الشیخ عبد اللہ بن احمد الناخبیؒ کی وفات کی خبر مجھے پاکستان ہی میں مل گئی تھی اور میرے سعودی عرب کے سفر کے پروگرام میں ان کے تلامذہ سے ملاقات بھی شامل تھی۔ شیخ ناخبیؒ میرے حدیث کے شیوخِ اجازت میں سے ہیں اور اپنے دور کے امت کے بڑے محدثین میں شمار ہوتے تھے۔ تین سال قبل جدہ کے ایک سفر کے موقع پر ان کی خدمت میں حاضری ہوئی تھی اور انہوں نے حدیث مسلسل بالاولیۃ سنا کر اپنی اسناد کے ساتھ روایت حدیث کی اجازت اور اس کے ساتھ اہم نصائح سے نوازا تھا۔ چند ماہ قبل قاری محمد رفیق نے مجھے فون پر بتایا کہ شیخ کا انتقال ہوگیا ہے۔ جدہ حاضری کے موقع پر ان کے خاندان کے بارے میں معلومات حاصل کیں تو پتہ چلا کہ ان کے عزیزوں میں علمی ذوق کے کوئی بزرگ باقی نہیں رہے البتہ قاری محمد رفیق کے بڑے فرزند قاری اسامہ رفیق نے شیخ ناخبیؒ کے چند تلامذہ کے ساتھ ملاقات کا اپنے ہاں چائے پر اہتمام کر دیا۔ چنانچہ ان سے تعزیت کے ساتھ ساتھ حضرت شیخؒ کے بارے میں کچھ معلومات حاصل کرنے کا موقع بھی مل گیا۔
شیخ ناخبیؒ کا تعلق یمن کے علاقہ حضرموت سے تھا، ان کی ولادت ۱۳۱۷ھ میں بتائی جاتی ہے، اس لحاظ سے انہوں نے ایک سو گیارہ سال کی عمر میں وفات پائی ہے۔ اور دوستوں کا کہنا ہے کہ وفات سے چار ماہ قبل تک درس و تدریس میں مسلسل مصروف رہے، تین چار ماہ بیماری میں معذور ہوئے اور پھر ان کا وصال ہوگیا۔ تین سال قبل جب میں نے ان کی خدمت میں حاضری دی اور انہوں نے حدیث مسلسل بالاولیۃ سنا کر روایت حدیث کی اجازت مرحمت فرمائی تو وہ پوری طرح چاق و چوبند نظر آرہے تھے۔ قد لمبا ہونے کے باوجود سیدھے چل رہے تھے اور انہوں نے اپنی مختصر تقریر میں عالمی تہذیبی کشمکش اور اس کے حوالہ سے علماء کی ذمہ داریوں کا ذکر فرمایا تھا جس سے مجھے بے حد خوشی ہوئی تھی کہ ان کے ساتھ تلمذ کی نسبت کے علاوہ ذوق کی ہم آہنگی کا شرف بھی حاصل ہو رہا ہے۔
شیخ ناخبیؒ کے والد محترم حضرموت کے علاقہ میں سلطان غالب بن عوض قعیطی مرحوم کے دورِ حکومت میں فوج میں شامل تھے اور شیخ ناخبیؒ بھی ایک دور تک قعیطی سلطنت کی رضاکار فورس میں شامل رہے ہیں۔ اس دوران ایک مسجد میں امامت و تدریس کی خدمات بھی سرانجام دیتے رہے مگر جب انہیں ان دونوں میں سے ایک کے انتخاب کے لیے کہا گیا تو انہوں نے امامت و تدریس کو ترجیح دی اور فوجی ملازمت کو ترک کر دیا۔ تعلیم و تدریس کی طرف شیخ ناخبیؒ کے رجحان کی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ ان کے والد مرحوم نے حضرموت کے شہر ’’مکلا‘‘ میں قیام کے دوران انہیں اس دور کے ایک بڑے عالم الشیخ سالم بن مبارک الکلالی الحمیریؒ کی خدمت میں تعلیم کے لیے پیش کر دیا تھا جو معروف محدث الشیخ عمر باد بادہؒ کے تلامذہ میں سے تھے اور ساحل کے علاقہ میں انہیں استاذ الکل کا مقام حاصل تھا۔ شیخ سالمؒ کی مسلسل صحبت نے شیخ عبد اللہ کو نہ صرف علمی ذوق سے آراستہ کیا بلکہ ان کی ادب و شعر او رخطابت کی صلاحیتیں بھی ابھریں اور ایک خطیب اور شاعر کے طور پر انہوں نے قومی سطح پر شہرت پائی۔
