گزشتہ چند روز سے برطانیہ میں ہوں اور مزید چند روز رہنے کا پروگرام ہے، ارادہ ہے کہ ۲۴ جون تک گوجرانوالہ واپس پہنچ جاؤں گا، ان شاء اللہ تعالیٰ۔ دو روز قبل اتوار کو جامعہ الہدٰی نوٹنگھم میں ایک خصوصی نشست تھی جس میں جامعہ میں تعلیم حاصل کرنے والی طالبات کے والدین کو بلایا گیا تھا اور جامعہ کے پرنسپل مولانا رضاء الحق سیاکھوی نے مجھے طالبات کے والدین سے گفتگو کے لیے کہا۔ چنانچہ میں نے اس موقع پر دو امور کی طرف بطور خاص توجہ دلائی۔
ایک یہ کہ دینی ذمہ داریوں میں مردوں کے ساتھ عورتیں بھی شریک ہیں اور فرائض و واجبات کے ساتھ ساتھ سزا و جزا میں بھی ان کا برابر کا حصہ ہے۔ فرائض و واجبات، حلال و حرام، حقوق و معاملات اور آداب و اقدار ہر معاملہ میں عورتوں کے لیے وہی مسائل و احکام ہیں جو مردوں کے لیے ہیں۔ مردوں اور عورتوں کے مسائل و احکام میں مردوں اور عورتوں کے درمیان اسلام نے صرف وہاں فرق کیا ہے جہاں مرد اور عورت کے نوعی امتیاز اور عورت کی مخصوص ذہنی و جسمانی ساخت اور دائرہ کار کے لحاظ سے ضروری تھا۔ ورنہ کم و بیش سبھی معاملات میں قرآن و سنت میں مردوں اور عورتوں سے یکساں خطاب کیا گیا ہے۔ انہی امور میں علم حاصل کرنا اور اس کی تعلیم و اشاعت بھی شامل ہیں کہ جس طرح مرد علم حاصل کرنے اور اسے اگلی نسل تک پہنچانے کے مکلف ہیں اسی طرح عورت کے لیے بھی ضروری ہے کہ وہ علم حاصل کرے اور اس پر خود عمل کرنے کے ساتھ ساتھ معاشرے میں اس کی اشاعت و تعلیم کے لیے متحرک کردار ادا کرے۔
جناب سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کے تلامذہ اور تربیت یافتگان میں جہاں مردوں کی بہت بڑی تعداد ہے وہاں بے شمار عورتیں بھی درسگاہِ نبویؐ سے فیضیاب ہوئی ہیں اور صحابیات رضی اللہ عنہن کی ایک بڑی تعداد ہے جنہوں نے قرآن و سنت کی تعلیم اور پھر تدریس و اشاعت میں نمایاں کردار ادا کیا۔ ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو تو بطور خاص اسی مقصد کے لیے تعلیم دی گئی تھی اور ان کی تربیت کی گئی تھی کہ وہ امت کی خواتین کو تعلیم دیں اور ان کی دینی تربیت کریں۔ انہوں نے عمر کا وہ حصہ جو تعلیم حاصل کرنے کی عمر ہوتی ہے ایک بیوی کے طور پر نبی اکرمؐ کے گھر میں گزارا، وہ نو سال کی عمر میں حرم نبویؐ میں آئیں اور اٹھارہ سال کی عمر تک اس سرچشمہ علم سے استفادہ کرتی رہیں اور پھر کم و بیش نصف صدی تک انہوں نے درسگاہ نبویؐ کے اس شعبے کو مسند نشین کی حیثیت سے آباد کیا۔ حضرت عائشہؓ جن علوم میں دسترس رکھتی تھیں اور جن میں ان سے خواتین کی ایک بڑی تعداد کے ساتھ ساتھ مردوں نے بھی فیض حاصل کیا ان میں قرآن و سنت، ادب و شعر، نسب و تاریخ اور میراث و فرائض کے ساتھ ساتھ طب و علاج کے علوم بھی شامل ہیں۔ ان کے بھانجے اور شاگرد حضرت عروہ بن زبیرؓ فرماتے ہیں کہ میں نے ان علوم میں اپنے دور میں حضرت عائشہؓ سے بڑا کوئی عالم نہیں دیکھا۔
