سیرۃ النبی ﷺ کے موضوع پر ایک نشست سے خطاب کا کچھ حصہ قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے۔
جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ویلفیئر اسٹیٹ کا صرف تصور نہیں دیا اور اس کی تعلیمات نہیں بیان کیں بلکہ جب آپؐ تئیس سال کی محنت کے بعد اس دنیا سے تشریف لے گئے تو ایک فلاحی ریاست قائم ہو چکی تھی جسے آج کی دنیا بھی فلاحی ریاست مانتی ہے۔ بخاری شریف کی ایک روایت کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول تھا کہ جب کسی مسلمان کی وفات ہوتی اور آپؐ سے تقاضا ہوتا کہ اس کا جنازہ پڑھائیں تو آپؐ اس میت کے متعلق کچھ سوالات پوچھتے تھے۔ ایک سوال یہ ہوتا تھا کہ اس کے ذمہ کوئی قرضہ تو نہیں؟ اگر جواب نہ میں ہوتا تو جنازہ پڑھا دیتے۔ اگر مقروض ہوتا تو صحابہؓ سے پوچھتے کہ قرض کی ادائیگی کا کوئی بندوبست ہے؟ اگر ہوتا تو آپ جنازہ پڑھا دیتے، اگر ایسی کوئی صورت نہ ہوتی تو خود جنازہ نہیں پڑھتے تھے، صحابہؓ سے فرماتے کہ وہ نماز جنازہ پڑھ لیں۔ ایک صحابی کی وفات پر یہی واقعہ ہوا تو پتہ چلا کہ میت مقروض ہے اور قرضہ اتارنے کی کوئی صورت نہیں ہے۔ صحابہؓ سے فرمایا کہ اس کی نماز جنازہ پڑھ لو۔ ایک صحابی ابو قتادہؓ نے عرض کیا، یا رسول اللہ! ہمارا مسلمان بھائی ہے، اسے آپ اس سعادت سے محروم نہ کیجئے، آپ جنازہ پڑھائیں، قرضہ میں ادا کر دوں گا۔ حضورؐ نے جنازہ پڑھایا اور اس کے بعد ایک اعلان فرمایا جو اسلامی فلاحی ریاست کی بنیاد ہے:
’’ما من مومن الا وانا اولی الناس بہ فی الدنیا والآخرۃ، اقرءوا ان شئتم (النبی اولٰی بالمومنین من انفسھم)، فایما مومن ترک مالا فلیرنہ عصبتہ من کانوا، فان ترک دینا او ضیاعاً فلیاتنی فانا مولاء‘‘
اس موقع پر فرمایا کہ اگر کوئی مسلمان قرضہ یا بے سہارا خاندان چھوڑ کر فوت ہوا ہے ’’فالی وعلی‘‘ وہ میرے پاس آئے گا، وہ میری ذمہ داری ہے۔ تاریخ کے ایک طالب علم کے طور پر میری رائے ہے کہ ’’الی‘‘ کی بات تو اس سے قبل بہت لوگوں نے کی ہے کہ کوئی ضرورتمند ہو تو میرے پاس آئے لیکن ’’علیّ‘‘ کہ اس کی ذمہ داری مجھ پر ہے، یہ بات تاریخ میں سب سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہی ہے۔ نبی اکرمؐ نے یہ پالیسی دی کہ ریاست کے نادار، معذور، غریب اور ضرورتمند لوگ ریاست کی ذمہ داری میں ہیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس کا ماحول یہ ہوتا تھا کہ جب کوئی شخص آتا اور کسی ضرورت کا تقاضا کرتا تو آپؐ ارشاد فرماتے، بھئی! اس کو بیت المال میں سے دے دو، یا کسی سے سفارش کر کے اس کی ضرورت پوری کر دیتے۔ حضورؐ نے ایسا ماحول بنا لیا تھا کہ جو بھی ضرورت مند آتا اس کی ضرورت پوری ہو جاتی تھی۔ اس حوالے سے دو واقعات کی طرف توجہ دلا رہا ہوں۔
