میری کوشش ہوتی ہے کہ سفر کے لیے قومی ایئرلائن پی آئی اے کو ذریعہ بناؤں مگر ہر بار کوئی نہ کوئی بار ایسی ضرور ہو جاتی ہے کہ اس کوشش پر نظر ثانی کو جی چاہنے لگتا ہے۔ اس مرتبہ بھی ایسا ہی ہوا۔ مجھے اگست کے آغاز میں امریکہ کے لیے سفر کرنا تھا جس کے لیے میں نے ۲ اگست کو لاہور سے نیویارک تک پی آئی اے کی سیٹ بک کرالی اور ریٹرن ٹکٹ خرید لیا۔ فیصل آباد سے ہمارے ایک دوست قاری خالد رشید صاحب نے بھی جانا تھا وہ امریکہ کے گرین کارڈ ہولڈر ہیں اور وقتاً فوقتاً آتے جاتے رہتے ہیں۔ ان کا اصرار تھا کہ میں ان کے ساتھ الاتحاد ایئرلائن سے سفر کروں جس کی سیٹیں وہ بک کرا چکے تھے لیکن میں نے پی آئی اے کا ٹکٹ خرید لیا تھا اور بلاوجہ اسے واپس نہیں کرنا چاہتا تھا اس لیے قاری صاحب نے ایک دو بار اصرار کے بعد ہتھیار ڈال دیے اور الاتحاد میں سیٹیں بک کرا لینے کے باوجود اس کی بجائے پی آئی اے کا ٹکٹ خرید لیا اور میرے ساتھ ہی سیٹ کنفرم کرا لی۔ یہ ٹکٹ انہیں مہنگی بھی پڑی کہ الاتحاد کا ٹکٹ انہیں پچاسی ہزار میں مل رہا تھا جبکہ پی آئی اے کا ٹکٹ ترانوے ہزار میں پڑا مگر سفر میں میری رفاقت کے شوق میں انہوں نے اسے گوارا کر لیا اور اس طرح ہم نے لاہور سے نیویارک تک اکٹھے سفر کا پروگرام بنا لیا۔
لاہور سے فلائٹ کا وقت صبح چھ بج کر پچاس منٹ تھا جس کے لیے ہمیں یکم اگست کو شام تک لاہور پہنچنا تھا۔ پاکستان شریعت کونسل کے صوبائی سیکرٹری جنرل مولانا قاری جمیل الرحمان اختر نے نماز مغرب کے بعد علماء کرام کے ایک اجتماع کاا ہتمام مسجد باغبانپورہ لاہور میں کر رکھا تھا ہم اس اجلاس میں شریک ہوئے۔ علماء کرام سے موجودہ حالات کے تناظر میں کچھ ضروری امور پر گفتگو کی اور تھوڑی دیر آرام کرنے کے بعد صبح تین بجے بیدار ہو کر ہم ایئرپورٹ روانہ ہوگئے۔ رات کو گوجرانوالہ سے لاہور آتے ہوئے راستے میں مجھے ٹریول ایجنٹ نے فون پر اطلاع دی کہ فلائٹ ایک گھنٹہ لیٹ ہوگی اور چھ بج کر پچاس منٹ کی بجائے سات بج کر پچاس منٹ پر روانہ ہوگی لیکن ایئرپورٹ پہنچ کر چیک اپ سے فارغ ہونے کے بعد پتہ چلا کہ فلائٹ سوا دو گھنٹے لیٹ ہے اور نو بجے اس کی روانگی ہوگی۔ یہ معلوم کر کے افسوس ہوا کہ اگر یہ بات رات پتہ چل جاتی تو ہم رات پوری طرح آرام کر کے فجر کی نماز باجماعت ادا کرتے اور پھر ایئرپورٹ آجاتے۔ اس کے بارے میں مجھ سے امیگریشن کاؤنٹر پر ڈیوٹی دینے والی خاتون آفیسر نے بھی دریافت کیا کہ کیا پی آئی اے نے آپ کو فلائٹ لیٹ ہونے کے بارے میں مطلع نہیں کیا تھا؟ میں نے جواب دیا کہ کیا تو تھا مگر ایک گھنٹے کا بتایا تھا۔