شیخ ناخبیؒ کا تعلق معروف قبیلہ حمیری کی شاخ یافعی سے تھا اور وادیٔ ذی ناخب ان کا وطن تھا اس لیے وہ حمیری، یافعی اور ناخبی کی تینوں نسبتوں سے منسوب تھے۔ لیکن زیادہ شہرت ان کی علاقائی نسبت ناخبی نے پائی اور انہیں علم حدیث کے طلبہ اور اساتذہ میں الشیخ الناخبی کے نام سے پہچانا جاتا تھا۔ شیخ ناخبیؒ نے جنوبی یمن میں قعیطی سلطنت کے تین حکمرانوں سلطان غالب بن عوض، سلطان عمر بن عوض اور سلطان صالح بن عوض کا زمانہ پایا ہے لیکن جب چودھویں صدی ہجری کے اواخر میں جنوبی یمن پر کمیونسٹ حکومت قائم ہوئی اور اہل دین پر تنگی اور سختیوں کا سلسلہ بڑھنے لگا تو وہ جدہ کی طرف ہجرت کر گئے۔
مکلا میں سلطان عمر بن عوض قعیطی نے ایک بڑی مسجد تعمیر کی جو حضرموت کے علاقہ کی اپنے دور میں سب سے بڑی مسجد بتائی جاتی ہے اور مسجد سلطان عمر کے نام سے موسوم ہے۔ شیخ ناخبیؒ نے ۱۳۵۱ھ سے ۱۳۸۸ھ تک مسلسل سینتیس برس تک وہاں خطابت و امامت کے فرائض انجام دیے اور سلطان صالح کے دور میں محکمۂ تعلیم میں خدمات سرانجام دیتے ہوئے انسپکٹر اور نگران کے مناصب پر فائز رہے۔ تعلیم و تدریس ان کا خصوصی ذوق تھا اور بتایا جاتا ہے کہ مکلا میں بچیوں کی تعلیم کا سب سے پہلا مدرسہ انہوں نے قائم کیا جس میں ان کی اہلیہ محترمہ بھی تدریسی خدمات سرانجام دیتی رہیں۔ سلطان صالح بن عوض مرحوم کے بارے میں تاریخ نگاروں نے لکھا ہے کہ ان کی ولادت و پرورش حیدر آباد دکن میں عثمانی حکمرانوں کے زیرسایہ ہوئی تھی اور وہ اردو بھی اچھی طرح جانتے تھے، وہ علم دوست حکمران تھے اور علماء و ادباء کے قدر دان تھے۔
شیخ ناخبیؒ کو سلطان صالح بن عوض مرحوم کے دور میں ’’شاعر الدولۃ‘‘ کا لقب ملا اور اسی عنوان سے ان کا دیوان طبع ہوا جس میں ان کا تفصیلی سوانحی خاکہ بھی موجود ہے۔ سلطان صالح قعیطی کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ وہ جب حیدرآباد دکن سے آئے اور سلطان عمر کے بعد زمام اقتدار سنبھالی تو وہاں سے تین سو کے لگ بھگ کتابیں بھی ساتھ لائے تھے جن پر مشتمل ’’مکتبہ سلطانیہ‘‘ قائم کیا گیا اور شیخ عبد اللہ بن ناخبیؒ کو اس کا انچارج بنا دیا گیا۔ اور جب شیخ ناخبیؒ نے ہجرت سے قبل اس کا چارج چھوڑا تو اس میں بارہ ہزار سے زیادہ کتابیں موجود تھیں۔
