روزنامہ خبریں ۱۱ اکتوبر ۱۹۹۸ء میں شائع شدہ ایک رپورٹ کے مطابق برطانوی وزیر خارجہ مسٹر رابن کک نے ایک بیان میں کہا ہے کہ
’’اسلام اور مغرب میں غلط فہمیاں دور کرنے کے لیے یورپی یونین اور اسلامک آرگنائزیشن کے درمیان بہت جلد مذاکرات ہوں گے، ہم میں بہت سی غلط فہمیاں اور دوریاں ہیں اور ہم مزید انہیں بڑھنے نہیں دیں گے۔ انہوں نے کہا کہ جنوبی کنگسٹن کے اسلامک سنٹر میں اسلام اور مغرب کے اشتراک پر میری تقریر اس بات کا ثبوت ہے۔ رابن کک نے کہا کہ یہی وقت ہے کہ یورپی یونین اور او آئی سی مشرقِ وسطیٰ امن، افغانستان، دہشت گردی، انسانی حقوق اور اقلیتوں کے حقوق کے لیے اعلیٰ سطح پر مذاکرات کریں۔‘‘
برطانوی وزیر خارجہ نے اسلام اور مغرب کے درمیان جن غلط فہمیوں اور دوریوں کا ذکر کیا ہے، ان کے بارے میں بہت سے دیگر مغربی دانشور بھی ایک عرصہ سے اظہارِ خیال کر رہے ہیں۔ حتیٰ کہ پاکستان میں امریکہ کے نئے سفیر مسٹر میلام نے بھی پاکستانی دانشوروں سے ایک حالیہ بیان میں اپیل کی ہے کہ وہ امریکہ اور پاکستان کے درمیان پائی جانے والی غلط فہمیاں دور کرنے میں تعاون کریں۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ مغربی دانشور مسلمانوں اور اہلِ مغرب کے درمیان غلط فہمیوں کے حوالے سے جن مسائل کا ذکر کر رہے ہیں ان میں سے بیشتر خود ان کے اپنے پیدا کردہ ہیں۔ اور ان سب مسائل کا سرچشمہ مغرب کا وہ طرز عمل ہے جو اس نے اسلام اور اہلِ اسلام کے خلاف صدیوں سے اپنا رکھا ہے۔ اور اسی کے نتیجے میں اہلِ اسلام اور اہلِ مغرب کے درمیان منافرت اور کشیدگی بڑھتی جا رہی ہے۔
ہمارے نزدیک اصل مسئلہ یہ ہے کہ مغرب نے خود تو آسمانی تعلیمات سے بغاوت کر کے مادر پدر آزادی کے نعرہ کے ساتھ معاشرتی انارکی اور ذہنی خلفشار کی دلدل میں چھلانگ لگائی تھی، مگر وہ اہلِ اسلام کو بھی اسی دلدل کی طرف کھینچنے کے لیے اپنا پورا زور صرف کر رہا ہے، اور اس کشمکش نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ اس لیے اگر مغربی دانشور اس حوالے سے مسلمان دانشوروں سے گفتگو کے خواہشمند ہیں تو اس کی افادیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا، البتہ یہ بات ضرور پیش نظر رہنی چاہیے کہ مسلم ممالک کی موجودہ حکومتیں اسلام اور اسلامی قوتوں کی نمائندگی نہیں کرتیں، اس لیے اس مسئلہ پر ان سے بات چیت کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔ اور جن مسائل کا مسٹر رابن کک نے ذکر کیا ہے، وہ نتائج ہیں۔ جبکہ اصل ضرورت ان کے اسباب پر بحث و تمحیص کی ہے، کیونکہ اسباب و عوامل کا حقیقت پسندانہ تجزیہ کیے بغیر نتائج پر مذاکرات کسی طرح بھی ثمر آور نہیں ہوں گے۔