خطابت کی دنیا اور نئے دور کا نیا اسلوب

   
۸ جولائی ۲۰۱۲ء

شعبان المعظم اور رمضان المبارک میں دینی مدارس کی سالانہ تعطیلات ہوتی ہیں لیکن بہت سے مدارس ان تعطیلات کے دوران طلبہ کو مصروف رکھنے اور ان کی استعداد بڑھانے کے لیے مختلف موضوعات پر تربیتی کورسز کا اہتمام کر لیتے ہیں اور ماضی میں بھی ایسا ہوتا رہا ہے۔ مختصر دورانیہ کی ترجمہ قرآن کریم اور تفسیر کی کلاسیں ہوتی ہیں جنہیں ہمارے ہاں دورۂ تفسیر کہا جاتا ہے۔ یہ عام طور پر چالیس پینتالیس دنوں کی کلاس ہوتی ہے، ان طلبہ کو جو پہلے ترجمۂ قرآن کریم پڑھ چکے ہوتے ہیں انہیں مختصر تفسیر کے ساتھ قرآن کریم کے ترجمہ کا اعادہ کرایا جاتا ہے اور پڑھانے والے اساتذہ اپنا فکری و مسلکی ذوق بھی طلبہ کے ذہنوں میں منتقل کرتے ہیں۔ بعض مدارس صرف و نحو یعنی عربی گرائمر کے قواعد و ضوابط پڑھاتے ہیں، بعض میں دورۂ میراث کے نام سے وراثت کے شرعی احکام و قوانین کی ازسرنو یاد دہانی کرائی جاتی ہے، اس طرح یہ مختلف کورسز طلبہ کو مصروف رکھنے کے ساتھ ساتھ ان کی علمی استعداد میں اضافے کا باعث بھی بنتے ہیں۔

چند برسوں سے ’’میڈیا کورس‘‘ کے عنوان سے ذرائع ابلاغ کے استعمال کی ضرورت کا احساس دلانے کے علاوہ ان کی تربیت دینے کے حوالے سے بعض مقامات پر پروگرام شروع ہوگئے ہیں جو بہت خوش آئند ہیں اور ان سے دینی مدارس کے طلبہ اور اساتذہ میں اس کا احساس اور شعور بیدار ہو رہا ہے کہ آج کے دور میں میڈیا کی اہمیت کیا ہے، اس کا دائرہ کار اور طریق کار کیا ہے اور دینی مقاصد کے لیے اس کی ضرورت کیا ہے؟ اس حوالہ سے گزشتہ ایک ہفتہ کے دوران تین مختلف کورسز میں حاضری اور کچھ گزارشات پیش کرنے کا موقع ملا۔

لاہور کینٹ کے علاقہ میں جمعیۃ علماء اسلام (س) کے رہنما ظہیر الدین بابر ایڈووکیٹ نے شاہ ولی اللہ سوسائٹی کے تعاون سے دینی مدارس کے طلبہ اور اساتذہ کے لیے مسلسل ایک ہفتہ کے تربیتی کورس کا اہتمام کیا جس کی اختتامی نشست میں شرکت اور گفتگو کا موقع ملا۔ طلبہ کی بڑی تعداد نے ذوق و شوق کے ساتھ اس میں شرکت کی اور میڈیا کے مختلف شعبوں کے ماہرین نے انہیں اپنے تجربات و مشاہدات سے آگاہ کیا۔ دیگر علمائے کرام کے علاوہ اس کورس کی سرپرستی کرنے والوں میں پنجاب یونیورسٹی کے سینئر اساتذہ پروفیسر ڈاکٹر محمود الحسن عارف، پروفیسر ڈاکٹر سعد صدیقی اور پروفیسر حافظ ظفر اللہ شفیق بھی شامل ہیں۔

اسلام آباد کے علاقہ کورنگ ٹاؤن کی مرکزی جامع مسجد میں مولانا شبیر عباسی نے بیس روزہ خطابت کورس کا اہتمام کر رکھا ہے جس میں علمائے کرام کی ایک بڑی تعداد شریک ہے۔ اس کی ایک نشست میں مجھے خطابت کی اہمیت اور تقاضوں کے حوالے سے گفتگو کا موقع ملا۔ جبکہ اسلام آباد ہی میں شہزاد ٹاؤن کی جامع مسجد میں معروف کالم نگار مولانا عبد القدوس محمدی نے بیس روزہ میڈیا کورس کے نام سے اسی قسم کی محفل سجا رکھی ہے اور مجھے ایک نشست میں معروضات پیش کرنے کی سعادت حاصل ہوئی۔ ان محافل میں تفصیل کے ساتھ جو گزارشات میں نے کیں ان کے کچھ حصے اس کالم میں شامل کر رہا ہوں:

