جامعہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ کی شش ماہی امتحان کی تعطیلات کے دوران کچھ ایام کراچی میں گزارنے کا معمول ایک عرصہ سے چلا آرہا ہے، اس سال بھی گزشتہ ہفتہ چار پانچ روز کراچی میں رہ کر گیا ہوں جس میں میرا بڑا پوتا حافظ محمد طلال خان بھی ہمراہ تھا، اس سفر کی تفصیلات ابھی قلمبند نہیں کر سکا کہ حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی کے ارشاد پر دوبارہ کراچی حاضری ہوئی ہے۔
گزشتہ سفر میں حضرت مدظلہ کے بھانجے مولانا رشید اشرف سیفی کی وفات پر تعزیت کے لیے جامعہ دارالعلوم حاضری ہوئی تو حضرت نے فرمایا کہ اتوار کو تبلیغی جماعت کے موجودہ خلفشار کے حوالہ سے انہوں نے ایک اجلاس طلب کر رکھا ہے جس میں مجھے بھی شریک ہونا چاہیے، اس اجلاس کی دعوت اس سے قبل جامعۃ الرشید کے مولانا مفتی محمد کے ذریعہ موصول ہو چکی تھی اس لیے وعدہ کر لیا اور اجلاس میں شرکت کی سعادت حاصل ہوگئی جس کی تفصیلات قارئین نے آج کے روزنامہ اسلام میں پڑھ لی ہوگی۔ یہ اجلاس انتہائی ضرورت اور بروقت تھا جس سے نہ صرف ملک بھر کے علماء کرام اور دینی کارکنوں کو حوصلہ ملا ہے بلکہ پوری دنیا کے اہل دین کے لیے یہ خبر اطمینان کا باعث بنی ہے کہ دین کی عمومی دعوت کی اس عالمی محنت کو جو خطرات درپیش ہیں ان کی طرف اہل علم کی سنجیدہ توجہ ہے اور وہ اسے مزید آگے بڑھنے سے روکنے کے لیے فکرمند ہیں۔
مجھے اس موقع پر برطانوی اخبار ’’دی انڈی پینڈنٹ‘‘ کی وہ معروف رپورٹ یاد آرہی ہے جس پر پہلے بھی اس کالم میں اظہار خیال کر چکا ہوں کہ اہل مغرب کے نزدیک آسمانی تعلیمات کی طرف واپسی کی دعوت اور وحی الٰہی پر مبنی علوم کی تدریس و تعلیم ان کے فلسفہ و تہذیب کی بالادستی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے اور اسے وہ ’’شر‘‘ سے تعبیر کرتے ہیں۔ دی انڈی پینڈنٹ نے جنوبی ایشیا کے دینی مدارس اور عمومی دینی ماحول کو اس ’’شر‘‘ کے پھیلاؤ کا اہم ذریعہ قرار دیتے ہوئے لکھا تھا کہ اس کے دو بڑے سرچشمے ہیں۔ ایک دارالعلوم دیوبند کا دارالحدیث اور دوسرا بستی نظام الدین کا تبلیغی مرکز۔ اس وقت سے ہمیں یہ بات کھٹک گئی تھی کہ عمومی دینی دعوت کا عالمی عمل و محنت اور قرآن و حدیث کی تعلیم و تدریس کا وسیع تر نیٹ ورک اب آئندہ اسلام مخالف قوتوں کا بڑا ہدف ہوں گے۔ چنانچہ دین کی دعوت اور تعلیم کے یہ دو بڑے دائرے اس وقت عالمی، علاقائی اور قومی سطح پر مسلسل سازشوں کے حصار میں ہیں اور سب سے زیادہ محنت اس بات پر ہو رہی ہے کہ یہ دونوں دائرے اپنے موجودہ کردار اور محنت سے محروم ہو جائیں۔ ایسی محنت کبھی سامنے سے نہیں ہوا کرتی بلکہ اس کے لیے درپردہ سازشیں اور دام ہمرنگ زمین ہی سب سے مؤثر ہتھیار ہوا کرتے ہیں، اس لیے اس حوالہ سے انتہائی چوکنا رہنے کی ضرورت ہے۔
حضرت حاجی عبد الوہابؒ کی وفات کے موقع پر ہم نے عرض کیا تھا کہ بڑوں کی وفات کے بعد اس قسم کے جال پھیلانے کا موقع ایسے لوگوں کو عام طور پر مل جایا کرتا ہے اس لیے خطرہ ہے کہ تبلیغ و دعوت کے اس ہمہ گیر عمل کو کسی امتحان اور آزمائش سے دوچار کر دیا جائے۔ اس کے بعد سے مختلف ملکوں بالخصوص بھارت اور بنگلہ دیش سے جو افسوسناک خبریں آرہی ہیں وہ انتہائی پریشان کن ہیں۔ مگر یہ بات بہرحال اطمینان کی ہے کہ پاکستان کا داخلی ماحول اس کشمکش سے ظاہری طور پر محفوظ ہے۔ اس تناظر میں حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی اور حضرت مولانا مفتی عبد الرحیم نے اس اجتماع کا اہتمام کر کے پوری امت کی طرف سے فرض کفایہ ادا کیا ہے اور ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ اس عمل میں پورے خلوص اور توجہ کے ساتھ شریک ہوں اور اپنا اپنا کردار ادا کریں، بالخصوص:
- اس کشمکش میں مکمل طور پر غیر جانبدار رہنے،
- تمام متعلقہ فریقوں کے درمیان مصالحت و موافقت کی مخلصانہ کوشش،
- اور پاکستان کے داخلی ماحول کو اس کشمکش سے بچانے کا عزم
انتہائی مبارک و متوازن فیصلے ہیں۔ خدا کرے کہ ہم اس عمل کو پورے اخلاص اور محنت کے ساتھ آگے بڑھا سکیں، آمین یا رب العالمین۔