روزنامہ اسلام لاہور ۲۲ جولائی ۲۰۰۴ء کی خبر کے مطابق متحدہ مجلس عمل کی خواتین ارکان اسمبلی نے ایک مشترکہ بیان میں کہا ہے کہ وزیر اعظم کی مشیر نیلو بختیار کی سربراہی میں قائم قومی اسمبلی کی اسٹینڈنگ کمیٹی نے عورت کو طلاق کا حق دینے کی جو تجویز پیش کی ہے وہ قابل قبول نہیں ہے اور قرآن و سنت کی تعلیمات کے منافی ہے اس لیے وہ اسے مسترد کرتی ہیں۔
قومی اسمبلی میں ان دنوں حدود آرڈیننس اور دیگر شرعی قوانین کے حوالہ سے اس ایجنڈے پر سرگرمی کے ساتھ کام جاری ہے کہ ان قوانین کو آج کے مغربی قوانین کے معیار کے مطابق ڈھالا جائے اور جرائم کی شرعی سزاؤں میں ترامیم کے ساتھ ساتھ عورتوں کو مغرب کی طرح طلاق کا حق بھی دلوایا جائے۔ اسلامی قوانین کو مغربی قوانین کے معیار کے مطابق ڈھالنے کا کام گزشتہ نصف صدی سے جاری ہے اور سابق صدر محمد ایوب خان مرحوم نے جو رسوائے زمانہ عائلی قوانین نافذ کیے تھے وہ بھی اسی مہم کا حصہ تھے کیونکہ اس کی بہت سی دفعات قرآن و سنت سے صریح متصادم تھیں۔ اس لیے علماء کرام اور دینی جماعتوں نے شدید مزاحمت کی اور اس سلسلہ میں قومی اسمبلی میں حضرت مولانا مفتی محمودؒ اور مغربی پاکستان اسمبلی میں حضرت مولانا غلام غوث ہزارویؒ کے معرکۃ الآراء خطبات ہماری پارلیمانی تاریخ کا ایک اہم حصہ ہیں۔ دینی حلقوں کی اس مزاحمت کی وجہ سے ملک میں قانوناً نافذ ہونے کے باوجود یہ عائلی قوانین عوام کے دلوں میں جگہ نہیں پا سکے اور عام مسلمانوں کی غالب اکثریت اب بھی ان قوانین پر عمل کرنے کی بجائے نکاح، طلاق اور وراثت کے احکام میں مفتیان کرام سے رجوع کرتی ہے اور علماء کرام کی ہدایات پر عمل کرتی ہے۔ اس کے بعد بھی ملک میں متعدد کمیشن قائم ہوئے جنہوں نے اسلامی قوانین میں اس نوعیت کی ترامیم کی سفارش کی جن کا مقصد قرآن و سنت کے صریح قوانین کو مغربی ممالک کے قوانین کے مطابق تبدیل کرنا تھا لیکن کوئی کوشش قرآن و سنت پر پاکستانی مسلمانوں کے بے لچک ایمان کو ’’کراس‘‘ نہیں کر سکی اور بحمد اللہ تعالیٰ عام مسلمان ان میں سے کسی بات کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔
شرعی قوانین میں ترامیم کی موجودہ کوششیں بھی اسی مہم کا حصہ ہیں اور ’’روشن خیال اسلام‘‘ کے عنوان سے مغرب پاکستان میں کسی حیلے یا دباؤ کے ساتھ اس قسم کی کوئی ترمیم منظور بھی کرا لے لیکن ہم یہ بات واضح کر دینا چاہتے ہیں کہ حیلہ، دباؤ یا سازش کے ذریعہ قومی اسمبلی سے کوئی قانون منظور کرا لینا اور بات ہے اور عام مسلمانوں سے اسے قبول کرانا اس سے بالکل مختلف امر ہے۔ پاکستان کی حکومتیں اس سے قبل عائلی قوانین کے حوالہ سے ناکام تجربہ کر چکی ہیں اور اب اسی ناکام تجربہ کو مغرب کی حکومت کے سامنے اپنے نمبر بڑھانے کے لیے موجودہ حکومت بھی دہرانا چاہ رہی ہے لیکن اگر خدانخواستہ قانونی طور پر ایسا ہو بھی گیا تو ایسی کسی ترمیم کا حشر عائلی قوانین سے مختلف نہیں ہوگا کیونکہ پاکستان کے عام مسلمان قرآن کریم اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر بے لچک اعتقاد رکھتے ہیں اور اس سے ہٹ کر وہ کوئی بات قبول نہیں کریں گے۔