حضرت حفصہؓ کے بارے خود جناب نبی کریمؐ نے ایک صحابیہ حضرت شفا عدویہؓ کو ہدایت فرمائی کہ وہ انہیں لکھنا پڑھنا سکھا دیں۔ اور اسعد بن زرارہؓ کی پوتی حضرت عمرہؒ حضرت عائشہؓ کی سیکرٹری کے طور پر خط و کتابت کی ذمہ داری سنبھالے ہوئے تھیں۔ یہ وہی عمرہؒ ہیں کہ جب امیر المؤمنین حضرت عمر بن عبد العزیزؒ نے احادیث کو باقاعدہ سرکاری طور پر محفوظ کرنے کا فیصلہ کیا اور اس کے لیے صوبوں کے عمّال کو ہدایات جاری کیں تو مدینہ منورہ کے قاضی کو لکھا کہ حضرت عمرہؒ کے علوم و روایات کو جمع و محفوظ کرنے کا خصوصی اہتمام کیا جائے اس لیے کہ وہ ام المؤمنین حضرت عائشہؓ کے علوم کی وارث ہیں۔
اس کے بعد بھی امت میں ہمیشہ معلمات، فقیہات، محدثات اور مفتیات کی ایک بڑی تعداد موجود رہی ہے۔ ہمارے ایک دوست ڈاکٹر اکرم ندوی نے جو محدثات کے حالات زندگی مرتب کر رہے ہیں، بتاتے ہیں کہ وہ آٹھ ہزار محدثات کے حالات زندگی منضبط کر چکے ہیں جس سے امت کی خواتین میں علمی ذوق کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔
البتہ گزشتہ ڈیڑھ دو صدیوں میں جب سے دینی تعلیم کے فروغ کی طرف سرکاری اور عمومی توجہ نہ رہی اور محدود سطح پر دینی مدارس کے قیام کا رضاکارانہ نظام وجود میں آیا تو وسائل و مواقع کی کمی کے باعث خواتین کی تعلیم کا کوئی خاطر خواہ نظم قائم نہ ہو سکا تو اس شعبہ میں خلا پیدا ہو گیا۔ اس کی وجہ یہ نہیں تھی کہ عورتوں میں دینی تعلیم کی ضرورت نہیں ہے بلکہ اس کا باعث یہ تھا کہ دینی تعلیم کا سوسائٹی میں اہتمام کرنے والوں کے پاس وسائل و مواقع اس قدر موجود نہیں تھے کہ وہ اس کو بھی اپنے ایجنڈے میں شامل کر سکتے۔ چنانچہ جونہی حالات نے موافقت کی خواتین کی دینی تعلیم و تربیت کے مدارس قائم ہونا شروع ہو گئے اور اب ان کی تعداد شاید مردوں کے دینی مدارس سے بھی بڑھتی جا رہی ہے۔
اس بات کے لیے کسی دلیل کی ضرورت نہیں ہے کہ خواتین میں تعلیم کے فروغ کے لیے ابتدائی مرحلہ کے بعد خواتین معلمات ہی ناگزیر ہیں اور اس شعبے میں ہمارے یہاں بہت بڑا خلا پایا جاتا ہے۔ اسی طرح یہ بات بھی ناقابل فہم نہیں ہے کہ عورتیں اپنے مسائل کے بارے میں رہنمائی حاصل کرنا چاہیں تو خواتین مفتیات ہی ان کی زیادہ بہتر طور پر رہنمائی کر سکتی ہیں، اس لیے ضروری ہے کہ اس ضرورت کو محسوس کیا جائے اور خواتین معلمات اور مفتیات کی تیاری کی طرف توجہ دی جائے۔ اور یہ ’’کیف ما اتفق‘‘ نہ ہو بلکہ وہ طالبات جو زیادہ باصلاحیت ہوں اور دورانِ تعلیم ان کے ذوق اور صلاحیت و استعداد کو ان کی اساتذہ نے چیک کر لیا ہو ان کا انتخاب کیا جائے اور انہیں اس مقصد کے لیے اہتمام کے ساتھ تیار کیا جائے۔ اس کے لیے والدین کو زیادہ ایثار کا مظاہرہ کرنا ہوگا کہ وہ باصلاحیت طالبات کے بارے میں اپنی خاندانی ترجیحات کا تعین اس انداز سے کریں کہ انہیں اگلے مرحلے کے لیے آسانی کے ساتھ تربیت دی جا سکے۔
