روزنامہ جنگ لاہور نے ۲۵ فروری ۲۰۰۴ء کو سی این این کے حوالہ سے یہ خبر شائع کی ہے کہ امریکہ کے صدر جارج ڈبلیو بش نے ایک انٹرویو میں ہم جنس پرستوں کی شادی پر پابندی کی حمایت کی ہے اور کہا ہے کہ ہمیں اس معاملے میں مزید چیلنجز کا سامنا ہوسکتا ہے، انہوں نے امریکی آئین میں ترمیم کے لیے کہا جس سے ہم جنس پرستوں پر پابندی لگائی جائے۔
ہم جنس پرستی جو جنسی آوارگی کی آخری منزل ہے آج کی دنیا کے لیے مغرب کا شرمناک تحفہ ہے جسے امریکہ سمیت کم و بیش تمام مغربی ممالک نے قانونی تحفظ دے رکھا ہے۔ بلکہ ہم جنس پرستوں کی باہمی شادی کی قانونی حیثیت کو تسلیم کرنے کے ساتھ ساتھ عالمی کانفرنسوں کے ذریعے دنیا بھر کے ممالک پر زور دیا جا رہا ہے کہ وہ ’’متبادل جنسی عمل‘‘ کے اس مکروہ دھندے کو قانونی تحفظ دیں اور مغربی ممالک کی طرح اپنے قوانین میں یہ گنجائش پیدا کریں کہ ایک مرد دوسرے مرد سے اور ایک عورت دوسری عورت سے شادی رچا کر ہم جنس پرستی کی اس لعنت کو دنیا بھر میں فروغ دے سکیں۔
قرآن کریم کے مطابق یہ لعنتی عمل حضرت لوط علیہ السلام کی قوم پر آسمان سے پتھروں کی بارش کا باعث بنا تھا جس کی وجہ سے سدوم اور عمورہ کی بستیاں زمین میں دھنس کر بحیرۂ مردار کی صورت میں قیامت تک کے لیے نشان عبرت بنی ہوئی ہیں اور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس ملعون عمل کے دوبارہ انسانی سوسائٹی میں رواج پانے کو قیامت کی نشانیوں میں شمار کیا ہے جبکہ بائبل نے بھی اسے لعنتیوں کا کام بتایا ہے۔ مگر مغرب نے ’’شخصی آزادی‘‘ کے نام پر اسے آزادی کی علامت قرار دے کر انسانی حقوق کی فہرست میں شامل کر رکھا ہے اور دنیا بھر سے ان ’’انسانی حقوق‘‘ کے احترام کا تقاضہ کیا جا رہا ہے۔
اس صورتحال میں امریکہ کے صدر کی طرف سے سامنے آنے والی یہ آواز ہمارے نزدیک ’’جنسی آوارگی کی صدائے بازگشت‘‘ ہے جس پر خود مغرب کو سنجیدگی کے ساتھ غور کرنا چاہیے اور اس بات کا جائزہ لینا چاہیے کہ اس نے شخصی آزادی کے عنوان پر جنسی آوارگی کا جو طوفان بدتمیزی بپا کر رکھا ہے اس نے مغرب کے فیملی سسٹم کا بیڑہ تو غرق کر ہی دیا ہے اب باقی دنیا بھی اس طغیانی کی زد میں ہے۔ اور یہ صرف ہم جنس پرستی تک محدود نہیں بلکہ خاندانی نظام کی بندھنوں کو توڑنے والی وہ تمام اقدار و روایات اسی کے ساتھ شامل ہیں جنہیں مغرب نے آزادیوں اور حقوق کے نام سے سینے سے لگا رکھا ہے اور جو انسانی سوسائٹی کے سکون اور انسان کے ذہنی و قلبی اطمینان کو دیمک کی طرح چاٹ رہی ہے ۔اس لیے اگر صدر بش اس مقصد کے لیے امریکی آئین میں کسی ترمیم کے خواہش مند ہیں تو صرف ہم جنس پرستی پر پابندی سے مقصد حل نہیں ہوگا بلکہ خاندانی نظام اور رشتوں کے اس تقدس کو سوسائٹی میں پھر سے واپس لانا ہوگا جس کی بنیاد آسمانی تعلیمات پر ہے اور آسمانی تعلیمات کی طرف واپسی کے بغیر جس کی بحالی کا کوئی امکان نہیں ہے۔