چیک اپ کے دوران ایک اور مسئلہ پیش آگیا کہ قاری خالد رشید صاحب نیویارک کی ایک مسجد کے لیے دو عدد بڑے وال کلاک لے جا رہے تھے جو الگ پیک کیے ہوئے تھے۔ انہوں نے چیک اِن کاؤنٹر پر متعلقہ افسر سے کہا کہ اس پر فریجل (Fragile) کا اسٹیکر لگوا دیجئے تاکہ راستے میں سامان اٹھانے اور رکھنے والا عملہ احتیاط سے اسے رکھے۔ آفیسر نے عملہ کے ایک شخص سے کہا مگر اسے تلاش کے باوجود یہ اسٹیکر نہ ملا، دوسرے کاؤنٹر سے پتہ کرایا تو انٹرنیشنل ڈیپارچر کے لاؤنج میں چیک اِن کے کسی کاؤنٹر پر یہ اسٹیکر موجود نہیں تھا جبکہ پی آئی اے کی فلائٹ نیویارک کے لیے روانہ ہونے والی تھی۔ عملے کے شخص کا کہنا تھا کہ آپ اس کو اسی طرح بک کرا دیں آگے چل کر اسٹیکر لگ جائے گا مگر قاری صاحب اسٹیکر لگوائے بغیر سامان ان کے حوالے کرنے کے لیے تیار نہیں تھے۔ اس کشمکش میں کافی وقت گزر گیا چنانچہ ایک بڑے آفیسر نے صورتحال دیکھ کر ایک آدمی بھیج کر ڈومیسٹک کے لاؤنج سے دو تین اسٹیکر منگوائے اور سامان پر انہیں چسپاں کر کے سامان بک کروایا گیا۔
فلائٹ نو بجے کی بجائے ساڑھے نو بجے لاہور سے روانہ ہوئی، اس کا پہلا اسٹاپ مانچسٹر تھا جہاں تک کا دورانہ آٹھ گھنٹے بتایا گیا۔ جہاز کی روانگی کے تقریباً ایک گھنٹہ بعد مسافروں کو ناشتہ دیا گیا جو مناسب تھا مگر اس کے تقریباً چھ گھنٹے بعد مانچسٹر اترنے سے ایک یا ڈیڑھ گھنٹے قبل مسافروں کو دوبارہ خوراک دی گئی۔ خیال تھا کہ کھانا ہوگا مگر وہ بھی ناشتہ تھا یعنی آملیٹ کے ساتھ دو سینڈوچ تھے۔ اس طرح صبح سحری کے وقت گھروں سے روانہ ہونے والے مسافروں کو مانچسٹر پہنچنے تک تین بار ناشتہ ملا۔ ایک بار جہاز کی تاخیر کی وجہ سے ایئرپورٹ پر جہاز پر سوار ہونے سے قبل، دوسرا جہاز کے روانہ ہونے کے بعد اور تیسرا جہاز کے مانچسٹر میں اترنے سے قبل۔ تینوں بار ناشتہ ہی تھا کیونکہ یہ ڈبل روٹی، سینڈوچ اور دیگر متعلقہ لوازمات پر مشتمل تھا اور ان میں ایک بار بھی باقاعدہ کھانا شامل نہیں تھا۔ ہم نے سوچا کہ مانچسٹر سے نیویارک روانگی کے بعد کھانا میسر ہوگا لیکن مانچسٹر میں جہاز کو تقریباً پانچ گھنٹے رکنا پڑا جس کی الگ داستان ہے اور اس کے بھی ایک گھنٹہ بعد مسافروں کو کھانا ملا۔
مانچسٹر اترتے وقت اعلان کیا گیا کہ نیویارک جانے والے تمام مسافر اپنے دستی سامان سمیت جہاز سے اتریں گے اور ان کی دوبارہ چیکنگ ہوگی اس کے بعد وہ جہاز پر سوار ہو سکیں گے۔ بتایا گیا کہ مانچسٹر ایئرپورٹ پر وہاں کے قوانین کے مطابق ایسا کیا جانا ضروری ہے۔ یہ بھی اعلان کیا گیا کہ مانچسٹر میں ہمارا اسٹاپ پینتالیس منٹ کا ہوگا چنانچہ ہم اترے اور سامان کی اور خود اپنی دوبارہ چیکنگ کے بعد جہاز میں سوار ہوئے۔ ہمیں جہاز سے اتر کر دوبارہ سوار ہونے میں سوا دو گھنٹے گل گئے اس دوران ہم چیکنگ اور پھر جہاز میں سوار ہونے کے لیے دوبار لائن میں لگنے کے علاوہ صرف ایئرپورٹ کے ٹوائلٹ میں رفع حاجت کر سکے اس کے سوا ہم سے اور کچھ نہ ہو سکا۔ جہاز میں دوبارہ سوار ہوئے تو اس کی روانگی میں پھر خاصی تاخیر ہوگئی۔ میں اور قاری خالد رشید جہاز کی سیٹ ۵۷ اے اور ۵۷ بی پر بیٹھے تھے۔ ہم سے آگے والی سیٹوں پر ایک سفید ریش بزرگ تشریف فرما تھے جنہوں نے عملے کے ایک آدمی کو پاس سے گزرتے دیکھ کر آواز لگائی ’’کی گل اے اڈن نو دل نہیں کردا؟‘‘ (کیا بات ہے اڑنے کو جی نہیں چاہتا؟)۔
