصیت کا قادیانی نبوت کے خلاف دو ٹوک اور واضح موقف اختیار کرنا ان تمام طبقات پر مذہبی علماء کے موقف کا وزن واضح کرنے میں بے حد مؤثر ثابت ہوا جو کسی بھی وجہ سے اس معاملے میں تردد یا دو ذہنی کا شکار تھے۔
زیر نظر کتابچہ میں مولانا مشتاق احمد چنیوٹی نے، جو اس موضوع کے متخصص ہیں، قادیانیت کے بارے میں علامہ محمد اقبالؒ کی تحریروں، گفتگوؤں اور بیانات کا ایک مختصر مگر نمائندہ انتخاب جمع کر دیا ہے جو اس حوالے سے ان کے زاویۂ نظر اور استدلال کو سمجھنے میں مدد دیتا ہے۔ مثال کے طور پر اقبالؒ کے طرزِ استدلال کا ایک امتیاز یہ ہے کہ انہوں نے عقیدۂ ختم نبوت کے حوالے سے مسلمانوں کا مقدمہ خالص کلامی بنیاد پر پیش کرنے کے بجائے اپنے مخاطب طبقات کی ذہنی رعایت سے، اس عقیدے کی اہمیت کو سماجی اصولوں کی روشنی میں واضح کیا اور یہ بتایا کہ بحیثیت ایک گروہ کے مسلمانوں کے مذہبی تشخص کی بنیاد اسی عقیدے پر ہے اور اس کی حفاظت کے لیے یہ ان کا مذہبی، اخلاقی اور جمہوری حق ہے کہ کسی نئی نبوت پر ایمان لانے والے گروہ کو ان کا حصہ سمجھنے کے بجائے ایک نیا مذہبی گروہ قرار دے کر قانونی اعتبار سے ان سے الگ کر دیا جائے۔ (ص ۱۶، ۱۷)
اسی طرح انہوں نے قادیانی گروہ پر زندقہ و ارتداد کے روایتی فقہی احکام (یعنی سزائے موت) جاری کرنے کے بجائے جدید جمہوری تناظر میں یہ تجویز کیا کہ قادیانیوں کو ایک الگ جماعت تسلیم کر لیا جائے اور پھر مسلمان ان کے بارے میں ویسے ہی مذہبی اور معاشرتی رواداری سے کام لیں گے جیسے وہ دوسرے مذاہب کے بارے میں لیتے ہیں۔ (ص ۱۱) یہ بات اس پہلو سے بہت اہم اور حکیمانہ تھی کہ قانونی تکفیر کے باوجود اس سے آگے چل کر ان ہزاروں لوگوں کے لیے اسلام کی طرف واپسی کا راستہ کھلا رہتا جو مختلف وجوہ سے قادیانیت کے پُرفریب جال کا شکار ہو کر جادۂ حق سے بھٹک گئے، جبکہ موجودہ صورتحال میں مسلمان مناظرین کے اختیار کردہ لب و لہجہ اور طرزِ استدلال نیز قادیانیوں کی نئی نسل کا مسلمانوں کے ساتھ اختلاط بالکل مفقود ہونے کی وجہ سے یہ راستہ کم و بیش بند دکھائی دیتا ہے۔ چنانچہ مرزا طاہر احمد کے دست راست حسن محمود عودہ نے بیس سال قبل اپنے قبولِ اسلام کے موقع پر ایک انٹرویو میں قادیانی امت کے اپنی گمراہی پر قائم رہنے کا ایک بڑا سبب اس چیز کو قرار دیا تھا کہ ان کی مسلمان علماء تک رسائی نہیں ہے اور قادیانی قیادت اس خلیج کو برقرار رکھنے میں ہی اپنا بھلا سمجھتی ہے۔ ‘‘
