اسلام آباد کے دھرنوں کے پاکستان اور اس خطے پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں یہ جاننے کے لیے ابھی انتظار کرنا ہوگا، لیکن یمن کے دارالحکومت صنعا کے گرد حوثی قبائل کا ایک ماہ سے زیادہ جاری رہنے والا ’’دھرنا‘‘ کامیاب ہوگیا ہے اور ۱۷ اگست سے شروع ہونے والے اس دھرنے کو ۲۱ اگست کے روز اقوام متحدہ کے ایلچی جمال بن عمر کی نگرانی میں ہونے والے اس معاہدے نے تکمیل تک پہنچا دیا ہے کہ حکومت مستعفی ہو جائے گی اور اس کی جگہ ٹیکنوکریٹ حکومت قائم ہوگی۔ چند سال قبل ’’عرب بہار‘‘ کی عوامی یلغار کے بعد علی عبد اللہ صالح کا تین عشروں سے زیادہ عرصہ پر محیط دور اقتدار ختم ہونے پر عبد ربہ منصور ہادی کی سربراہی میں نئی حکومت قائم کی گئی تھی جسے حوثی قبائل کی مسلسل اور مسلح یلغار کے باعث مذکورہ معاہدہ کرنا پڑ گیا ہے اور اب یمنی عوام نئی ٹیکنوکریٹ حکومت کی تشکیل کے انتظار میں ہیں۔
حوثی قبائل شمالی یمن میں اکثریت رکھتے ہیں اور یمن کی اڑھائی کروڑ آبادی کا تیس فیصد ہیں۔ حوثی قبائل زیدی شیعہ ہیں جبکہ باقی ستر فیصد آبادی اہل سنت شافعی فقہ سے تعلق رکھتی ہے۔ زیدی خود کو حضرت امام زین العابدینؒ کے فرزند حضرت زیدؒ کا پیروکار کہتے ہیں اور تب سے اپنا مستقل مذہبی تشخص رکھتے ہیں۔ ماضی میں یمن میں زیادہ تر انہی کی حکومت رہی ہے۔ زیدی کہلاتے تو شیعہ ہیں لیکن حضرات صحابہ کرامؓ کی تکفیر نہیں کرتے بلکہ حضرت ابوبکرؓ، حضرت عمرؓ اور حضرت عثمانؓ کی خلافت کو بھی جائز مانتے ہیں، البتہ حضرت علیؓ کی تمام صحابہ کرامؓ پر فضیلت کے قائل ہیں اور کہتے ہیں کہ افضل کی موجودگی میں مفضول کی خلافت بھی جائز ہوتی ہے۔ باقی معاملات میں وہ اہل سنت اور اہل تشیع کے درمیان ملے جلے عقائد و احکام رکھتے ہیں۔ جبکہ ایران کے دستور میں جہاں اثنا عشری مذہب کو ملک کا سرکاری مذہب قرار دیا گیا ہے وہاں زیدیوں کو حنفی، شافعی، مالکی اور حنبلی مذاہب کے ساتھ اقلیتی مذاہب میں شمار کیا گیا ہے۔
یمن میں عبد ربہ منصور ہادی کی حکومت کے خلاف، جس میں اخوان سمیت بہت سی جماعتیں شریک ہیں، حوثیوں کی اس مسلح بغاوت میں ایران کی کھلی اور بھرپور سرپرستی حاصل ہے حتٰی کہ یمن کے دارالحکومت صنعا کے محاصرے میں حوثیوں کی مذکورہ کامیابی کے بعد تہران سے ایرانی پارلیمنٹ کے رکن علی رضا زاکانی نے کہا ہے کہ ایران کو تین عرب دارالحکومتوں (۱) بغداد (دمشق (۳) اور بیروت کے بعد چوتھے دارالحکومت (۴) صنعا پر بھی اختیار حاصل ہوگیا ہے اور اس طرح عرب دنیا میں ایرانی اثر و رسوخ نے ایک نیا رخ اور نئی طاقت حاصل کر لی ہے۔ جس پر کویت کے معروف سنی دانشور ڈاکٹر عبد اللہ نفیسی نے حوثیوں کی یلغار کو صفوی یلغار قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس کا راستہ روکنا صرف یمن کا نہیں بلکہ مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کا دفاع بھی ہوگا۔
ہم ایک عرصہ سے گزارش کر رہے ہیں کہ مشرق وسطٰی میں ’’دولتِ فاطمیہ‘‘ کی واپسی کی راہ ہموار کی جا رہی ہے اور اس سلسلہ میں ہر آنے والا دن گزشتہ دن سے زیادہ تشویشناک ثابت ہو رہا ہے۔ اس میں سب سے زیادہ توجہ کے قابل بات یہ ہے کہ شام کے علوی، یمن کے زیدی اور ایران کے اثنا عشری باہمی اختلافات کو نظرانداز کرتے ہوئے ایک صف میں محاذ آرا ہیں، حالانکہ ان کے درمیان بنیادی عقائد کے اختلافات اس حد تک موجود ہیں کہ عام حالات میں وہ ایک دوسرے کو اپنے ساتھ شمار کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے، لیکن مشرق وسطٰی میں اور خاص طور پر حرمین شریفین کے گرد تسلط قائم کرنے کے لیے وہ پوری طرح متحد اور ایک دوسرے کے معاون ہیں۔ جبکہ دوسری طرف سعودی عرب کے سلفی اور مصر کے شافعی باہم مل بیٹھنے کو تیار نہیں ہیں اور پاکستان کے اہل سنت کو تو ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے کے محبوب مشغلہ سے ہی فرصت نہیں ہے۔
یمن میں اقوام متحدہ کے زیر نگرانی حوثیوں اور یمنی حکومت کے درمیان طے پانے والے مذکورہ معاہدے کو عرب دنیا کے دانشوروں میں ’’سقوط یمن‘‘ سے تعبیر کیا جا رہا ہے اور اس معاہدہ کے اگلے روز حوثیوں نے جو جشن منایا ہے وہ اس سلسلہ میں ان کے مستقبل کے عزائم کا اندازہ کرنے کے لیے کافی ہے۔ مشرق وسطٰی کی یہ سنی شیعہ محاذ آرائی جو اَب وسیع تر خانہ جنگی کا روپ دھار چکی ہے اسلامی جمہوریہ پاکستان کے اردگرد بلکہ اندر بھی اپنے اثر و رسوخ کے دائرے بڑھاتی جا رہی ہے جسے دیکھنے کے لیے محدود ذہنی خولوں سے باہر نکل کر کھلی نظر سے ماحول کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ جبکہ اسے ہم نے اپنے لیے ’’شجر ممنوعہ‘‘ کا درجہ دے رکھا ہے، مگر کیا شتر مرغ کی طرح ریت میں سر دے کر ہم خود کو آنے والے طوفان سے محفوظ رکھ سکیں گے؟