روزنامہ نوائے وقت لاہور میں ۱۰ جنوری ۲۰۰۶ء کو شائع ہونے والی ایک خبر کے مطابق ملک میں اسلامی بینکاری کے فروغ کے لیے اسلامک فنانشل سروسز انڈسٹری کے تحت دس سالہ پلان تشکیل دیا گیا ہے۔ اسلامک ریسرچ اینڈ ٹریننگ انسٹیٹیوٹ، اسلامک ڈویلپمنٹ بینک اور اسلامک فنانشل سروسز بورڈ کے مشترکہ تعاون سے منصوبے کو عملی جامہ پہنایا جائے گا، اسلامک فنانشل سروسز کو عالمی تناظر کو سامنے رکھتے ہوئے بنایا جائے گا اور اسلامی بینکاری میں اجارہ، مضاربہ، مرابحہ، مشارکہ، قرض حسنہ، صدقہ، سکوک، تکافل، زکٰوۃ کے فروغ اور اسے لاگو کرنے کے لیے پالیسیاں وضع کی جا رہی ہیں۔ پیش کردہ اندازے کے مطابق آئی ایف ایس آئی کے تحت اس پروگرام کی کامیابی کی صورت میں اسلامی بینکاری کا مالیاتی حجم ۳۶۴۱ ملین ڈالر تک پہنچ جائے گا، منصوبہ میں نئے اسلامی بینکوں کا قیام اور روایتی بینکاری کو اسلامی بینکاری کے تحت تبدیل کرنے کا مرحلہ وار پروگرام بھی شامل ہے۔
ایک دور وہ تھا جب معیشت، بینکاری اور تجارت کے حوالہ سے اسلامی تعلیمات کی بات کی جاتی تھی تو ہمارے جدید تعلیم یافتہ دوست یہ کہہ کر چہرے کا رخ دوسری طرف کر لیا کرتے تھے کہ یہ پرانے دور کی باتیں ہیں جو فرسودہ ہو چکی ہیں، آج کے دور میں ان پر عمل ممکن نہیں ہے اور ان کی بنیاد پر کوئی قابل عمل سسٹم ترتیب نہیں دیا جا سکتا۔ لیکن یہ اسلام اور اس کی تعلیمات کا اعجاز ہے کہ آج ان شعبوں میں اسلامی تعلیمات کی روشنی میں ترمیم اصلاح اور ان کی از سر نو تشکیل کے منصوبے بن رہے ہیں اور ان کے لیے اعلیٰ سطح پر پیشرفت ہو رہی ہے۔
ہمارے لیے یہ بات انتہائی خوشی کا باعث ہے لیکن اس کے ساتھ تشویش کا یہ پہلو بھی ہمارے سامنے ہے کہ ان منصوبوں اور پروگراموں کے لیے رجال کار کی فراہمی چند افراد کی استثنا کے ساتھ جدید تعلیم کے اداروں کی طرف سے ہو رہی ہے جو فن اور تکنیک کے حوالہ سے یقیناً معیشت و بینکاری کا بہترین تجربہ رکھتے ہیں لیکن ان شعبوں کے بارے میں اسلامی تعلیمات سے کماحقہ بہرہ ور نہیں ہیں۔ اس لیے ہمیں ڈر لگ رہا ہے کہ جس طرح حدود و تعزیرات اور دیگر چند شرعی قوانین سالہا سال سے نافذ ہونے کے باوجود کامیاب نہیں ہو رہے اور اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ یہ شرعی قوانین جس عدالتی نظام کے ذریعے نافذ کیے گئے ہیں وہ عدالتی نظام اسلامی اصولوں کی بجائے نوآبادیاتی فرنگی نظام کے تحت تشکیل پایا ہے، اور جن افراد اور رجال کار کے ہاتھوں ان شرعی قوانین کی عملداری کا اہتمام کیا گیا ہے ان کی غالب اکثریت خود اپنے شعبہ کے بارے میں بنیادی اسلامی تعلیمات سے بہرہ ور نہیں ہے۔ اس لیے یہ شرعی قوانین کاغذی طور پر نافذ ہونے کے باوجود مثبت نتیجہ نہیں دے رہے بلکہ اس سے ان کے آج کے دور میں ناقابل عمل ہونے کے تاثر کو تقویت حاصل ہو رہی ہے۔ اسی طرح معیشت و تجارت اور بینکاری کے شعبوں میں اسلامی تعلیمات کو موجودہ سسٹم میں فٹ کرنے اور اسلامی تعلیمات سے نابلد رجال کار کے ذریعے ان پر عملدرآمد کے اہتمام کرنے سے اسی طرح کے نتائج سامنے آنے کا خطرہ ہے۔
