توہینِ رسالت کا مسئلہ ایک حالیہ امریکی فلم کے حوالے سے ایک بار پھر پوری دنیا میں موضوع بحث ہے اور دنیا بھر کے مسلمان اس سلسلہ میں اپنے جذبات کا اظہار کر رہے ہیں جو ان کے ایمان و عقیدت کا مظہر ہے، اور اس حقیقت کا عالمی فورم پر ایک بار پھر بھرپور اظہار ہے کہ دنیا کا کوئی بھی مسلمان کسی بھی حوالے سے جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کو برداشت نہیں کر سکتا اور اس سلسلے میں دنیا کے ہر خطے کے مسلمانوں کے جذبات ایک جیسے ہیں۔ پاکستان میں بھی رمشا مسیح کیس کے تناظر میں اس مسئلہ کے مختلف پہلوؤں پر بحث و تمحیص کا سلسلہ جاری ہے اور اس کے دو تین پہلو بہرحال ارباب فکر و دانش کی سنجیدہ توجہ کے مستحق ہیں۔
ایک یہ کہ اس عنوان سے بین الاقوامی سیکولر لابیاں مسلمانوں کے خلاف پروپیگنڈے اور لابنگ کے لیے اس قسم کے کیسوں کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرتی ہیں اور خاص طور پر ورلڈ چرچ کونسل کی طرف سے آئندہ چند روز میں اس موضوع پر منعقد ہونے والی بین الاقوامی کانفرنس سے قبل اس طرح کا ماحول بنایا جا رہا ہے کہ اس کانفرنس کو پاکستان میں توہینِ رسالت پر موت کی سزا کے قانون کو غیر مؤثر بنانے کے لیے زیادہ سے زیادہ استعمال کیا جا سکے۔ بین الاقوامی سیکولر لابیاں پاکستان کے اسلامی تشخص، پاکستان میں نافذ چند اسلامی احکام و قوانین اور خاص طور پر ناموس رسالت کے تحفظ اور قادیانیوں کی غیر اسلامی سرگرمیوں کی روک تھام کے قوانین کے درپے ہیں اور ان کی مسلسل کوشش ہے کہ ان قوانین کو ختم کرا دیا جائے یا کم از کم عملی طور پر غیر مؤثر بنا دیا جائے۔ یہ صورتحال ملک کے دینی حلقوں اور علمی مراکز کے لیے لمحۂ فکریہ ہے۔
ہمارا عمومی مزاج یہ بن گیا ہے کہ اس قسم کے معاملات میں وقتی دباؤ کے تحت ہم اکٹھے ہو جاتے ہیں اور احتجاجی میدان میں کچھ نہ کچھ کر بھی دیتے ہیں جس کے فوائد وقتی طور پر مل جاتے ہیں، لیکن اس بارے میں مستقل طور پر کوئی پروگرام ہمارے ہاں نظر نہیں آ رہا جس سے ہم عالمی سیکولر لابیوں کی اس مہم کا سنجیدگی کے ساتھ مستقل طور پر سامنا کر سکیں اور اس کے سدِباب کا کوئی معقول راستہ تلاش کر سکیں۔ اگر مسلم حکومتیں اس سلسلے میں کچھ کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں تو دینی قوتوں کو ہی باہمی مشاورت کے ساتھ اس کا اہتمام کر لینا چاہیے۔
دوسری طرف یہ صورتحال بھی ہم سب کے لیے لمحۂ فکریہ ہے کہ ہم لاکھ انکار کریں، مگر توہینِ رسالت کی سزا کے قانون کا مبینہ طور پر غلط استعمال اس مسئلہ پر ہماری پوزیشن کو مسلسل کمزور کرتا جا رہا ہے اور مسلکی تنازعات میں توہینِ رسالت کے قانون کی آڑ میں ہم خود اس قانون کو غیر مؤثر بنانے کا باعث بن رہے ہیں۔ دوسرے واقعات کو ایک طرف رکھیں، گوجرانوالہ میں تین ایسے واقعات خود میرے مشاہدے میں موجود ہیں جو ہمارے لیے جگ ہنسائی کا باعث بن چکے ہیں۔