نبی کریمؐ کے پاس ایک صحابیؓ تشریف لائے اور عرض کی، یا رسول اللہ! میرا اونٹ راستہ میں مر گیا ہے، گھر سے دور ہوں، مجھے سواری عنایت فرمائیں تاکہ میں گھر جا سکوں۔ آپؐ نے فرمایا، بیٹھو، تمہیں اونٹنی کا بچہ دیتا ہوں۔ وہ حیران ہوا کہ مجھے سواری چاہیے، اونٹنی کا بچہ میرے کس کام کا؟ دوبارہ عرض کی، یا رسول اللہ! مجھے سواری چاہیے، میں نے گھر جانا ہے۔ فرمایا، بھئی کہا تو ہے کہ تمہیں اونٹنی کا بچہ دیتا ہوں۔ وہ پھر پریشان ہوئے اور عرض کی۔ آپ نے پھر فرمایا، بھئی اونٹنی کا بچہ دیتا ہوں اور پھر ایک اونٹ منگوا کر ان کے حوالے کیا اور فرمایا کہ یہ بھی کسی اونٹنی کا بچہ ہی ہے۔ میں کہا کرتا ہوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خوش مزاج بزرگ تھے اور کبھی کبھی اس قسم کی دل لگی فرما لیا کرتے تھے۔
حضرت ابو موسٰی اشعریؓ فرماتے ہیں کہ ایک موقع پر ہم کچھ لوگوں نے سفر پر جانا تھا اور ہمیں اونٹوں کی ضرورت تھی۔ کہتے ہیں کہ ہمیں کسی قسم کی پریشانی نہیں تھی کیونکہ ہمیں معلوم تھا کہ رسول اللہ کی بارگاہ میں جائیں گے تو مایوس نہیں لوٹیں گے۔ یہ حضورؐ کے پاس پہنچے اور عرض کی یا رسول اللہ! سواری کے لیے اونٹ چاہئیں۔ آپؐ نے انکار فرما دیا بلکہ قسم اٹھا لی کہ نہیں دوں گا۔ ابو موسٰی اشعریؓ کہتے ہیں کہ مجھ سے غلطی ہوئی کہ میں نے جاتے ہی مجلس کے ماحول کا لحاظ کیے بغیر اپنی ضرورت پیش کر دی۔ رسول اللہ کسی وجہ سے غصے میں تھے اس لیے انکار فرما دیا۔ یہ واپس آ گئے اور خاندان والوں کو بتایا کہ حضورؐ نے انکار فرما دیا ہے۔ اسی اثنا میں ایک آدمی آیا اور ابو موسٰی اشعریؓ سے کہا کہ آپ کو رسول اللہ یاد فرما رہے ہیں۔ یہ پہنچے تو دیکھا کہ رسول اللہ کے سامنے اونٹوں کی دو جوڑیاں کھڑی تھیں۔ آپؐ نے فرمایا یہ لے جاؤ۔ کہتے ہیں میں نے اونٹ پکڑے اور چل پڑا۔ راستے میں خیال آیا کہ آپؐ نے تو نہ دینے کی قسم اٹھا لی تھی، اب اس حالت میں اگر میں نے اونٹ لے لیے تو اس میں کیا برکت ہو گی۔ میں واپس گیا اور آپؐ سے عرض کیا کہ یارسول اللہ! آپ کے پاس تو اونٹ نہیں تھے اور آپ نے مجھے اونٹ نہ دینے کی قسم اٹھا لی تھی۔ فرمایا کہ اس وقت میرے پاس اونٹ نہیں تھے، یہ قیس بن اسعدؓ کے باڑے سے ادھارے منگوائے ہیں۔ انہوں نے پھر سوال کیا کہ آپ نے تو قسم اٹھا لی تھی۔ فرمایا کہ مجھے قسم یاد ہے لیکن میرا معمول ہے کہ اگر کوئی قسم اٹھا لوں اور مجھے خیال ہو کہ جس کام کے نہ کرنے کی قسم اٹھائی ہے وہ خیر کا کام ہے تو میں قسم کو خیر کے کام میں رکاوٹ کا ذریعہ نہیں بننے دیتا اور کفارہ ادا کر دیتا ہوں۔
یہ ماحول رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں ہی بن گیا تھا کہ ضرورت مند آپؐ کے پاس آتے تھے اور ان کی ضرورت پوری ہوتی تھی۔ اسی ماحول کو بعد میں حضرت صدیق اکبرؓ اور حضرت عمر فاروقؓ نے منظم کر کے ’’رفاہی ریاست‘‘ کی شکل دی جو آج بھی ویلفیئر اسٹیٹ کا ماڈل سمجھا جاتا ہے۔