مشرقی معاشرہ میں مغربی نظام

   
اپریل ۱۹۹۸ء

روزنامہ جنگ لاہور ۱۸ مارچ ۱۹۹۸ء کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان کے سابق چیف جسٹس جناب جسٹس سجاد علی شاہ نے لاہور میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ

’’پاکستان کی بے شمار داخلی مشکلات کے اسباب میں سے ایک انتہائی اہم سبب یہ بھی ہے کہ پاکستان کا موجودہ انتخابی نظام بوجوہ تعلیم یافتہ اور متوسط طبقے کے افراد کو منتخب اداروں میں نہیں آنے دیتا۔ اس ضمن میں انہوں نے انتخابی نظام میں دولت کی غیر معمولی کارفرمائی کا تذکرہ کیا اور کہا کہ اس کی وجہ سے محدود وسائل رکھنے والے لیکن باصلاحیت لوگ اسمبلیوں میں نہیں آ سکتے، اور صرف وہی طبقات ان پر قابض ہو جاتے ہیں جو پہلے ہی مراعات یافتہ ہیں اور جو عوام کے لیے ماضی میں کچھ نہیں کر سکے۔‘‘

مروجہ انتخابی نظام کے بارے میں یہ شکایت نئی نہیں بلکہ ایک عرصہ سے اصحابِ فکر و دانش اس پر اظہار خیال کرتے آ رہے ہیں، لیکن اس کا کوئی عملی حل سامنے نہیں آرہا۔ ہمارے نزدیک اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہمارے مروجہ انتخابی سسٹم کی بنیاد مغرب کے جمہوری فلسفہ پر رکھی گئی ہے جس میں صرف ’’نمائندگی‘‘ کو پورے نظام کی واحد بنیاد تصور کیا جاتا ہے۔ اور مغرب میں چونکہ عوام کی خواندگی کی شرح معقول حد تک موجود ہے، اور لادینی نظام ان کے لادینی مزاج سے ہم آہنگ ہے، اس لیے انہیں اس سسٹم سے اپنی ضروریات کے مطابق قیادت و حکومت میسر آجاتی ہے۔ مگر ہمارے ہاں صورتحال مختلف ہے، شرح خواندگی افسوسناک حد تک کم ہونے کے علاوہ دینی اور معاشرتی دونوں لحاظ سے پاکستان کے عوام کا مزاج لادینیت کے ساتھ کسی صورت میں بھی ہم آہنگ نہیں ہو سکتا، اس لیے یہاں یہ سسٹم ناکام ہے اور ناکام ہی رہے گا۔

اسلامی نقطۂ نظر سے محض ’’نمائندگی‘‘ حکومت و قیادت کے لیے کوئی معقول بنیاد نہیں ہے۔ کیونکہ اسلام اگرچہ حکومت و قیادت کے لیے عوام کے اعتماد کو ضروری قرار دیتا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ ’’اہلیت و صلاحیت‘‘ اور ’’تقویٰ و دیانت‘‘ کی دو لازمی شرائط کا بھی اضافہ کرتا ہے۔ اور اسلامی احکام کی رو سے ان ان تینوں اجزا کے اشتراک سے وجود میں آنے والی قیادت و حکومت ہی صحیح قرار پا سکتی ہے۔

اس لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ مروجہ انتخابی سسٹم کے فلسفے اور بنیادی ڈھانچے پر نظرثانی کی جائے، اور مغرب کی نقالی کی بجائے اسلامی اصول و قوانین کی بنیاد پر اسے ازسرنو مرتب کیا جائے۔ ورنہ مروجہ انتخابی سسٹم ہمیں مسلسل تجربات کے باوجود اسی قسم کی حکومتیں فراہم کرتا رہے گا جو گزشتہ پچاس برس سے ہم پر مسلط چلی آ رہی ہیں، اور جو قوم کی مشکلات اور پریشانیوں میں اضافے کے سوا ابھی تک اور کوئی کردار ادا نہیں کر سکیں۔

   
2016ء سے
Flag Counter