بیسویں صدی کے آغاز میں جب عربوں کو ترکی کی خلافت عثمانیہ کے خلاف بغاوت پر اکسایا گیا اور شریفِ مکہ مکرمہ السید حسین نے بغاوت کر کے نہ صرف حجاز مقدس بلکہ پورے خطۂ عرب میں ترکوں کی حکومت کا خاتمہ کر دیا تو جنوبی یمن کے اس خطہ میں قعیطی حکمران برسرِ اقتدار تھے۔ خود شریف مکہ شاہ حسین کو انگریزوں نے وعدہ کے باوجود عرب کی بادشاہت نہ دی البتہ اس کے ایک بیٹے کو اردن کی حکمرانی اور دوسرے بیٹے فیصل کو عراق کی بادشاہی عطا کر دی۔ عراق پر شاہ فیصل کی حکومت کے دور کی بات ہے کہ مکلا میں آل الدباغ نامی ایک خاندان کے مدرسہ الفلاح میں شیخ ناخبیؒ مدرس تھے۔ یہ ۱۳۴۵ھ کے لگ بھگ کی بات ہے۔ آل الدباغ سیاسی رجحانات رکھتے تھے اور عراق کے شاہ فیصل کے ساتھ رابطہ کر کے حضرموت کے علاقہ میں قعیطی حکومت کے خلاف بغاوت کی راہ ہموار کر رہے تھے۔ شیخ ناخبیؒ کو جب ان کے ارادوں کا علم ہوا تو انہوں نے مدرسہ سے علیحدگی اختیار کر لی اور ان کی سرگرمیوں سے لاتعلقی کا اعلان کر دیا۔
برطانوی حکومت نے ترکوں کے خلاف کامیاب بغاوت کی صورت میں عربوں کو ایک متحدہ حکومت دینے اور شریف مکہ حسین کو اس کا حکمران بنانے کا وعدہ کیا تھا اور اسی وعدہ پر شریف مکہ اتنے بڑے اقدام پر تیار ہوئے تھے۔ لیکن جب خلافت عثمانیہ کا خاتمہ ہوا تو عربوں کو ٹکڑوں میں بانٹ دیا گیا اور برطانوی استعمار نے عرب دنیا کے حصے بخرے کر کے ہر خطہ کے حکمران طبقات سے الگ الگ معاملہ طے کیا۔ مرکزیت سے محروم ہونے کے باعث عرب علاقوں کے حکمران طبقات برطانوی حکومت کی سرپرستی حاصل کرنے پر مجبور ہوئے جس سے برطانوی استعمار نے بھرپور فائدہ اٹھایا۔ اسی دوران جنوبی یمن کی قعیطی حکومت کو بھی برطانوی حکومت کے ساتھ معاہدہ کرنا پڑا جو ۱۳ اگست ۱۹۳۷ء کو تحریر کیا گیا۔ ’’حضرموت عبر اربعۃ عشر قرنا‘‘ (حضرموت چودھویں صدی میں) کے مصنف السید سقاف الکاف نے اس معاہدہ کی ایک دفعہ یوں نقل کی ہے کہ
’’مملکۃ متحدہ (برطانیہ) میں شہنشاہ معظم کی حکومت اس بات کو قبول کرتی ہے کہ وہ سلطان کے لیے ایک مشیر کا تقرر کرے گی جو ان کے ساتھ مقیم رہے گا۔ اور سلطان (قعیطی) اس بات پر رضامندی کا اظہار کرتے ہیں کہ وہ مشیر کو اس کے شایان شان رہائش مہیا کریں گے اور ملک کے تمام معاملات میں اس کے مشوروں کو قبول کریں گے سوائے ان امور کے جو دین محمدی صلی اللہ علیہ وسلم سے تعلق رکھتے ہیں۔‘‘
اس معاہدہ کے تحت سب سے پہلے برطانوی مشیر انگریمز (Ingrams) آئے اور انہوں نے قعیطی سلطان کے مشیر کے عنوان سے کاروبار مملکت سنبھال لیا۔ شیخ ناخبیؒ اس وقت محکمۂ تعلیم میں خدمت سرانجام دے رہے تھے، چنانچہ مسٹر انگریمز نے ریاست میں تعلیمی اصلاحات کا جو سلسلہ شروع کیا شیخ ناخبیؒ اس میں شریک کار رہے اور ان اصلاحات کے دوران ’’دین محمدیؐ‘‘ سے تعلق رکھنے والے امور کی حفاظت اور نگرانی کرتے رہے۔