گزشتہ دنوں ایک مجلس میں تبلیغی جماعت سے تعلق رکھنے والے ایک بزرگ نے اس سلسلہ میں اچھی مثال دی کہ اگر کوئی شخص اس سال کی حسینہ عالم کو بھاری معاوضہ دے کر اس بات پر آمادہ کر لے کہ وہ اس کا خوبصورت ناک پلاسٹک سرجری کے ذریعے اپنے چہرے پر فٹ کرانا چاہتا ہے، حسینہ عالم اس بات پر تیار ہوجائے اور پلاسٹک سرجری کے ذریعہ وہ شخص اس کے ناک کو اپنے چہرے پر فٹ کرا لے تو اس سے نہ اس کے حسن میں اضافہ ہوگا اور نہ ہی ناک کا حسن باقی رہے گا بلکہ ناک اپنا حسن کھو بیٹھے گا اور اس شخص کا چہرہ پہلے سے زیادہ بدصورت ہوجائے گا۔ بلاشبہ یہ ناک اس سال کا سب سے خوبصورت ناک سمجھا گیا ہے لیکن اس کی تمام تر خوبصورتی اس جسم کے تناسب اور تناظر میں ہے جس کے ساتھ اسے یہ اعزاز ملا ہے، اس سے ہٹ کر اس کی خوبصورتی نہ صرف یہ کہ قائم نہیں رہے گی بلکہ بدصورتی میں تبدیل ہوجائے گی۔ اسی طرح اسلامی حدود و تعزیرات اور بلا سود بینکاری بلاشبہ دنیا کے سب سے اعلیٰ قوانین ہیں لیکن ان کی برتری اور خوبصورتی کا مدار اس پر ہے کہ وہ پورے اسلامی نظام کے ساتھ ہوں اور انہیں چلانے والے افراد اسلامی تعلیمات سے کماحقہ بہرہ ور ہوں ورنہ وہ اپنی افادیت اور خوبصورتی سے محروم ہوجائیں گے۔اس سے ہمارا مقصد ہر گز یہ نہیں کہ یہ عمل روک دیا جائے اور اس پیشرفت کو بریک لگا دی جائے، البتہ ہماری یہ خواہش ضرور ہے کہ اس عمل کے لیے ایسے رجال کار کی فراہمی کی طرف زیادہ توجہ دی جائے جو معیشت، تجارت اور بینکاری کے جدید اصولوں اور سسٹم سے کماحقہ واقفیت رکھنے کے ساتھ قرآن و سنت کی تعلیمات سے بھی گہری آگاہی اور ادراک رکھتے ہوں اور اس کے لیے سب سے زیادہ دینی مدارس کو توجہ دینا ہوگی کہ وہ اپنے ذہین، باذوق اور باصلاحیت فضلاء کو اس مقصد کے لیے تیار کریں۔
ہمارا خیال ہے کہ اگر ملک کے چالیس پچاس بڑے مدارس اس امر کا اہتمام کر لیں کہ اپنے فضلاء میں سے ہر سال دو یا تین طلبہ کو اپنے نظم کے تحت معیشت اور بینکاری کے جدید اصولوں اور سسٹم کی باقاعدہ تعلیم دلائیں اور انہیں ماسٹر ڈگری (ایم اے) تک لے جا کر اس شعبہ کے لیے تیار کریں تو معیشت کے ان شعبوں میں ہونے والی مذکورہ بالا پیشرفت کو مفید بنایا جا سکتا ہے۔ ورنہ یہ تگ و دو بھی ایسا کرنے والوں کے تمام تر خلوص کے باوجود حدود و تعزیرات کے قوانین سے مختلف نتائج حاصل نہیں کر سکے گی، خدا کرے کہ ہم اس سلسلہ میں بروقت کوئی مثبت اور مفید کردار ادا کر سکیں، آمین یا رب العالمین۔