انبیاء کرامؑ کی دعوت کے مختلف مناہج

   
بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد، کراچی ریجنل سنٹر
۱۸ اکتوبر ۲۰۱۸ء

کراچی کے حالیہ سفر کے دوران ۱۸ اکتوبر کو بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد کے کراچی ریجنل سنٹر دعوہ سنٹر احسن آباد میں ’’انبیاء کرام علیہم السلام کی دعوت کے مختلف مناہج‘‘ کے موضوع پر معروضات پیش کرنے کا موقع ملا جن کا خلاصہ نذر قارئین ہے۔

بعد الحمد والصلٰوۃ۔ محترم ڈاکٹر سید عزیز الرحمن صاحب کا شکرگزار ہوں کہ میری کراچی حاضری کے موقع پر اس سنٹر میں آپ حضرات کے ساتھ ملاقات و گفتگو کی کوئی صورت نکال لیتے ہیں، اللہ تعالیٰ انہیں جزائے خیر سے نوازیں، آمین۔ ہماری آج کی گفتگو کا عنوان ہے ’’انبیاء کرام علیہم السلام کی دعوت کے مختلف مناہج‘‘ اس کے چند پہلوؤں پر کچھ معروضات پیش کروں گا۔

اللہ تعالیٰ کے پیغمبر، نبی، اور رسول کا بنیادی منصب داعی کا ہے کہ وہ نسل انسانی کے کس حصہ کو اللہ تعالیٰ کی بندگی اور توحید کی طرف دعوت دیتے تھے۔ اللہ تعالیٰ کی بندگی اور اس بندگی کو شرک سے محفوظ رکھنا سب سے پہلی دعوت ہے۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ کے رسول کی حیثیت سے اس کے نبی اور رسول کی اطاعت اس دعوت کا دوسرا حصہ ہے۔ جبکہ اس دنیا کو عارضی زندگی سمجھتے ہوئے آخرت کی اصل اور ابدی زندگی کی تیاری کرنا جو انسان کی اصل ذمہ داری ہے اس کی طرف لوگوں کو متوجہ کرنا دعوت کا تیسرا حصہ ہے۔

چنانچہ اللہ تعالیٰ کے ہر پیغمبر کی بنیادی دعوت یہ رہی ہے کہ ’’فاتقوا اللّٰہ واطیعون‘‘ اللہ تعالٰی سے ڈرو اور میری اطاعت کرو۔ اس دعوت کے مختلف دائرے رہے ہیں۔ اس کا ایک دائرہ ’’یاقوم‘‘ کا تھا، ایک دائرہ ’’یا اہلِ مدین‘‘ کی صورت میں علاقہ کا تھا، ایک دائرہ ’’یا بنی اسرائیل‘‘ کا تھا، جبکہ آخری اور مکمل دائرہ ’’یا ایہا الناس‘‘ کا ہے جو جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کا عنوان تھا۔ نسل، رنگ، قوم اور علاقہ سے بالاتر ہو کر پوری نسل انسانی کو ’’یا بنی آدم‘‘ اور ’’یا ایہا الناس‘‘ کے ساتھ سب سے پہلے جناب نبی اکرمؐ نے خطاب فرمایا اور وہی انسانیت کے سب سے پہلے اور سب سے بڑے ’’گلوبل لیڈر‘‘ ہیں۔ آج کی دنیا کا کہنا ہے کہ گلوبلائزیشن، انٹرنیشنل ازم اور بین الاقوامیت کو انہوں نے دنیا میں متعارف کرایا ہے، جبکہ میری گزارش اور تاریخی حقیقت یہ ہے کہ یہ کام سب سے پہلے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا ہے اور گلوبلائزیشن کا صرف دعوٰی نہیں کیا بلکہ ایک گلوبل انسانی سوسائٹی قائم کر کے دنیا کے سامنے پیش کی ہے۔

انبیاء کرام علیہم السلام کی دعوت کے بارے میں ایک بات آج کل عام طور پر کہی جاتی ہے کہ انہوں نے انسان کا خدا سے تعلق قائم کرنے کی بات کی ہے، اور وحی کا دائرہ کار یہ ہے کہ اللہ تعالٰی اور اس کی مخلوق کے درمیان عقیدہ اور بندگی کا تعلق قائم ہو۔ جبکہ انسانی معاشرت، سوسائٹی اور سماج کا وحی کے خطاب سے کوئی تعلق نہیں ہے، اس لیے سوسائٹی اپنے مسائل اور معاملات طے کرنے میں خود مختار اور آزاد ہے۔

اس سلسلہ میں عرض کرنا چاہوں گا کہ انبیاء کرام علیہم السلام کی دعوت کی جو صورتیں قرآن کریم نے بیان کی ہیں وہ اس کی تائید نہیں کرتیں۔ اس لیے کہ قرآنِ کریم کے ارشادات کے مطابق انبیاء کرامؑ نے صرف عقیدہ اور بندگی کی بات نہیں کی بلکہ انسانی سماج کے مسائل اور سوسائٹی کی اجتماعی خرابیوں کو بھی ایڈریس کیا ہے۔ اس لیے انسانی سماج، سوسائٹی اور معاشرت بھی وحی الٰہی، آسمانی تعلیمات، اور حضرات انبیاء کرام علیہم السلام کا اہم موضوع ہیں، اس کی چند مثالیں عرض کرنا چاہوں گا۔