دوسری جنگ عظیم کے بعد عالمی افق پر مغربی کیمپ کی قیادت برطانیہ کی جگہ امریکہ نے سنبھال لی تھی اور اس کے مقابلہ میں سوویت یونین نے محاذ آرائی کا پرچم اٹھا رکھا تھا۔ اس سرد جنگ کا سب سے زیادہ نشانہ عرب علاقے بنے۔ بہت سے عرب ملک انقلابات کی زد میں آئے، بعض عرب ملک دو حصوں میں تقسیم ہوگئے، پوری عرب دنیا امریکی اور روسی اثر و رسوخ کے دائروں میں بٹ گئی۔ سوویت یونین نے افریقہ اور عرب میں امریکی اثر و رسوخ کا مقابلہ کرنے کے لیے جارحانہ پیش قدمی کی۔ اس دوران یمن بھی دو حصوں میں بٹ گیا اور جنوبی یمن میں کمیونسٹ حکومت قائم ہوئی جس نے دینی حلقوں کو تنگ کرنا شروع کر دیا۔ شیخ ناخبیؒ اس وقت مکتبہ سلطانیہ کے انچارج تھے۔ بتایا جاتا ہے کہ عدن کے کمیونسٹ حکمران عبد الفتاح اسماعیل نے مکتبہ سلطانیہ میں موجود ایک اہم رپورٹ طلب کی جو سلطان غالب بن عوض قعیطی کے دور حکومت میں ان کی فرمائش پر جرمن ماہرین کے ایک گروپ نے حضرموت کے علاقے میں پائے جانے والے قدرتی اور معدنی وسائل کے بارے میں تیار کی تھی۔ شیخ ناخبیؒ کو وہ رپورٹ کمیونسٹ حکومت کے سپرد کرنے میں تامل تھا جس پر اختلاف کا آغاز ہوا۔ پہلے دھمکیوں سے کام لیا گیا مگر شیخ اس کے باوجود تیار نہ ہوئے تو انہیں مکتبہ کی نظامت اور اس کے خطابت و تدریس سے بھی معزول کر دیا گیا۔ پھر حکومت کی سخت گیر پالیسی اور اقدامات کو دیکھتے ہوئے شیخ ناخبیؒ نے ہجرت کا فیصلہ کر لیا اور ۱۳۹۴ھ میں حضرموت کا علاقہ چھوڑ کر جدہ میں آگئے۔
جدہ میں ایک محلہ کی مسجد کی امامت ان کے سپرد کی گئی جہاں وہ عمر کے آخری حصے تک دینی و تعلیمی خدمات میں مصروف رہے۔ وہ اس مسجد میں روزانہ عصر کی نماز کے بعد صحاح ستہ میں سے حدیث کی کسی کتاب کا ترتیب سے درس دیتے تھے، ایک کتاب مکمل ہو جاتی تو دوسری شروع کر دیتے اور یہ سلسلہ ان کی وفات سے چند ماہ قبل تک جاری رہا۔ اس دوران بڑے بڑے علماء اور محدثین نے ان کی خدمت میں حاضر ہو کر شرف تلمذ حاصل کیا، جن میں حضرت الاستاذ عبد الفتاح ابو غدہؒ اور الاستاذ محمد عوامہ حلبیؒ بھی شامل ہیں۔ شیخ ناخبیؒ روایت حدیث کی اجازت کے ساتھ اپنی مختصر ثبت مرحمت فرماتے تھے جو انہوں نے مجھے بھی عطا کی۔ میں نے اس ثبت میں بخاری شریف کی ایک عالی سند میں ان کے اور امام بخاریؒ کے درمیان سولہ واسطے شمار کیے ہیں جو بڑی سعادت کی بات ہے۔ مجھے بحمد اللہ مکۃ المکرمۃ میں ایک معمر بزرگ اور اپنے دور کے ایک بڑے محدث الشیخ المسند ابو الفیض محمد یاسین الفادانی الشافعیؒ کی خدمت میں حاضری اور مختلف مسلسلات کی سماعت کے ساتھ روایت حدیث کی اجازت بھی حاصل ہے، ان کی ایک سند میں ان کے اور حضرت امام بخاریؒ کے درمیان پندرہ واسطے ہیں۔