اس سے اگلے روز لیسٹر میں اسلامک دعوۃ اکیڈمی نے علماء کرام کے لیے حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی مدظلہ کے ایک خصوصی لیکچر کا اہتمام کر رکھا تھا، میں نے مولانا رضاء الحق سے گزارش کی کہ میں بھی یہ لیکچر سننا چاہتا ہوں، چنانچہ وہ تیار ہوگئے اور ہم دونوں اس نشست میں شریک ہوئے۔ اگرچہ ہم دیر سے پہنچے اور پورا لیکچر نہ سن سکے مگر اس کا آخری حصہ جو پورے خطاب کا لب لباب تھا ہم نے سماعت کر لیا۔ حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی مدظلہ کو اللہ تعالیٰ نے اس کام کے لیے چن لیا ہے کہ وہ اسلامی معاشیات کی تجدید و احیا کا ذریعہ بن رہے ہیں اور نہ صرف پاکستان میں بلکہ عالمی سطح پر معاشیات کے اسلامی اصولوں کے تعارف، جدید معاشی اصولوں کے ساتھ ان کے تقابل و تطبیق اور معاشیات کے حوالے سے جدید سوالات و اشکالات کے حل کے لیے اہل علم کو تیار کرنے میں وہ شب و روز مصروف کار ہیں۔
بہرحال جب مولانا مفتی محمد تقی عثمانی کا خطاب سننے کے لیے اسلامک دعوۃ اکیڈمی لیسٹر کے ملحقہ ہال میں پہنچے تو ہال علماء کرام سے کچھاکچھ بھرا ہوا تھا اور مولانا عثمانی انہیں اپنے خطاب میں ترغیب دے رہے تھے کہ وہ معاشیات کا علم حاصل کریں اور اس میں سستی اور کوتاہی نہ کریں، ان کا کہنا ہے کہ دنیا میں اس وقت دو سو سے زائد مالیاتی ادارے اسلامی معاشی اصولوں کی بنیاد پر کام کر رہے ہیں اور ان کی تعداد اور دائرہ کار میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ انہیں اپنے نظام کو صحیح رخ پر چلانے کے لیے معتبر علماء کی ضرورت ہے جو کہیں بھی نہیں مل رہے، ضرورت بہت زیادہ ہے اور رجال کار کا تناسب بہت کم ہے۔ اس لیے ان علماء کو جو فقہی استعداد و صلاحیت میں ممتاز ہیں اور افتاء کا تجربہ رکھتے ہیں اس کام کے لیے خود کو فارغ کرنا چاہیے۔
مفتی محمد تقی عثمانی نے لیسٹر کے علاوہ برطانیہ کے چند دیگر شہروں میں بھی علماء کرام کے اس نوعیت کے متعدد اجتماعات سے خطاب کیا، مجھے یہ دیکھ کر خوشی ہوئی کہ علماء کرام میں اس کا ذوق بڑھ رہا ہے اور ضرورت کا احساس بیدار ہو رہا ہے۔ نوجوان علماء کرام کے ایک حلقے نے مفتی محمد تقی عثمانی کی سرپرستی اور نگرانی میں اس مقصد کے لیے خصوصی کورسز کا اہتمام کیا اور متعدد کورسز کے پروگرام طے کیے ہیں جو اس سلسلہ میں مثبت پیشرفت کی نشاندہی کرتے ہیں۔ ایک ادارے نے مجھے بھی اس حوالے سے ایک کورس کے لیے آنے کی دعوت دی مگر میں نے معذرت کر دی اس لیے کہ یہ میری فیلڈ نہیں ہے اور نہ ہی اس ذوق سے بہرہ ور ہوں۔ میرا فکری میدان تہذیب و ثقافت کی کشمکش کا ہے اور مغرب کی ثقافتی یلغار اور فکری حملوں کا ادراک حاصل کرنے اور اس کے مقابلے کے لیے اپنی بساط کے مطابق توجہ دلاتا رہتا ہوں، البتہ حضرت مفتی محمد تقی عثمانی کا اسلامی معاشیات کی تجدید و احیا کا کام اور پیشرفت دیکھ کر خوش ہوتا ہوں اور ان کی کامیابی کے لیے مسلسل دعا گو رہتا ہوں۔ آمین یا رب العالمین۔