  • اللہ تعالیٰ کے دو پیغمبروں حضرت موسیٰ علیہ السلام اور ہارون علیہ السلام نے فرعون کو صرف خدا تعالٰی کی بندگی اور توحید کی دعوت نہیں دی بلکہ اس سے بنی اسرائیل کو غلامی سے آزاد کرنے کا مطالبہ بھی کیا اور تقاضہ کیا کہ ’’أن أرسل معنا بنی اسرائیل ولا تعذبہم‘‘ بنی اسرائیل کو آزاد کر کے ہمارے ساتھ روانہ کرو اور غلامی کے عذاب سے ان کو نجات دو۔ پھر ان دونوں نے بنی اسرائیل کی آزادی کی جدوجہد کی قیادت بھی فرمائی۔
  • حضرت شعیب علیہ السلام نے توحید اور عبادت کے ساتھ ساتھ اپنے معاشرہ کو ماپ تول میں کمی نہ کرنے، اشیائے صرف کا معیار خراب نہ کرنے، اور سوسائٹی میں فساد پھیلانے سے باز رہنے کی تلقین فرمائی۔ جس کے جواب میں قوم نے انہیں طعنہ دیا کہ کیا تمہاری نمازیں تمہیں یہ سکھاتی ہیں کہ ہم اپنے اموال میں اپنی مرضی سے تصرف نہ کریں ’’أن نفعل فی اموالنا ما نشآء‘‘۔ اس طرح اللہ تعالٰی کے پیغمبر نے سوسائٹی کے معاشرتی نظام پر بات کی اور اس کی خرابیوں کی نشاندہی کرتے ہوئے انہیں ختم کرنے کی محنت کی۔
  • حضرت لوط علیہ السلام نے توحید و بندگی کے ساتھ ساتھ ہم جنس پرستی کے خلاف مورچہ لگایا اور قوم کی اس عادت سے ان کو روکنے کی پوری کوشش کی، اس پر قرآن کریم میں ان کا پورا مکالمہ درج کیا ہے۔ انہوں نے خاندانی نظام کے تحفظ اور ہم جنس پرستی کی لعنت کے خاتمہ کی آواز اٹھائی اور یہ ان کے نبوی مشن کا حصہ تھا۔
  • حضرت ہود علیہ السلام نے توحید و بندگی کے ساتھ قوم کی عیاشی کے ماحول کو موضوع بحث بنایا اور فرمایا ’’أتبنون بکل ریع آیۃ تعبثون وتتخذون مصانع لعلکم تخلدون‘‘ تم ہر سبزہ راہ میں کھیل کود کے مراکز قائم کرتے ہو اور ایسی ایسی بلڈنگیں بناتے ہو جیسے تم نے ہمیشہ یہاں رہنا ہے۔
  • جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے تو پورے معاشرے کی اصلاح کو موضوع بنایا، عرب معاشرہ کے ہر شعبہ میں اصلاحات کیں اور اس کی بہت سی اقدار کو جاہلی قرار دے کر مسترد کر دیا۔ آپؐ نے جب صفا پہاڑی پر کھڑے ہو کر پہلی آواز لگائی تھی اس وقت عرب معاشرہ بالکل مختلف تھا، اور جب صرف دو عشروں کے بعد منٰی میں حجۃ الوداع کے خطبہ کے دوران یہ فرمایا کہ ’’کل امر الجاہلیۃ موضوع تحت قدمی‘‘ تو معاشرہ اور سماج مکمل طور پر تبدیل ہو چکا تھا۔ میں اربابِ دانش سے عرض کیا کرتا ہوں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جن جاہلی اقدار و روایات کو ختم کرنے کا اعلان فرمایا تھا وہ ساری کی ساری آج پھر انسانی معاشرہ کی حصہ بن چکی ہیں اور ان کے خلاف ازسرِنو جدوجہد جناب نبی اکرمؐ کے مشن اور پروگرام کا اصل تقاضہ ہے۔

حضرات انبیاء کرام علیہم السلام انسانی معاشرہ کو اللہ تعالیٰ کے احکام کے تحت زندگی بسر کرنے کی دعوت دینے آئے تھے اور زندگی کا کوئی شعبہ بھی اس کے دائرہ سے باہر نہیں ہے، چنانچہ اللہ تعالیٰ کے پیغمبروں اور خاص طور پر بنی اسرائیل کے انبیاء کرام علیہم السلام اور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کے مجموعی ماحول اور دائروں کا مطالعہ کرنے اور ان کے سماجی پہلوؤں کو اجاگر کرنے کی ضرورت ہے۔ اس لیے اہلِ تحقیق و مطالعہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کے سماجی اور معاشرتی پہلوؤں کو خصوصی اہمیت کے ساتھ موضوع بحث بنائیں اور اس طرف نئی نسل کی راہنمائی کریں کیونکہ آج کی انسانی سوسائٹی کو سب سے زیادہ اسی کی ضرورت ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔

(ماہنامہ نصرۃ العلوم، گوجرانوالہ ۔ نومبر ۲۰۱۸ء)
2016ء سے
Flag Counter