کرونا وائرس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے بحران کے آغاز میں ہم نے اپنی گزارشات میں چند باتوں کا تذکرہ کیا تھا۔
ایک یہ کہ یہ قدرتی وبا بھی ہو سکتی ہے اور جراثیمی جنگ کا حصہ بھی ہو سکتی ہے، مگر چونکہ اس کے اثرات پھیلتے جا رہے ہیں اس لیے پہلے تمام تر احتیاطی تدابیر کے ساتھ اس سے نمٹنے کی ضرورت ہے، اس کے بعد یہ بات بھی ضرور دیکھی جائے گی کہ یہ اگر سازش ہے تو کس نے کی ہے اور اس کے مقاصد کیا ہیں۔
دوسری بات یہ کہ قومی سطح پر ہماری یہ عادت سی بن گئی ہے کہ کسی بھی بحران میں یہ دیکھنے کی بجائے کہ ہمارے معاشرتی ماحول اور سماجی ضروریات کا تقاضہ کیا ہے، ہم یہ دیکھتے ہیں کہ دوسری قومیں کیا کر ہی ہیں، اور اپنے حالات اور تقاضوں کو دیکھے بغیر ان کی پیروی کر کے عموماً نقصان اٹھاتے ہیں، اس لیے اپنے معاشرتی ماحول اور کمزوریوں و خوبیوں کو دیکھ کر ہی ہمیں کوئی پالیسی طے کرنی چاہیے۔
جبکہ تیسری بات یہ عرض کی تھی کہ میڈیا اور ریاستی اداروں کے مورچوں میں کچھ لوگ گھات لگائے بیٹھے رہتے ہیں جو ایسے ہر موقع کو مذہب اور مذہبی اقدار و روایات کے خلاف استعمال کرنے کی بھرپور کوشش کرتے ہیں مگر قوم کے مزاج و نفسیات کا لحاظ نہ رکھنے کی وجہ سے ہمیشہ انہیں منہ کی کھانی پڑتی ہے۔
گزشتہ چند روز سے سپریم کورٹ آف پاکستان میں کرونا بحران کے بارے میں ریاستی اداروں اور مختلف طبقات کے طرزعمل کے بارے میں جو امور زیربحث آ رہے ہیں ان کی روشنی میں ہماری یہ گزارشات دھیرے دھیرے واضح ہوتی جا رہی ہیں اور وہ باتیں جو کچھ لوگ اس سے پہلے زیر لب کہہ کر اپنے خدشات کا اظہار کیا کرتے تھے، اب ملک کے سب سے بڑے جوڈیشری فورم کے ذریعے بلا جھجک سامنے آ رہی ہیں۔ چنانچہ اسی پس منظر میں اپنے ایک ٹویٹ میں ہم نے یہ عرض کیا ہے کہ ’’عدالت عظمٰی ہماری جن سماجی، معاشرتی، طبقاتی اور ادارہ جاتی کمزوریوں کی نشاندہی کر رہی ہے وہ ہماری قومی ضرورت ہے اور ہم سب کو اس پر عدالت عظمٰی کا شکریہ ادا کرنا چاہیے۔ قومیں بحرانوں میں ہی بنتی بگڑتی ہیں، اللہ تعالٰی ہمیں اصلاح کی راہ پر گامزن فرما دیں، آمین یا رب العالمین۔‘‘
جہاں تک دین اور دینی اقدار و روایات کو نشانہ بنانے کی بات ہے اس سلسلہ میں یہ بات قدرے تفصیل کے ساتھ عرض کرنے کی ضرورت محسوس ہو رہی ہے کہ اس معاملہ میں بلاجواز یہ سمجھ لیا گیا ہے کہ چونکہ مغربی اقوام نے معاشرتی حوالوں سے اپنے مذہب اور مذہبی روایات سے لاتعلقی عملاً اختیار کر لی ہے اس لیے ہمیں بھی وہی کچھ کر گزرنا چاہیے۔ چنانچہ مغرب پرست لوگ کسی بھی حوالہ سے یہ سب کچھ کر گزرنے کے لیے ہر وقت تیار بیٹھے ہوتے ہیں جیسا کہ کرونا بحران میں بھی سامنے آیا ہے کہ عبادت اور مذہبی اجتماعات و روایات کو پبلک مقامات سے لاتعلق کر کے گھروں کے اندر محدود کر دینے کی ہر ممکن کوشش کی گئی ہے۔ جس میں تمام مکاتب فکر کی قیادتوں کے باہمی اتفاق بالخصوص ایوان صدر کے مثبت کردار کے باعث سیکولر عناصر کو بحمد اللہ تعالٰی ناکامی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ مگر چونکہ ان عناصر کا پینترے بدل بدل کر وار کرتے چلے جانے کا مزاج پختہ ہو چکا ہے اس لیے یہ توقع کرنا عبث سا لگنے لگا ہے کہ یہ لوگ اپنے ہی معاشرہ اور قوم کے اجتماعی دینی مزاج اور ماحول کے خلاف منفی حرکتیں کرنے سے باز آ جائیں گے۔