’الشریعہ‘ کے مارچ ۲۰۱۰ء کے شمارے میں شائع ہونے والے اس تفصیلی موقف پر نظر ڈالنے کے بعد دسمبر ۲۰۱۰ء کے شمارے میں شائع ہونے والے مضمون کے اس اجمالی اقتباس کو پھر سے ملاحظہ فرما لیا جائے کہ اس میں قادیانیوں کی حمایت کی گئی ہے یا ان کے فریب کا شکار ہونے والے سادہ لوح مسلمانوں کو فریب کے اس دائرے سے ہمدردی کے ساتھ نکال لانے کی بات کہی گئی ہے؟ ہم تو ان دوستوں سے صرف یہی عرض کر سکتے ہیں کہ
۱۹۷۴ء کی تحریک ختم نبوت کی بات ہے۔ میں اس وقت کل جماعتی مجلس تحفظ ختم نبوت ضلع گوجرانوالہ کا سیکرٹری تھا اور مرکزی جامع مسجد چونکہ تحریک کا مرکز تھی، اس لیے تحریک کے تنظیمی اور دفتری معاملات کا انچارج بھی تھا۔ ضلع گوجرانوالہ کے ایک قصبے میں تحریک کے جلسے کا پروگرام تھا جس میں لاؤڈ اسپیکر کے استعمال کی اجازت کے لیے اے سی (اسسٹنٹ کمشنر) کو درخواست دے رکھی تھی۔ راقم الحروف تحریک ختم نبوت کے ایک اور راہنما کے ساتھ اے سی گوجرانوالہ سے ملا کہ وہ اجازت دے دیں۔ انہوں نے حالات کی خرابی اور جھگڑے کے خدشے کے عنوان سے ٹال مٹول کرنا چاہی۔ میرے ساتھ جانے والے دوست نے اچانک ان سے کہہ دیا کہ آپ قادیانی تو نہیں ہیں؟ اے سی کچھ گھبرا سا گیا اور یہ کہہ کر منظوری کے دستخط کر دیے کہ مولوی صاحب! اتنا بڑا الزام مجھ پر نہ لگائیں اور جائیں جا کر جلسہ کریں۔ اے سی کے دفتر سے باہر نکلے تو مولوی صاحب سے میں نے کہا کہ آپ نے ایسا کیوں کیا؟ انہوں نے کہا کہ اس کے بغیر وہ اجازت نہ دیتا۔ اس وقت تو میں نے بھی محسوس نہ کیا کہ ہم جس کام کے لیے گئے تھے وہ ہو گیا تھا، لیکن بعد میں یہ بات آہستہ آہستہ کھلتی چلی گئی کہ ہم بسا اوقات اپنا کام نکلوانے کے لیے یا کوئی غصہ نکالنے کے لیے بھی کسی اچھے بھلے مسلمان کو قادیانی کہہ دینے سے گریز نہیں کرتے۔ اس کے بعد تحریکی زندگی میں بہت سے مراحل ایسے آئے کہ اچھے خاصے بزرگوں کی طرف سے بھی اسی قسم کے طرزِ عمل کا مشاہدہ کرنا پڑا۔
پنجاب کے سابق آئی جی پولیس احمد نسیم چودھری گکھڑ کے رہنے والے ہیں، میرے ذاتی دوستوں میں سے ہیں۔ انہوں نے قرآنِ کریم کی ابتدائی تعلیم ہمارے گھر میں ہماری والدہ محترمہ سے حاصل کی ہے اور ہمارے والد محترم حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر قدس اللہ سرہ العزیز کے خاص عقیدت مندوں میں سے ہیں۔ ایک زمانے میں وہ ضلع جھنگ کے ایس ایس پی تھے۔ ایک روز حضرت مولانا منظور احمد چنیوٹیؒ گوجرانوالہ میرے پاس تشریف لائے اور باتوں باتوں میں فرمایا کہ ہمارے ضلع کا ایس ایس پی مرزائی ہے۔ میں نے چونک کر دریافت کیا کہ کیا ضلع جھنگ کا ایس ایس پی تبدیل ہو گیا ہے؟ فرمایا کہ نہیں، وہی احمد نسیم ہے۔ میں نے حیرت سے کہا کہ حضرت! آپ کیا کہہ رہے ہیں؟ فرمانے لگے کہ میں نے تحقیق کر لی ہے، وہ قادیانی ہے اور اس کا نام بھی قادیانیوں والا ہے۔ مجھے سخت غصہ آیا۔ میں نے عرض کیا کہ حضرت! آپ اسے نہیں، مجھے قادیانی کہہ رہے ہیں۔ مولانا چنیوٹی بھی چونکے اور فرمایا، کیا تم اسے جانتے ہو؟ میں نے عرض کیا کہ اچھی طرح جانتا ہوں۔ وہ میرا دوست ہے، بھائی ہے، کلاس فیلو ہے اور حضرت والد صاحب کے شاگردوں میں سے ہے۔ پھر میں نے مولانا چنیوٹی کو احمد نسیم چودھری کے بارے میں تفصیل کے ساتھ بتایا تو بڑے پریشان ہوئے۔ قارئین کی معلومات کے لیے عرض کر رہا ہوں کہ جس زمانے میں احمد نسیم چودھری لاہور کے ایس ایس پی تھے، اخبارات میں ان کے خلاف بعض حلقوں کا بیان شائع ہوا تھا کہ لاہور کے ایس ایس پی نے لاہور کے تھانوں کی مساجد میں دیوبندی اماموں کی بھرمار کر دی ہے۔
مولانا چنیوٹی میری بات سن کر الجھن میں پڑ گئے اور فرمایا کہ مجھے اس کے ایک ڈی ایس پی نے بڑے وثوق کے ساتھ بتایا ہے کہ وہ قادیانی ہے۔ میں نے عرض کیا کہ آپ اس بات کی تحقیق کریں کہ اس ڈی ایس پی نے ایسا کیوں کہا ہے؟ کچھ دنوں بعد مولانا چنیوٹی نے خود مجھے بتایا کہ تمہاری بات ٹھیک ہے۔ اس ڈی ایس پی کا کوئی کام ایس ایس پی نے نہیں کیا تھا اور اس نے غصہ نکالنے کے لیے اس عنوان سے مجھے استعمال کرنا چاہا، مگر تم نے اچھا کیا کہ مجھے بروقت آگاہ کر دیا اور میں اس سے بچ گیا۔ اس کے بعد میری درخواست پر احمد نسیم چودھری اور مولانا چنیوٹی کی باہم ملاقات ہوئی اور پھر ان کے درمیان بہت اچھے دوستانہ مراسم کا سلسلہ شروع ہو گیا۔
مولانا چنیوٹی چونکہ اس محاذ کے جرنیل تھے اور ان کی بات کو اس حوالے سے سند سمجھا جاتا تھا، اس لیے بعض لوگ مولانا موصوف کی اس پوزیشن سے ناجائز فائدہ اٹھانے کی ناروا کوشش کرتے تھے۔ اسی سلسلے کا ایک اور واقعہ یہ ہے کہ مولانا چنیوٹی کہیں جاتے ہوئے میرے پاس گوجرانوالہ میں رکے اور بریف کیس سے ایک فائل نکال کر مجھے دکھائی کہ گکھڑ کا ایک شخص غالباً بحرین کے پاکستانی سفارت خانے میں افسر ہے جس کے بارے میں وہاں سے بعض پاکستانیوں کے خطوط آئے ہیں جن کی ساہیوال کے ایک بڑی دینی جامعہ نے بھی تصدیق کی ہے کہ وہ شخص قادیانی ہے اور بحرین کے پاکستانیوں کو تنگ کر رہا ہے۔ چونکہ وہ گکھڑ کا رہنے والا ہے، اس لیے تمہارے ساتھ مشورہ کے لیے آیا ہوں۔ میں نے نام پوچھا تو بتایا کہ اس کا نام شعبان اپل ہے۔ میرے دونوں ہاتھ بے ساختہ کانوں تک چلے گئے کہ اس کا معاملہ بھی احمد نسیم چودھری کی طرح کا تھا۔ وہ ہمارا پڑوسی تھا۔ ہمارا بچپن اکٹھے گزرا، میں نے لکھنا پڑھنا اس کی ہمشیرہ سے سیکھا اور اس نے قرآن کریم میری والدہ مرحومہ سے پڑھا۔ اس کی والدہ اور میری والدہ آپس میں سہیلیاں بنی ہوئی تھیں اور ہم اس کی والدہ کو خالہ جی کہا کرتے تھے۔ آج بھی ان کی یاد آتی ہے تو اس دور کی حسین یادیں دل میں گدگدی کرنے لگتی ہیں۔ میں نے وہ فائل ایک نظر دیکھی اور یہ کہہ کر مولانا چنیوٹی کو واپس کر دی کہ اس نے کسی کا کام نہیں کیا ہوگا اور اس نے بدلہ لینے کے لیے یہ حرکت کر دی ہے۔ مولانا چنیوٹی بھی فرمانے لگے کہ اچھا ہوا میں نے تم سے پوچھ لیا ورنہ میں بحرین کی حکومت اور پاکستان کی حکومت دونوں کو باضابطہ خط لکھنے والا تھا کہ اس افسر کو بحرین کے پاکستانی سفارت خانے سے واپس کیا جائے۔
بعض واقعات تو اس سے بھی زیادہ خوفناک ہیں جو میرے حافظے میں محفوظ ہیں، مگر ایک اور واقعہ عرض کر دینا مناسب معلوم ہوتا ہے۔ ایک دفعہ گوجرانوالہ میں عالمی مجلسِ تحفظ ختمِ نبوت کے دفتر میں سرکردہ علماء کرام کا ڈویژنل سطح پر اجلاس تھا۔ اس میں ضلع سیالکوٹ کے ایک محترم بزرگ نے بڑے وثوق کے ساتھ اپنے خطاب میں کہا کہ پنجاب کا سیکرٹری تعلیم قادیانی ہے، اس کے بارے میں آواز اٹھانی چاہیے۔ اجلاس کے بعد میں نے ان سے علیحدگی میں پوچھا کہ کیا آپ کو یقین ہے اور آپ نے تحقیق کر لی ہے؟ انہوں نے بڑے اعتماد سے کہا کہ ہاں، وہ بہت پکا قادیانی ہے۔ ضیاء الحق مرحوم کا دور حکومت تھا اور ان کے ایک مشیر کے ساتھ جو تعلیم کے شعبہ ہی کے مشیر تھے، میری علیک سلیک تھی۔ کچھ دنوں کے بعد میرا اسلام آباد جانے کا پروگرام بن گیا اور میں نے طے کیا کہ جنرل ضیاء الحق مرحوم کے اس مشیر سے اس سلسلے میں خود بات کروں گا۔ ان دنوں میرے ایک پرانے دوست پروفیسر افتخار احمد بھٹہ وفاقی وزارتِ تعلیم میں افسر تھے۔ پہلے میں نے ان سے مشورہ کرنا مناسب سمجھا اور خیال کیا کہ انہیں بھی ملاقات میں ساتھ لے جاؤں گا۔ انہوں نے میری بات سنی تو فرمایا کہ تم نے بہت اچھا کیا کہ مجھ سے بات کر لی ورنہ بہت گڑبڑ ہو جاتی، اس لیے کہ جن صاحب کے پاس تم یہ شکایت لے کر جا رہے ہو، یہ ان صاحب کے داماد ہیں جن کی شکایت کرنے آئے ہو اور دونوں میں سے کوئی بھی قادیانی نہیں ہے۔ میرے کچھ اور کام بھی تھے مگر پروفیسر افتخار احمد بھٹہ کی یہ بات سن کر میں اتنا کنفیوژ ہوا کہ میں نے سرے سے ان مشیر صاحب سے ملاقات کا ارادہ ہی ترک کر دیا اور واپس گوجرانوالہ چلا آیا۔
عقیدۂ ختم نبوت کے لیے جدوجہد کرنا عبادت ہے اور قادیانیوں کا ہر محاذ پر تعاقب کرنا ہماری دینی ذمہ داری ہے لیکن ہر جدوجہد اور محاذ کی کچھ اخلاقیات بھی ہوتی ہیں۔ پھر ہمارا دین تو ’’دینِ اخلاق‘‘ کہلاتا ہے اور ہم ساری دنیا کے سامنے جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کے اخلاقِ عالیہ کا اعلان کرتے رہتے ہیں، کیا خود ہمارے لیے ان اخلاقیات کا لحاظ کرنا ضروری نہیں ہے؟ اللہ تعالیٰ ہمارے حال پر رحم فرمائیں، آمین یا رب العالمین۔