  1. وقت گزرنے اور ماحول بدلنے کے ساتھ ساتھ خطابت کا معیار اور اسلوب بھی بدلتا جا رہا ہے جس کا لحاظ رکھنا ضروری ہے۔ مثلاً ہمارے ہاں پون صدی قبل کی خطابت کا اسلوب مختلف تھا جو آج کسی طور پر بھی کارآمد نہیں ہے۔ وہ دور مولانا ابوالکلام آزادؒ کی خطابت کا دور تھا، پرشکوہ الفاظ، مشکل تراکیب اور نادر محاوروں کی حکمرانی تھی۔ لیکن آج کا اسلوب یہ نہیں ہے بلکہ اس کی بجائے آپ کو آسان الفاظ، سہل تراکیب اور عام فہم محاوروں میں بات کرنا ہوگی۔ آج آپ جتنے سادہ اور عام فہم انداز میں بات کر سکیں گے اتنے ہی اچھے خطیب شمار ہوں گے۔
  2. پون صدی قبل کی خطابت کا یہ بھی کمال سمجھا جاتا تھا کہ آپ ایک موضوع پر کتنی لمبی گفتگو کر سکتے ہیں اور اپنے سامعین کو کتنے زیادہ عرصے تک قابو میں رکھ سکتے ہیں۔ امیر شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاریؒ کی خطابت کا ایک کمال یہ بیان کیا جاتا ہے جو فی الواقع اس دور کے لحاظ سے بڑا کمال تھا کہ وہ عشاء کے بعد بیان شروع کرتے اور فجر کی اذانیں سن کر لوگوں کو احساس ہوتا کہ شاہ جیؒ کی خطابت کے سحر میں پوری رات بیت چکی ہے۔ مگر آج لوگوں کے پاس اتنا وقت نہیں ہے اور نہ ہی وہ ذوق باقی رہا ہے، اس لیے آج کی خطابت کا کمال یہ ہے کہ آپ کتنے مختصر وقت میں کتنی جامع اور مکمل بات کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اگر آپ تھوڑے وقت میں اپنی گفتگو مکمل کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں تو اچھے خطیب کے طور پر آپ کا شمار ہوگا۔
  3. اب سے پون صدی قبل کی خطابت میں الفاظ کا جادو سر چڑھ کر بولا کرتا تھا، مگر آج کی خطابت مواد کی فراوانی اور ثقاہت کا تقاضا کرتی ہے۔ آپ اگر اپنے سامعین کو اپنے موضوع کے حوالے سے زیادہ سے زیادہ مستند مواد فراہم کر سکتے ہیں اور ان کی معلومات میں اضافہ کر سکتے ہیں تو ایک اچھے خطیب کا تعارف آپ کو حاصل ہو سکتا ہے۔
  4. علمائے کرام، خطباء اور واعظین کو ایک اور تبدیلی پر بھی نظر رکھنا ہوگی کہ اب سے نصف صدی قبل تک عام لوگوں بلکہ جدید پڑھے لکھے لوگوں کے لیے بھی دینی معلومات کا واحد ذریعہ ہم ہوتے تھے۔ کسی دینی مسئلہ پر جو معلومات ہم انہیں فراہم کر دیتے تھے وہی زیادہ تر ان کا مبلغ علم ہوتا تھا، اس لیے وہ ہماری فراہم کردہ معلومات اور ان کے نتائج پر آنکھیں بند کر کے یقین کر لیتے تھے۔ لیکن آج یہ صورتحال نہیں ہے۔ انٹرنیٹ، ٹی وی، جرائد و اخبارات اور تیزی سے پھیلتے ہوئے لٹریچر کی صورت میں ان کے پاس دینی معلومات حاصل کرنے کے بہت سے متبادل ذرائع موجود ہیں اور وہ خطبہ و درس میں ہماری باتیں سن کر اپنی معلومات کے ساتھ ان کا تقابل کرتے ہیں۔ چنانچہ ہماری ذمہ داری بڑھ گئی ہے کہ ہم اپنی معلومات کو چیک کریں اور پورے اعتماد کے ساتھ انہیں پیش کریں، اس لیے کہ اگر ہماری فراہم کردہ معلومات دیگر ذرائع سے حاصل ہونے والی معلومات کے مقابلے میں کمزور ہوں گی تو اس سے خطیب کی ثقاہت مجروح ہوگی اور اس کا اعتماد کمزور ہوگا، جو صرف خطیب کا نقصان نہیں بلکہ دینی نقصان بھی ہے۔
  5. ہمارے ہاں ابھی تک دینی گفتگو میں مناظرے کے اسلوب کی حکمرانی ہے اور ہم عام طور پر کوئی بھی دینی بات فتوے کی زبان میں کہنے کو زیادہ پسند کرتے ہیں۔ مناظرے اور فتوے کی اہمیت اپنے دائرے میں مسلم ہے اور اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا مگر عام پبلک کے سامنے درس اور خطبے کے طرز کی گفتگو میں ہمیں آج یہ اسلوب کام نہیں دیتا بلکہ نقصان کا باعث بن سکتا ہے۔ آج مناظرے کے اسلوب میں نہیں بلکہ بریفنگ کے انداز میں بات کرنے کی ضرورت ہے اور وہی زیادہ مؤثر بھی ہے۔ آپ اپنے سامعین پر کوئی فیصلہ اپنی طرف سے مسلط کرنے کی بجائے ان کے سامنے متعلقہ مسائل میں معلومات اس ترتیب اور مہارت کے ساتھ پیش کریں کہ وہ اسی نتیجے تک پہنچیں جو آپ ان کے سامنے رکھنا چاہتے ہیں۔
  6. اس کے ساتھ ساتھ علمائے کرام اور خطباء کو اپنے دور کے حالات اور ضروریات سے باخبر رہنا چاہیے اور مختلف النوع مطالعہ کا سلسلہ جاری رکھنا چاہیے تاکہ وہ اپنے سامعین کو قائل کر سکیں۔
   
2016ء سے
Flag Counter