البتہ ان کا یہ مغالطہ ایک بار پھر دور کرنے کو جی چاہتا ہے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان، جنوبی ایشیا، بلکہ کسی بھی مسلم معاشرہ میں ایسا کرنا شاید مغربی معاشروں کی طرح ممکن ہے۔ مغربی اقوام نے اگر اپنے مذہب کو کارنر کر لیا ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کا مذہب محفوظ حالت میں موجود نہیں رہا تھا اور مذہبی قیادت اپنے روایتی کردار سے خود دستبردار ہو گئی تھی، مگر مسلم معاشرہ بالخصوص جنوبی ایشیا میں اس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ اسلام زندہ مذہب ہے، قرآن کریم اور سنت و حدیث کی تعلیمات محفوظ و مستند صورت میں مسلمانوں کے پاس نہ صرف موجود ہیں بلکہ ان کی عمومی سطح پر تعلیم ہوتی ہے، اور دنیا بھر کے مسلمان آج بھی اپنے معاشرتی و خاندانی معاملات میں مذہبی احکام پر عمل کو ہی ترجیح دیتے ہیں۔
مذہب انسان کی فطرت کا حصہ اور اس کی بنیادی ضرورت ہے، وہ اگر کسی جگہ اصل حالت میں میسر نہ آئے تو بات الگ ہے، لیکن اگر وحی اور صاحب وحیؐ کی تعلیمات اصل حالت میں موجود و میسر ہیں اور ان پر عمل کا ماحول بھی پایا جاتا ہے تو یہ تصور کرنا ہی خام خیالی ہے کہ سلیم الفطرت انسانوں کو مذہب سے دستبرداری کے لیے کسی طرح تیار کیا جا سکتا ہے۔ اس لیے قومی اور بین الاقوامی سطح کے سیکولر عناصر کو یہ بات بہرحال اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ انسانی معاشرہ کو اس کی فطری ضروریات سے محروم نہیں کیا جا سکتا۔
اسی طرح ہمارے ان مہربانوں نے غلط طور پر یہ باور کر رکھا ہے کہ مسجد اور مدرسہ مذہب کے پھیلاؤ کا ذریعہ ہیں، اس لیے مسجد اور مدرسہ کے کردار کو محدود یا کنٹرول کر کے مذہب کو محدود کیا جا سکتا ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ مذہب مسجد و مدرسہ کی وجہ سے نہیں بلکہ مسجد و مدرسہ مذہب کی وجہ سے ہیں۔ کیونکہ اگر قرآن کریم موجود ہے، جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات موجود ہیں، اور مسلمانوں کے شاندار ماضی کی علمی اور تہذیبی روایات تاریخ کے قابل فخر حصہ کے طور پر موجود رہیں گی، تو ان کے اظہار کے لیے مسجد و مدرسہ بھی موجود رہے گا۔ انہیں اپنے کردار سے محروم کرنے کی کوشش میں گزشتہ تین سو برس کے دوران برطانوی، روسی، امریکی اور دیگر استعماری طاقتوں کو کامیابی نہیں ہوئی تو اب کسی نئے استعمار کو بھی اس میں اپنا اور نسل انسانی کا وقت ضائع کرنے سے گریز کرنا چاہیے کہ بار بار کے ناکام تجربہ کو دہراتے چلے جانا بھی کوئی دانشمندی کی بات نہیں ہوتی۔