ملک بھر کے احباب سے ایک ذاتی گزارش

   
اپریل ۲۰۰۶ء

ایک ذاتی نوعیت کے مسئلے کی طرف احباب کو توجہ دلانا چاہتا ہوں، وہ یہ کہ دینی اجتماعات اور پروگراموں میں حاضری طالب علمی کے دور سے میرا معمول رہی ہے اور ملک کا شاید ہی کوئی حصہ ایسا ہو جہاں میں نے اس سلسلے میں حاضری نہ دی ہو۔ یہ سلسلہ چالیس سال سے زیادہ عرصہ پر محیط ہے لیکن اب یہ معاملہ میری دسترس سے بتدریج نکلتا جا رہا ہے۔

اس کی سب سے بڑی وجہ تدریسی مصروفیات ہیں کہ میں مدرسہ نصرۃ العلوم میں دورۂ حدیث کے اسباق اور الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ میں فضلاء درس نظامی کی خصوصی کلاس کے اسباق کی وجہ سے کوئی ایسا سفر میرے بس میں نہیں رہا جس سے اسباق متاثر ہوتے ہوں۔میرا صبح کا وقت مدرسہ نصرۃ العلوم اور پچھلا پہر الشریعہ اکادمی میں مصروفیت کا ہوتا ہے۔ ترجمہ قرآن کریم، بخاری شریف، مسلم شریف، طحاوی شریف اور حجۃ اللہ البالغہ جیسے اسباق مطالعہ کے لیے بھی وقت مانگتے ہیں جس کی وجہ سے سفر میرے لیے انتہائی مشکل ہوگیا ہے۔

دوسری وجہ یہ ہے کہ عمر کے حوالے سے میں اب سٹھیانے کے مرحلے میں ہوں کہ ہجری اعتبار سے میرا سن ولادت ۱۳۶۷ھ ہے، ہائی بلڈ پریشر کا مریض بھی ہوں، اس لیے پہلے کی طرح اب طویل سفر اور کام دونوں ساتھ ساتھ نہیں چلا سکتا۔ مگر ملک کے مختلف حصوں سے دینی مدارس، جماعتی حلقوں، علمی مراکز اور احباب کا مسلسل تقاضا رہتا ہے کہ ان کے ہاں ضرور حاضری دوں، مجھے اس حاضری کی افادیت سے انکار نہیں بلکہ دوستوں سے ملاقات کرکے خوشی ہوتی ہے لیکن اب یہ سب کچھ سرے سے میرے بس میں نہیں رہا۔ اس لیے ملک بھر کے احباب سے معذرت کے ساتھ یہ گزارش کر رہا ہوں کہ کسی بھی اجتماع کے لیے آئندہ کوئی بھی ایسا سفر نہیں کر سکوں گا جس سے مدرسہ نصرۃ العلوم اور الشریعہ اکادمی کے اسباق متاثر ہوتے ہوں، صرف جمعرات کے دن اس حد تک گنجائش میں نے رکھی ہے کہ صبح مدرسہ کے اسباق سے فارغ ہو کر سفر کے لیے روانہ ہوں اور رات کسی وقت گھر واپس پہنچ جاؤں تاکہ صبح تھوڑا بہت آرام کرکے جمعہ پڑھا سکوں، اس کے سوا احباب کسی سفر کے لیے اصرار نہ فرمائیں، ورنہ میری بار بار معذرت ان کے ساتھ میرے لیے بھی تکلیف کا باعث ہوگی۔

   
2016ء سے
Flag Counter