روزنامہ جنگ لندن ۲۲ اگست ۱۹۹۶ء کی ایک خبر ملاحظہ فرمائیے:
’’لندن (سٹاف رپورٹر) مانچسٹر پولیس نے برمنگھم کی ایک اٹھارہ سالہ پاکستانی بچی کو، جسے مبینہ طور پر اس کے والدین اس کی مرضی کے خلاف شادی کے لیے پاکستان لے جا رہے تھے، سوشل سروسز کے حوالے کر دیا ہے۔ ۱۸ سالہ شازیہ شاہین کا خیال تھا کہ وہ اپنے والدین کے ہمراہ تعطیلات کے لیے پاکستان جا رہی ہے لیکن اسے اس وقت شبہ ہوا جب چیک اِن کراتے وقت اس نے دیکھا کہ اس کا ٹکٹ یکطرفہ اور والدین کا ٹکٹ واپسی کا تھا۔ یہ سوچتے ہوئے کہ والدین اسے شادی کے لیے اسلام آباد لے جا رہے ہیں وہ چیختے ہوئے ایئرپورٹ سے بھاگ نکلی، اس کی چیخیں سن کر پولیس حرکت میں آ گئی۔ والدین کے احتجاج کے باوجود پولیس نے شازیہ کو ان کے ساتھ نہیں بھیجا۔ والدین پی آئی اے کی پرواز سے اسلام آباد چلے گئے لیکن شازیہ شاہین کو سوشل سروسز کی تحویل میں دے دیا گیا۔ تین ماہ قبل ایک پاکستانی لڑکی ناہیدہ بیگم نے بھی ایئرپورٹ پر پولیس کو اس وقت الرٹ کر دیا جب اس کے مطابق والدین اسے شادی کے لیے جبری پاکستان لے جا رہے تھے۔ پولیس نے طیارہ میں سوار ہونے سے چند منٹ قبل ناہیدہ بیگم کو والدین سے الگ کر لیا۔‘‘
یہ مسئلہ یہاں برطانیہ میں ہر اس خاندان کو درپیش ہے جو مسلمان ہے اور بچیوں کی شادی کے سلسلہ میں اپنی مذہبی اور خاندانی روایات کو قائم رکھنا چاہتا ہے۔ برطانیہ کے قانون کے مطابق ۱۸ سال کی بچی اگر ماں باپ کے ساتھ نہیں رہنا چاہتی تو حکومت اسے الگ مکان اور وظیفہ مہیا کرتی ہے، اور والدین کے لیے یہ ممکن نہیں ہے کہ وہ اس کی شادی اس کی مرضی کے خلاف کر سکیں۔ جبکہ سکول و کالج میں مخلوط تعلیم کے باعث لڑکوں اور لڑکیوں میں ہر قسم کا حجاب ختم ہو چکا ہوتا ہے، اور مخلوط سوسائٹی اور میڈیا کے اثرات کے باعث نوجوان لڑکیوں کے لیے یہ بات بھی کوئی اہمیت نہیں رکھتی کہ وہ جن نوجوانوں سے شادی کرنا چاہتی ہیں وہ ان کے ہم مذہب ہیں یا نہیں؟ یا ان کے والدین کے لیے قابلِ قبول ہیں یا نہیں؟ بعض ماں باپ اس کا یہ حل نکالتے ہیں کہ کسی بہانے لڑی کو اپنے سابقہ وطن لے جائیں اور وہاں جا کر اس کی شادی کر دیں۔ لیکن لڑکی کو بروقت پتہ چل جائے تو یہ حربہ بھی کامیاب ثابت نہیں ہوتا۔
یہ مغرب میں مقیم مسلمانوں کا ایک سنگین معاشرتی مسئلہ ہے جس کی تباہ کاریاں دن بدن بڑھتی جا رہی ہیں۔ سوائے ان خاندانوں کے کہ جو جہالت اور جبر کے ذریعہ معاملات کو دبانے کی بجائے دینی تعلیم اور محبت اور اعتماد کے ساتھ اپنی اولاد کی تربیت کی طرف بروقت توجہ دیتے ہیں۔