مجلس علماء اسلام پاکستان کی سپریم کونسل کا اجلاس ۱۷ فروری کو اسلام آباد میں ہونے والا تھا مگر لاہور میں اسی روز تحفظ ناموس رسالتؐ کے مسئلہ پر جماعت اسلامی نے اے پی سی طلب کر لی جس کی وجہ سے یہ اجلاس ۱۸ کو لاہور میں منعقد ہو سکا۔ اس اجلاس کے لیے رابطہ کمیٹی کے سربراہ مولانا حافظ سید عطاء المومن شاہ بخاری نے حسب معمول ملک بھر میں سپریم کونسل کے ارکان سے رابطے کیے حتیٰ کہ معذوری کے باوجود کراچی کا سفر کیا اور بہت سے بزرگوں کے ساتھ ملاقاتیں کر کے انہیں اجلاس میں شرکت کی دعوت دی۔ جمعیۃ علماء اسلام (س) پاکستان اس اجلاس کی میزبان تھی اس لیے مولانا سمیع الحق اور مولانا عبد الرؤف فاروقی نے بھی انتظامات کے ساتھ ساتھ رابطوں میں حصہ ڈالا۔ اور جنوبی لاہور میں ہمارے پرانے دوست جناب ظہیر الدین بابر کے قائم کردہ مدرسہ جامعہ القدسیہ میں مولانا سمیع الحق کی زیر صدارت یہ اجلاس منعقد ہوا۔ پاکستان شریعت کونسل کے امیر مولانا فداء الرحمن درخواستی اور مولانا قاری جمیل الرحمن اختر کے ہمراہ راقم الحروف نے بھی اجلاس میں شرکت کی۔ اجلاس ملکی حالات کے جس تناظر میں انعقاد پذیر ہوا اس کے پیش نظر ملک بھر کے دینی حلقوں کی نگاہیں اس کے فیصلوں کی طرف لگی ہوئی تھیں۔ مگر جس سطح پر اجلاس میں نمائندگی اور حاضری کی توقع کی جا رہی تھی وہ بھرپور نہ ہونے کے باعث اصل بات اگلے کسی اجلاس پر جا پڑی۔ البتہ بہت سے سینئر راہ نماؤں اور دینی جماعتوں کے ذمہ دار حضرات نے اجلاس کو رونق بخشی اور ملکی حالات پر گہری تشویش کا اظہار کرنے کے ساتھ اور مفید و مؤثر تجاویز کے ذریعہ قوم کی راہ نمائی فرمائی۔
دینی مدارس اور مساجد کے حوالہ سے آپریشن کے عنوان پر ہونے والی کاروائیاں بطور خاص زیر بحث رہیں اور مختلف حضرات نے اپنے اپنے علاقوں کی صورت حال پیش کی۔ فورتھ شیڈول کے وسیع تر دائرہ میں کی جانے والی گرفتاریاں اور پابندیاں موضوع بحث بنیں اور اس احساس کا اظہار ہوا کہ یہ سب کچھ دینی حلقوں کو خوف و ہراس کی فضا میں رکھنے اور مدارس و مساجد پر دباؤ بڑھانے کے لیے کیا جا رہا ہے اور اس کی روک تھام کے لیے تمام دینی حلقوں کو مشترکہ کردار ادا کرنا ہوگا، جبکہ فرقہ وارانہ اشتعال کے حوالے سے مختلف کتابوں کی اشاعت پر پابندی اور کتب خانوں پر پولیس چھاپوں پر بھی گفتگو ہوئی۔ مجلس علماء اسلام کے اجلاس میں مولانا حافظ سید عطاء المومن شاہ بخاری کی خصوصی دعوت پر جمعیۃ علماء پاکستان کے سیکرٹری جنرل اور مولانا شاہ احمد نورانیؒ کے فرزند مولانا شاہ اویس نورانی اور تنظیم اسلامی پاکستان کے امیر جناب حافظ عاکف سعید بھی شریک ہوئے۔ مولانا شاہ اویس نورانی نے پرمغز اور مؤثر گفتگو کی، انہوں نے اکیسویں آئینی ترمیم کے بعد سامنے آنے والی کاروائیوں کے بارے میں کہا کہ یہ پاکستان کو سیکولر ریاست بنانے کی طرف پہلا قدم ہے اور مساجد و مدارس کو ہدف بنا کر ملک کی دینی قوتوں کو کارنر کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ کسی مسلک اور مکتب فکر کا نہیں بلکہ اسلام اور پاکستان کا اجتماعی مسئلہ ہے، مغربی ثقافت کی یلغار سے اسلامی روایات کو محفوظ رکھنے کا مسئلہ ہے اور پاکستان کی نظریاتی شناخت اور اسلامی اساس کی بقا کا مسئلہ ہے۔ اس لیے اسے کسی مسلک کے دائرے میں محدود رکھنے کی بجائے دین و قوم کے وسیع تر تناظر میں دیکھا جائے۔ انہوں نے کہا کہ میں یہ بات بطور خاص کہنا چاہتا ہوں کہ یہ صرف دیوبندیوں کی جنگ نہیں بلکہ ہم سب کی جنگ ہے اور ہم سب نے ملک کر اسلامی روایات اور ملکی نظریاتی تشخص کو بچانے کی جدوجہد کرنی ہے۔ مولانا شاہ اویس نورانی نے کہا کہ اس نازک اور سنگین صورت حال کا سامنا چار دیواری کے اندر بیٹھ کر قراردادیں منظور کر کے اور اخباری بیانات کے ذریعہ نہیں کیا جا سکتا۔ ان باتوں کا وقت گزر چکا ہے، اب سامنا کرنے کا وقت ہے اور کھلے میدان میں جدوجہد وقت کی اہم ضرورت بن چکی ہے جس کے لیے سب کو سنجیدگی کے ساتھ تیاری کرنی چاہیے۔
مولانا شاہ اویس نورانی جب یہ گفتگو کر رہے تو میرے اندر سے مسلسل یہ صدا آرہی تھی کہ ’’میں نے یوں جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے‘‘۔ جبکہ بعد میں انہیں باہمی گفتگو کے دوران میں نے یہ کہا کہ آپ کی گفتگو میں مجھے مولانا نورانیؒ کی جھلک دکھائی دے رہی تھی۔ یہ بات میں بھی ایک عرصہ سے کہتا آرہا ہوں کہ ملک میں نفاذ شریعت کی بات ہو یا سیکولر قوتوں کی ہمہ جہت یلغار کے مقابلہ کا مسئلہ ہو، نہ صرف پارلیمانی اور انتخابی سیاست کے ذریعہ اس جدوجہد میں کوئی پیشرفت ہو سکتی ہے اور نہ ہی ہتھیار اٹھانا اس مسئلہ کا حل ہے۔ ہماری اصل ضرورت اور ہماری جدوجہد کا اصل میدان پر امن اور عدم تشدد پر مبنی عوامی جدوجہد ہے، اور دستور و قانون کے دائرہ میں پر جوش احتجاجی سیاست ہے۔ اس کے بغیر نہ ہم کوئی پیشرفت کر سکتے ہیں اور نہ ہی موجودہ صورت حال کو مزید خراب ہونے سے بچا سکتے ہیں۔ محترم ڈاکٹر اسرار احمدؒ اور ان کے جانشین حافظ عاکف سعید نے بھی ہمیشہ اسی نقطہ نظر کا اظہار کیا ہے اور اب مولانا شاہ اویس نورانی سے یہی باتیں سن کر میں نے تو بہرحال اپنے حوصلے اور امید میں اضافہ کی کیفیت محسوس کی ہے۔
مجلس علماء اسلام پاکستان ملک بھر کے دینی حلقوں اور کارکنوں کی امید بن چکی ہے اور اس کا متحرک ہونا اور عملی جدوجہد کے میدان میں آنا وقت کا اہم تقاضہ ہے۔ مگر اس کے لیے اکابرین کی سطح پر سنجیدگی کا ماحول ایک ناگزیر ضرورت ہے اور دینی جماعتوں کی قیادتوں کو اپنی ترجیحات کا از سر نو جائزہ لے کر اپنے قیمتی اوقات اور صلاحیتوں کو منظم طریقہ سے استعمال کرنا ہوگا، ورنہ یہ بات سب کو ذہن میں رکھنی چاہیے کہ اجتماعی اور قومی ضروریات کبھی زیادہ دیر تعطل کا شکار نہیں رہتیں وہ اپنی پیشرفت کا راستہ بہرحال نکال لیا کرتی ہیں، لیکن پھر ان کی ترجیحات، رفتار اور ترتیب اپنی ہوتی ہے۔ البتہ وقت کے تقاضوں کو بروقت محسوس نہ کرنے والوں کے پاس ہاتھ ملتے رہ جانے کے سوا کچھ بھی باقی نہیں بچتا۔