- چند سال قبل گرجاکھ میں ایک مسجد کے امام صاحب قرآن کریم کے بوسیدہ اوراق تلف کرنے کے لیے جلا رہے تھے کہ ان کے ایک مسلکی مخالف نے دیکھ لیا اور شور مچا کر لوگوں کو جمع کر لیا۔ مولوی صاحب کو گرفتار کر لیا گیا، مقدمہ کا اندراج ہوا اور توہین قرآن کریم کے جرم پر انہیں سزا دلوانے کی مہم شروع ہو گئی۔ پولیس نے ہم سے رابطہ کیا تو خود میں نے لکھ کر دیا کہ قرآنِ کریم کے بوسیدہ اوراق کو تلف کرنے کے لیے جلانے کی روایت موجود ہے اور فقہائے کرام نے بھی بعض صورتوں میں اجازت دی ہے، اس لیے اس عمل کو غیر محتاط اور ناپسندیدہ قرار دے کر اس پر سرزنش تو کی جا سکتی ہے مگر اس پر توہین کی دفعات کا اطلاق درست نہیں ہے۔ اس پر اس غریب امام صاحب کی جان چھوٹی۔
- پھر کچھ عرصہ کے بعد کھیالی میں ایک حافظِ قرآن کو اسی طرح کے ایک عمل پر ان کے مخالف مسلک کے امام نے مسجد کا لاؤڈ اسپیکر کھول کر شور کر دیا اور لوگوں کو جمع کر کے اس قدر اشتعال دلایا کہ اس حافظ صاحب کو سڑک پر گھسیٹ پر تھانے لے جایا گیا اور اسے موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ اس ساری کارروائی کے بعد بات کھلی کہ یہ اس کے خلاف مسلکی عناد کی وجہ سے کی گئی تھی۔
- ابھی گزشتہ سال کھوکھرکی میں توہینِ رسالت کا ایک واقعہ سامنے آیا اور اس میں چند مسیحی افراد کو ملوث ظاہر کر کے ان کی گرفتاری کے لیے عوامی مظاہروں کا سلسلہ شروع کر دیا گیا۔ کمشنر گوجرانوالہ نے دانش مندی کی کہ فوری طور پر شہر کے سرکردہ علماء کرام سے رابطہ کر لیا جنھوں نے بروقت مداخلت کر کے صورتحال کو کنٹرول کر لیا، ورنہ بہت کچھ ہو سکتا تھا۔ بعد میں پتہ چلا کہ یہ کارروائی کسی کاروباری رقابت میں چند لوگوں کو پھنسانے کے لیے کی گئی تھی، لیکن مختلف مکاتب فکر کے سرکردہ علماء کرام نے مداخلت کر کے صورتحال کو زیادہ سنگین ہونے سے بچا لیا۔
یہ تین واقعات میرے شہر کے ہیں اور میرے چشم دید ہیں، اس لیے یہ کہنا بہت مشکل ہے کہ توہینِ رسالت کی سزا کے قانون کا غلط استعمال نہیں ہو رہا، بلکہ اس قسم کے مقدمات کی چھان بین کی جائے تو گزشتہ دس سال میں درج ہونے والے مقدمات کی تعداد بیسیوں میں ہوگی۔ اس لیے ہمیں تحفظِ ناموسِ رسالت کے قانون کا مکمل دفاع اور تحفظ کرتے ہوئے اس کے دوسرے پہلو پر بھی غور کرنا چاہیے اور کوئی معقول موقف اور طرزِعمل اختیار کرنا چاہیے۔
ہمارے شہر میں ان دنوں فلائی اوور کی تعمیر کے سلسلہ میں ضلعی انتظامیہ کے ساتھ ایک تنازع چل رہا ہے۔ ان دونوں مسئلوں پر گزشتہ روز راقم الحروف نے مولانا محمد مشتاق چیمہ، حاجی عثمان عمر، مولانا سید غلام کبریا، بابر رضوان باجوہ، میاں فضل الرحمٰن چغتائی، میاں شاہد علی ایڈووکیٹ، شیخ محمد فیاض، طاہر منیر اور دیگر راہ نماؤں کے ساتھ مل کر پریس کانفرنس کی، جس کا متن قارئین کی دلچسپی کے لیے درج ذیل ہے۔
