مجھے امریکہ آئے آج دسواں روز ہے اور اس وقت نیویارک کے ساتھ جزیرہ لانگ آئی لینڈ میں اپنے پرانے دوست اور ساتھی مولانا عبد الرزاق عزیز کے پاس ایک دو روز کے لیے ٹھہرا ہوا ہوں۔ مولاناعبد الرزاق عزیز کا تعلق ہزارہ سے ہے، ایک عرصہ شیر شاہ کراچی کی مسجد طور کے خطیب رہے ہیں، جمعیۃ علماء اسلام کے سرگرم رہنماؤ ں میں سے ہیں، میرے (انتخابی سیاست سے کنارہ کش ہونے کے) بعد جمعیۃ کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات بھی رہے اور اب کئی سالوں سے ہر قسم کے ہنگاموں سے الگ تھلگ لانگ آئی لینڈ کی ایک مسجد میں خطابت وتدریس کے فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔
گزشتہ روز میں دارالہدٰی (اسپرنگ فیلڈ، ورجینیا) کے ڈائریکٹر مولانا عبد الحمیداصغر کے ہمراہ نیویارک پہنچا۔ کوئنز کے علاقہ میں بنگلہ دیش سے تعلق رکھنے والے حضرات نے دارالعلوم نیویارک کے نام سے ایک دینی ادارہ قائم کر رکھا ہے جہاں مولانا مفتی روح الامین کی سربراہی میں مخلص دوستوں کی ایک ٹیم سرگرم عمل ہے۔دارالعلوم میں حفظ قرآن کریم کے ساتھ ابتدائی چند درجوں تک درس نظامی کی تعلیم دی جاتی ہے۔ مفتی صاحب ڈھاکہ کے مشہور عالم دین اور بنگلہ دیش پارلیمنٹ کے رکن مولانا شہید الاسلام کے ساتھیوں میں سے ہیں۔مولانا شہید الاسلام نے ڈھاکہ میں المرکز الاسلامی کے نام سے ایک مرکز قائم کر رکھا ہے جو تعلیم کے ساتھ ساتھ رفاہی میدان میں بھی وسیع خدمات سرانجام دے رہا ہے اور معاشرہ کے نادار افراد اور مستحق لوگوں کو تعلیم اور صحت کے میدان میں بلامعاوضہ خدمات فراہم کر رہا ہے۔ مولانا شہید الاسلام اور مولانا مفتی روح الامین دونوں نے علامہ بنوری ٹاؤن کراچی کے جامعہ علوم اسلامیہ میں درجہ تخصص کی تعلیم حاصل کی ہے جبکہ مولاناشہید الاسلام کے بھائی برکت اﷲ دارالعلوم نیویارک کے نظم و نسق لیے مفتی روح اﷲ کی ٹیم میں شامل ہیں۔ کل انہوں نے بتایا کہ نیویارک سے تھوڑے فاصلے پر دو ایکڑ زمین بمعہ تین بڑی عمارات خرید لی گئی ہے جس میں دارالعلوم کو منتقل کرنے کا پروگرام ہے۔
بنگلہ دیش کے ان مخلص علماء کرام اور ان کے رفقاء کی سرگرمیاں دیکھ کر بہت خوشی ہوئی۔ انہوں نے مغرب کے بعد دارالعلوم کی مسجد میں میرے بیان کا اعلان کر رکھا تھا جس کے لیے بہت سے احباب جمع تھے۔ اس موقع پر بتایا گیا کہ دارالعلوم سے گیارہ طلبہ نے حفظ قرآن کریم مکمل کر لیا ہے چنانچہ اسی مناسبت سے قر آن کریم کی تعلیم کی ضرورت و اہمیت پر کچھ گزارشات پیش کیں اور خاص طور پر اس بات کا ذکر کیا کہ قرآن کریم جناب سرورکائنات صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ عظیم معجزہ ہے جس کا اعجاز آج بھی ہم کھلی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں اور قیامت تک دنیا اس اعجاز کا مشاہدہ کرتی رہے گی کہ یہ دنیا کی واحد کتاب ہے جس کی اس کثرت کے ساتھ باقاعدہ تلاوت ہوتی ہے، جسے یاد کیا جاتا ہے، سنا اور سنایا جاتا ہے، جو دنیا بھر میں لاکھوں حفاظ کے سینو ں میں ہے اور جسے پڑھنے والوں، یاد کرنے والوں اور سننے والوں کی تعداد میں دن بدن اضافہ ہوتا جارہا ہے۔
