بھارتی مسلمان مسلسل آزمائش میں

   
فروری ۱۹۹۸ء

روزنامہ جنگ لاہور ۱۲ جنوری ۱۹۹۸ء کی ایک خبر کےمطابق جمعیۃ علماء ہند کے سربراہ مولانا اسعد مدنی نے اعلان کیا ہے کہ مسلم پرسنل لاء میں کسی بھی قیمت پر مداخلت برداشت نہیں کی جائے گی، کیونکہ مسلمانوں کے پرسنل قانون میں مداخلت دراصل مذہبِ اسلام میں مداخلت ہے۔ خبر کے مطابق انہوں نے بھارتیہ جنتا پارٹی کے صدر ایل کے ایڈوانی کے اس بیان پر تبصرہ کرتے ہوئے یہ بات کہی ہے کہ

’’بھارتیہ جنتا پارٹی برسرِ اقتدار آ گئی تو دوسرے قوانین کے ساتھ ساتھ ملکی آئین کے اندر رہتے ہوئے مسلم پرسنل لاء میں بھی تبدیلی کر دے گی۔ ‘‘

دوسری طرف مالیر کوٹلہ (بھارت) سے مولانا مفتی فضیل الرحمان ہلال عثمانی کی ادارت شائع ہونے والے ماہنامہ ’’دارالسلام‘‘ نے نومبر ۱۹۹۷ء کی اشاعت میں ایڈوانی صاحب مذکور کا مسلمانوں کو یہ مشورہ نقل کیا ہے کہ

’’اب آزادی کے پچاسویں برس وقت آ گیا ہے کہ مسلمان بغیر لاگ لپیٹ کے اعلان کر دیں کہ وہ ہندوؤں کو کافر نہیں سمجھتے۔‘‘

نیز

’’مسلمان رام، جین، بدھ جیسی شخصیات کو اس ملک کی تہذیبی علامت کے طور پر قبول کر لیں۔‘‘

ان بیانات سے بخوبی اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ بھارت کے مسلمان اس وقت کس کڑی آزمائش سے گزر رہے ہیں اور انہیں اپنے مذہبی تشخص اور خاندانی قوانین و اقدار کے تحفظ کے لیے کن صبر آزما مراحل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ کچھ عرصہ قبل جب بابری مسجد شہید کی گئی تو لندن میں ایک بھارتی مسلمان دانشور سے بھارتی مسلمانوں کی مشکلات کے بارے میں گفتگو ہوئی، ان کا کہنا تھا کہ اب ہمارا تحفظ اور تشخص اسی میں ہے کہ پاکستان مستحکم ہو اور صحیح معنوں میں ایک اسلامی ریاست بنے۔ مگر سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیا ہم اب پاکستان کو ایک مستحکم اور صحیح معنوں میں اسلامی ریاست بنانے کے قابل رہ گئے ہیں؟

   
2016ء سے
Flag Counter