سب سے پہلے ہم توہینِ رسالت پر مبنی حالیہ امریکی فلم کو جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم، حضرات انبیائے کرام علیہم السلام کی حرمت و ناموس کے خلاف شرمناک حرکت قرار دیتے ہوئے اس کی شدید مذمت کرتے ہیں، اس سلسلہ میں پورے عالم اسلام میں ہونے والے شدید عوامی احتجاج کو مسلمانوں کے ایمانی جذبات کا بروقت اظہار سمجھتے ہیں اور اس میں شرکت اور ہم آہنگی کا اظہار کرتے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ جب تک اقوام متحدہ اور او آئی سی اس سلسلہ میں کوئی سنجیدہ قدم نہیں اٹھاتے، مسلمانوں کے جذبات و عقیدت کے ساتھ کھیلنے کا یہ شرمناک کاروبار جاری رہے گا اور اس کی ذمہ داری بہرحال انہی پر ہو گی۔
اس کے بعد ہم گوجرانوالہ شہر میں تعمیر کیے جانے والے فلائی اوور کے منصوبے کے حوالہ سے یہ واضح کرنا چاہتے ہیں کہ اس قسم کے منصوبے بار بار نہیں بنتے، اس لیے پوری طرح سوچ سمجھ کر اور شہریوں کو اعتماد میں لے کر اس منصوبے کا آغاز کیا جائے اور کم از کم اگلے پچاس سال کی ضروریات کو سامنے رکھتے ہوئے یہ منصوبہ طے کیا جائے۔ ہم نے اخبارات اور باقاعدہ درخواست کے ذریعہ انتظامیہ تک اپنی بات پہنچائی ہے اور براہ راست ملاقاتوں میں بھی ضلعی حکام سے اس مسئلہ پر بات کی ہے، لیکن اس پر کوئی توجہ نہیں دی گئی اور فلائی اوور کے منصوبے کو ظاہر کیے بغیر یکطرفہ طور پر اس پر عملدر آمد کی تیاری کی جا رہی ہے۔ اس لیے ہم ضلعی انتظامیہ کے اس طرز عمل پر شدید احتجاج کرتے ہوئے اپنے مطالبات کو پھر سے دہرا رہے ہیں۔
- شہر کے مین روڈ پر ٹریفک کے مسئلے کا اصل حل یہ ہے کہ جی ٹی روڈ کو اس کی اصل حدود کے دائرہ میں وسیع کیا جائے، دو رویہ سڑک کے ساتھ دونوں اطراف سروس روڈ بنائے جائیں اور اس کی توسیع میں رکاوٹ بننے والی عمارتوں کو معقول معاوضہ دے کر دوسری جگہ منتقل کیا جائے۔
- فلائی اوور یا اوور ہیڈ برج کو شیخوپورہ موڑ سے جنرل بس اسٹینڈ تک تعمیر کیا جائے اور دو طرفہ تین تین لائنوں کی بنیاد پر بنایا جائے۔ ہم دیانت داری کے ساتھ سمجھتے ہیں کہ اس سے کم کوئی بھی برج ٹریفک کے ہجوم کو کم کرنے کی بجائے اس میں اضافے کا سبب بنے گا۔
- فلائی اوور کی زد میں آنے والی دکانوں کے مالکان اور تاجر برادری کو اعتماد میں لے کر ان کا مسئلہ حل کیا جائے اور ان کی تجویز کے مطابق انہیں متبادل جگہ فراہم کی جائے۔
- فلائی اوور کی زد میں آنے والی دو مساجد اکبری مسجد اور القائی نوری مسجد کو گرانے کی بجائے نقشہ میں رد و بدل کر کے پل کو اس کے اوپر سے گزار دیا جائے۔
ہم نے ضلعی انتظامیہ کے ٹال مٹول کے طرز عمل سے مایوس ہو کر رائے عامہ سے رجوع کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور ۱۷ ستمبر پیر کو دو بجے دن مرکزی جامع مسجد گوجرانوالہ میں شہر کے مختلف مکاتب فکر، طبقات اور تنظیموں کا مشترکہ کنونشن طلب کیا جا رہا ہے، جس میں اس سلسلہ میں باہمی مشاورت کے ساتھ لائحہ عمل طے کیا جائے گا، ان شاء اللہ تعالیٰ۔ تمام شہریوں سے ہماری استدعا ہے کہ وہ خالصتاً شہری مفاد میں اس مقصد میں ہمارے ساتھ تعاون فرمائیں۔