بہرحال الشیخ الناخبیؒ ہمارے دور کے بڑے محدثین میں سے تھے اور انہیں اکابر محدثین اور شیوخ سے تلمذ کی نسبت حاصل تھی۔ ایسے بزرگوں کا وجود اللہ تعالیٰ کی رحمتوں کا باعث ہوتا ہے مگر اب وہ خود اللہ کی رحمت کے سائے میں جا چکے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات جنت الفردوس میں بلند سے بلند فرمائیں اور ہمیں ان کے فیوض و برکات سے زیادہ سے زیادہ مستفید ہونے کی توفیق سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔
جدہ سے ۲۳ اگست کو میں نیو یارک پہنچا اور دارالہدیٰ سپرنگ فیلڈ واشنگٹن کے سربراہ مولانا عبد الحمید اصغر کو فون پر اپنی آمد کی اطلاع دی تو انہوں نے یہ خبر سنائی کہ ہمارے دور کے ایک بڑے محدث حضرت مولانا محمد نعیم صاحب کا شکاگو میں انتقال ہو گیا ہے اور آج ظہر کے بعد ان کی نماز جنازہ ادا کی جا رہی ہے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔
حضرت مولانا محمد نعیم صاحب رحمہ اللہ کا تعلق دیوبند سے تھا۔ حکیم الامت حضرت مولانا قاری محمد طیب رحمہ اللہ کے آخری دور میں جب دارالعلوم دیوبند کے انتظامی معاملات میں اختلافات رونما ہوئے اور حضرت قاری صاحب نور اللہ مرقدہ کے فرزندان گرامی اور حلقہ اثر کے احباب نے دارالعلوم دیوبند (وقف) کے نام سے الگ تعلیمی ادارہ قائم کیا تو حضرت مولانا محمد نعیم صاحب رحمہ اللہ اس کے پہلے شیخ الحدیث تھے۔ انہوں نے زندگی کا بہت بڑا حصہ حدیثِ نبویؐ کی تدریس و تعلیم میں بسر کیا اور ان کا شمار برصغیر کی سطح پر حدیثِ نبویؐ کے نامور اساتذہ میں ہوتا تھا۔ دارالعلوم دیوبند (وقف) بھی اب بھارت کے بڑے دینی مدارس میں سے ہے اور اس کے مہتمم حضرت مولانا قاری محمد سالم قاسمی صاحب مدظلہ ہیں، جن سے اسی سفر کے دوران جدہ میں میری ملاقات ہوئی ہے اور اس کالم میں اس ملاقات کا تذکرہ کر چکا ہوں۔
حضرت مولانا محمد نعیم صاحب رحمہ اللہ کے فرزند حضرت مولانا عبد اللہ سلیم صاحب ایک عرصہ سے شکاگو (امریکا) میں مقیم ہیں اور دینی تعلیم کے فروغ کے لیے مسلسل مصروفِ عمل ہیں۔ حضرت مولانا محمد نعیم صاحب رحمہ اللہ آخری عمر میں علالت و ضعف کے باعث اپنے فرزند گرامی کے پاس شکاگو میں منتقل ہو گئے تھے اور وہیں مقیم تھے کہ اجل کا بلاوا آ گیا اور وہ کم و بیش چورانوے برس کی عمر میں اس بلاوے پر لبیک کہتے ہوئے اپنے مالک کے حضور پیش ہو گئے۔ اللہ تعالیٰ ان کی حسنات کو قبول فرمائیں، سیئات سے درگزر کریں اور جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔
یہ غم ابھی تازہ تھا کہ ایک اور المناک خبر نے مزید دل گرفتہ کر دیا۔ فیصل آباد کے جامعہ مدینۃ العلم کے مہتمم اور ہمارے پرانے دوست مولانا قاری محمد الیاس نے، جو امریکا کے شہر مشی گن میں کچھ عرصہ سے مقیم ہیں، فون پر اطلاع دی کہ حضرت مولانا شفیق الرحمٰن درخواستی رحمہ اللہ کا انتقال ہو گیا ہے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ مولانا قاری جمیل الرحمٰن اختر کو فون کر کے تفصیلات معلوم کیں جو جنازے میں شرکت کے بعد لاہور واپس پہنچے تھے۔
_________________
گزشتہ روز جدہ سے ہمارے محترم دوست قاری محمد رفیق صاحب نے فون پر یہ اطلاع دی کہ ہمارے شیخ محترم الاستاذ المحدث عبداللہ بن احمد الناخبیؒ کا انتقال ہوگیا ہے، انا للہ و انا الیہ راجعون۔ شیخ محترم کا تعلق یمن سے تھا اور علم حدیث کی تدریس و تعلیم زندگی بھر ان کا مشغلہ رہا، ان کا شمار ہمارے اکابر اور معمر محدثین میں ہوتا ہے، انہوں نے سو سال سے زیادہ عمر پائی ہے، ایک عرصہ سے جدہ میں مقیم تھے اور مختلف ممالک سے آنے والے علماء کرام اور حدیث نبوی ؐ کے اساتذہ و طلبہ ان کی خدمت میں حاضر ہو کر تلمذ اور اجازت کا شرف حاصل کرتے تھے- راقم الحروف کو بھی تین سال قبل ان کی خدمت میں حاضری کی سعادت حاصل ہوئی، انہوں نے بڑی شفقت سے نوازا، حدیث مسلسل بالأولیۃ سنائی، اپنی اسناد کے ساتھ روایت حدیث کی اجازت مرحمت فرمائی اور اس مجلس میں کم و بیش پندرہ بیس منٹ کی نصیحت آمیز گفتگو فرمائی جس میں میرے لیے خصوصی دلچسپی کا باعث مغرب کی ثقافت و فکر پر ان کا مختصر علمی تبصرہ تھا، جس سے راہنمائی حاصل ہونے کے ساتھ ساتھ مجھے یہ حوصلہ بھی ملا کہ جناب نبی اکرمؐ کے ارشادات و فرمودات کی موجودہ دور کے تقاضوں کی روشنی میں وضاحت کے حوالہ سے میں اپنے ذوق میں منفرد نہیں ہوں۔
میرے علم حدیث کے باقاعدہ اور تعلیمی اساتذہ والد محترم حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر دامت برکاتہم، عم مکرم حضرت مولانا صوفی عبدالحمید سواتی دامت برکاتہم، حضرت مولانا عبدالقیوم ہزاروی دامت برکاتہم اور حضرت مولانا جمال احمد بنویؒ ہیں۔ جبکہ مجھے جن شیوخ کی خدمت میں بالمشافہ حاضری اور ان سے روایت حدیث کی اجازت کا شرف حاصل ہے ان میں الاستاذ عبدالفتاح ابو غدۃ ؒ، الاستاذ محمد یٰسین الفاوانی المکی الشافعیؒ، الاستاذ عبداللہ بن احمد الناخبیؒ، حضرت مولانا سید ابو الحسن علی ندویؒ اور حضرت مولانا محمد نافع جھنگوی دامت برکاتہم شامل ہیں۔ شیخ محترم الاستاذ الناخبیؒ کی سادہ اور پروقار مجلس کا منظر اس وقت بھی میری نگاہوں کے سامنے ہے اور میں اس سے محظوظ و مستفید ہو رہا ہوں، اللہ تعالیٰ ان کی حسنات قبول فرمائیں، سیئات سے درگزر کریں اور جنت الفروس میں اعلیٰ مقام سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔ (ماہنامہ نصرۃ العلوم، گوجرانوالہ ۔ جولائی ۲۰۰۷ء)