جہاز کے اندر کا موسم میرے لیے تو نارمل ہی تھا مگر قاری خالد رشید صاحب بار بار شکایت کر رہے تھے کہ جہاز کا اے سی صحیح کام نہیں کر رہا اس لیے کہ ان کا پسینہ خشک نہیں ہو رہا۔ میں قاری صاحب کی اس بار بار کی شکایت کو نازک مزاجی پر محمول کرتا رہا لیکن جب مذکورہ بالا بزرگ نے ایک بار پھر آواز لگائی کہ ’’ایہہ کاکی نوں کہو جہاز تے قسمت نال چلنا اے، اے سی تے چلاؤ، کیوں بندیاں نوں گرمی نال مارنا جے؟‘‘ (ایئرہوسٹس سے کہو کہ جہاز تو قسمت سے روانہ ہوگا، اے سی تو چلاؤ، کیوں لوگوں کو گرمی سے مارنا ہے؟) تو مجھے یقین ہوا کہ قاری صاحب کی شکایت واقعتاً سنجیدہ شکایت ہے۔
خدا خدا کر کے طیارہ روانہ ہوا اور ٹیکسی کرتا ہوا رن وے تک پہنچا تو کیپٹن صاحب نے اعلان فرمایا کہ ہم واپس اسٹینڈ پر جا رہے ہیں اس لیے کہ جس کارگو کمپنی نے سامان لوڈ کیا ہے اس نے لوڈنگ صحیح نہیں کی اس لیے دوبارہ سامان چیک ہوگا۔ چنانچہ ہم اسٹینڈ پر واپس آگئے۔ کافی دیر کھڑے رہنے کے بعد دوسرا اعلان ہوا کہ جہاز کی ری فیولنگ ہو رہی ہے اس لیے کچھ وقت اور بھی لگ سکتا ہے۔ اس دوران ایک خاتون نے اعلان شروع کیا کہ ’’موسم کی خرابی کے باعث‘‘ مگر ابھی وہ یہی جملہ ادا کر پائی تھیں کہ اعلان روک دیا گیا۔ جہاز کی ری فیولنگ کا اعلان سن کر ہمارے ساتھ بیٹھے ہوئے ایک مسافر نے جو ڈاکٹر صاحب تھے تعجب کا اظہار کیا کہ کیا جہاز پہلے ری فیولنگ کے بغیر ہی چل پڑا تھا؟
جہاز جب مانچسٹر کے ایئرپورٹ پر اترا تو دن کے پون بجے کے لگ بھگ وقت تھا اور جب اس نے نیویارک کے لیے ٹیک آف کیا تو مقامی گھڑیاں شام کے چھ بجے کا وقت بتا رہی تھیں اور اس وقت پاکستان میں رات کے گیارہ بج چکے تھے۔ گویا صبح تین بجے کے لگ بھگ گھروں سے روانہ ہونے والوں کو، جن میں بچے جوان بوڑھے بیمار اور عورتیں شامل تھے، رات بارہ بجے کے قریب ’’باکمال لوگوں کی لاجواب پرواز‘‘ میں باقاعدہ کھانا سرو کیا گیا۔ مجھے اس موقع پر گزشتہ سال کا ایک واقعہ یاد آگیا جو میں نے قاری خالد رشید صاحب کو سنایا کہ گزشتہ سال مئی کے دوران میں نے گلاسگو سے برمنگھم کا سفر ایک ڈومیسٹک فلائٹ سے کیا، شام کا وقت تھا اور فلائٹ تقریباً دو گھنٹے لیٹ تھی مگر ہمارے کسی تقاضے کے بغیر ایئرلائن کے کاؤنٹر سے مسافروں کو بورڈنگ کارڈ کے ساتھ ایک ایک کوپن بھی دیا گیا کہ چونکہ فلائٹ لیٹ ہے اور ڈنر کا وقت ہے اس لیے آپ حضرات ایئرپورٹ کے ریسٹورنٹ میں ایئرلائن کی طرف سے ڈنر کر لیں۔ میں نے اس کوپن پر ایئرپورٹ کے ریسٹورنٹ سے تو کچھ نہیں کھایا لیکن اس واقعہ کی یاد ابھی تک ذہن میں تازہ ہے جو اپنی قومی ایئرلائن کے اس ’’حسن انتظام‘‘ کو دیکھ کر اور تازہ ہوگئی ہے۔