اس سے قبل واشنگٹن ڈی سی میں ایک ہفتے کے قیام کے دوران دارالہدٰی اسپرنگ فیلڈ میں کم وبیش روزانہ مغرب کے بعد کچھ نہ کچھ بیان کرنے کی فرمائش ہوتی رہی اور میں اپنے ذوق کے مطابق حالات کی مناسبت سے حضرات صحابہ کرام رضوان اﷲ علیہم اجمعین کے حالات و واقعات بیان کرتا رہا۔ میرا یہ ذوق بلکہ تجربہ بھی ہے کہ عام پڑھے لکھے حضرات کے سامنے دین کے مسائل و احکام کو حضرات صحابہ کرامؓ کے حالات وواقعات کی صورت میں پیش کیا جائے تو ان کے لیے اسلام کے مختلف پہلوؤں کو سمجھنا زیادہ آسان ہوتا ہے، اس میں عملیت کا پہلو زیادہ ہے اور اس سے جناب نبی کریمؐ کی محبت و عقیدت میں اضافہ ہوتا ہے۔ عام لوگوں کے سامنے کسی مسئلہ کو عمل اور واقعہ کی صورت میں بیان کیا جائے تو وہ زیادہ جلدی اور بہتر طور پر سمجھ لیتے ہیں۔ اس کے برعکس علمی اور نظری بحثوں میں انہیں الجھایا جائے تو کچھ بات ان کے پلے پڑتی ہے اور کچھ نہیں پڑتی جبکہ ادھوری بات ان کے لیے اطمینان کی بجائے ذہنی پریشانی اور الجھاؤ کا باعث بن جاتی ہے، خیر یہ اپنے اپنے ذوق اور تجربہ کی بات ہے۔
واشنگٹن ڈی سی کے نواح میں ایک علاقہ لارل کے اسلامک سنٹر میں جانے کا اتفاق ہوا جہاں ہمارے ایک محترم اور بزرگ دوست مولانا عبد المتین نعمانی ہفتہ وار درس دیتے ہیں۔ انہوں نے اس بار مجھے درس دینے کا حکم دیا جس کی تعمیل ہوئی اور درس کے بعد سوال وجواب کی محفل گرم ہوئی۔ ایک سوال یہ تھا کہ موجودہ حالات میں امریکہ میں مقیم مسلمانوں کو کیا کرنا چاہیے؟ میں نے عرض کیا کہ موجودہ مخصوص صورتحال میں بلکہ عام نارمل حالات میں بھی مغربی ممالک میں مقیم مسلمانو ں کو میرا مشورہ یہی ہوتا ہے کہ وہ جس ملک میں رہتے ہیں وہاں کے دستور و قانون کی پوری طرح پابندی کریں اور اس کے دائر ہ میں رہتے ہوئے اپنے دین و ملت کے لیے جو بھی کر سکتے ہیں اس گریز نہ کریں۔ میں ایسی سرگرمیوں کے حق میں نہیں ہوں جن سے ملک کے دستور وقانون کی پابندی کا عہد متاثر ہوتا ہو اور عام مسلمانوں کی پریشانیوں میں اضافہ ہوتا ہو، اور ایسی خاموشی کو بھی جائز نہیں سمجھتا جس میں اسلام اور مسلمانوں کے جائز حقوق اور ان کے حصول وتحفظ کے قانونی استحقاق سے دست برداری اختیار کر لی جائے۔ یہ دونوں باتیں غلط ہیں، مسلمانوں کو ان کے درمیان اعتدال اور توازن کا راستہ اختیار کرنا چاہیے اور پوری ہوشیاری اور بیداری کے ساتھ اپنے ملی اور معاشرتی مفادات وحقوق کا تحفظ کر نا چاہیے۔ میں نے گزارش کی کہ اس سلسلہ میں عام طور پر امریکہ اور برطانیہ میں مقیم مسلمانوں سے میں یہ عرض کیا کرتا ہوں کہ وہ اپنے اردگرد رہنے والے یہودیوں کو دیکھیں کہ وہ کس سلیقے اور نظم کے ساتھ یہودیت اور اسرائیل کے مفادات کے لیے کام کرتے ہیں۔ ان کے طرز عمل سے رہنمائی حاصل کریں اور ان کے تجربات سے فائد ہ اٹھائیں کیونکہ جو جدوجہد اور اجتماعی محنت یہاں کے یہودیوں کا حق ہے، مسلمانوں کو بھی اس کا برابر کا حق حاصل ہے، بشرطیکہ وہ جذباتیت اور سطحیت کی بجائے پلاننگ اور سلیقے کے ساتھ کی جائے اور یہاں کی عام آبادی کو متنفر کرنے کی بجائے ان کے ذہن وقلب تک رسائی حاصل کرنے کے انداز کے ساتھ کی جائے۔
خواتین کی بھی ایک بڑی تعداد شریک تھی جو ایک الگ ہال میں باپردہ طور پر درس کی محفل میں موجود تھیں ان کی طرف سے بھی تحریری سوالات آئے اور مجھے یہ دیکھ کر خوشی ہوئی کہ مردوں کے ساتھ ساتھ عورتیں بھی دینی معاملات اور سرگرمیوں میں حصہ لے رہی ہیں۔