نیویارک ایئرپورٹ پر اترے تو ایک اور انہونی دیکھنے میں آئی کہ جہاز سے اترنے سے قبل چند مسافروں کا نام لے کر اعلان کیا گیا کہ وہ اپنے پاسپورٹ انسپکشن کے لیے ہاتھ میں رکھیں۔ مگر جب اتر کر باہر آئے تو پولیس تمام مسافروں کے پاسپورٹ اور ویزے چیک کر کے انہیں باہر جانے دے رہی تھی۔ قاری خالد رشید صاحب کا کہنا تھا اور خود میرا مشاہدہ بھی یہ ہے کہ دنیا میں کہیں بھی جہاز سے اترتے وقت ایسا نہیں ہوتا اور نہ ہی اس طرح کی لائن لگتی ہے۔ قاری صاحب اس سارے عمل کو صرف پی آئی اے کے ذریعے سفر کا کرشمہ قرار دے رہے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ اگر ہم کسی اور ایئرلائن سے سفر کرتے تو یہ سب کچھ ہرگز نہ ہوتا۔ وہ فرما رہے تھے کہ میں نے سات سال کے بعد آپ کے کہنے پر قومی ایئرلائن کے ذریعے سفر کیا ہے اور اب ہمیشہ کے لیے اس سے توبہ کر رہا ہوں۔ میرے لیے بھی ان کا مشورہ یہی تھا مگر میں آخری فیصلے سے قبل شاید پی آئی اے کے ارباب حل و عقد کے ردعمل کا انتظار کروں جس کی توقع کم ہی دکھائی دیتی ہے۔
طیارہ نیویارک کے وقت کے مطابق شام سات بجے کے لگ بھگ جان ایف کینیڈی ایئرپورٹ پر اترا، پاکستان میں اس وقت ۳ اگست کو صبح دس بجے کا وقت ہوگا، ہمیں مسجد امن لاہور سے روانہ ہوئے تیس گھنٹے سے زیادہ وقت گزر چکا تھا۔ لیکن ایک امتحان ابھی اور باقی تھا کہ امیگریشن کے معمول کے کاؤنٹر سے پاسپورٹ پر انٹری کی مہر لگوانے کے بعد بھی ایکسٹرا امیگریشن کے ایک اور کاؤنٹر پر لائن میں لگنا پڑا اور کم و بیش چار گھنٹے کے بعد میری باری آئی تو دوچار سوالوں کے بعد ’’پکی‘‘ مہر لگی۔ ان سوالوں میں ایک دلچسپ سوال یہ بھی تھا کہ ’’کیا آپ اسلحہ چلانا جانتے ہیں؟‘‘ مجھ سے پوچھا گیا کہ آپ کیا کام کرتے ہیں؟ میں نے جواب دیا کہ ’’پریسٹ‘‘ ہوں۔ سوال ہوا کہ کیا پریسٹ کو وہاں ’’ملا‘‘ کہتے ہیں؟ میں نے کہا کہ ملا بھی کہہ دیتے ہیں مگر مروجہ اصطلاح ’’مولوی‘‘ ہے۔ اس پر متعلقہ افسر نے انگریزی میں مولوی کے اسپیلنگ لکھنے کے لیے کہا، میں نے اپنے اجتہاد سے MOLVI لکھ دیا۔ اب معلوم نہیں صحیح لکھا یا غلط، اردو کا مسئلہ ہوتا تو ناصر زیدی صاحب اصلاح فرما دیتے، انگریزی کی غلطی کی اصلاح خدا جانے کون صاحب کریں گے۔
آج اتوار کا دن ہم نے تقریباً سو کر گزارا ہے۔ عصر کے بعد کچھ ہوش ٹھکانے آئے ہیں تو قلم اٹھانے کا حوصلہ ہوا ہے۔ اس وقت دارالعلوم نیویارک میں ہوں، کل سے اس دینی درسگاہ کا سالانہ امتحان شروع ہو رہا ہے جس میں دو تین دن مصروف رہوں گا اور اس کے بعد پروگرام کی اگلی ترتیب پر روانہ ہو جاؤں گا ان شاء اللہ تعالیٰ۔