ہفت روزہ ضربِ مومن کراچی نے ۳۰ اپریل ۱۹۹۹ء کی اشاعت میں ایمنسٹی انٹرنیشنل کے حوالے سے رپورٹ شائع کی ہے کہ چین کی سرحد پر مسلم اکثریت کے صوبہ سنکیانگ میں گزشتہ ایک سال کے دوران ۱۹۰ افراد کو پھانسی دی گئی ہے۔ اگرچہ چین کی وزارتِ خارجہ نے ایمنسٹی کی اس رپورٹ کو گمراہ کن قرار دیتے ہوئے مسترد کیا ہے لیکن اس کے علاوہ اور ذرائع سے بھی مسلسل یہ خبریں آ رہی ہیں کہ سنکیانگ میں مسلمانوں کی سرگرمیوں کو محدود کیا جا رہا ہے اور آزادانہ مذہبی سرگرمیوں کے الزام میں متعدد مسلمانوں کو موت کی سزا دی جا چکی ہے۔
سنکیانگ چین کا سرحدی صوبہ ہے جس کی آبادی ایک کروڑ کے لگ بھگ بیان کی جاتی ہے، اور کہا جاتا ہے کہ اس میں ۸۵ فیصد مسلمان ہیں۔ اس صوبے کا ایک اہم شہر کاشغر اسلامی تاریخ کا ایک معروف علمی و دینی مرکز رہا ہے۔ چین کے کمیونسٹ انقلاب کے بعد سے یہ صوبہ اسی نظام کا حصہ ہے، اور روس کے زیرتسلط رہنے والی وسطی ایشیا کی ریاستوں کی طرح اس صوبہ میں بھی مسلمانوں کو آزادانہ مذہبی سرگرمیوں سے روک دیا گیا۔ حتٰی کہ اس علاقہ کے مسلمانوں کو حج بیت اللہ کی سعادت بھی پہلی بار جنرل محمد ضیاء الحق مرحوم کے دور میں ان کی ذاتی کوششوں کی وجہ سے حاصل ہوئی، اور محدود تعداد میں کچھ خوش نصیب مسلمانوں کو طویل عرصہ کے بعد بیت اللہ شریف کی زیارت کا موقع ملا۔
سنکیانگ پر چینی کمیونزم کے تسلط کے آغاز میں وہاں کے علماء کرام نے بھی مزاحمت کی، اور علامہ سید محمد انور شاہ کشمیریؒ کے شاگرد مولانا ثبوت اللہ دام اللہؒ کی قیادت میں علماء نے آگے بڑھ کر اس خطہ کا کنٹرول سنبھال لیا مگر وہ زیادہ دیر تک مزاحمت جاری نہ رکھ سکے۔ مولانا ثبوت اللہ دام اللہؒ اور ان کے متعدد رفقاء شہید کر دیے گئے، سینکڑوں علماء کرام گرفتار ہو گئے، اور ہزاروں لوگ ہجرت پر مجبور ہوئے۔ اس کے بعد طویل عرصہ تک سناٹا رہا اور جنرل محمد ضیاء الحق مرحوم کے دور میں ان کی کوشش سے سنکیانگ کے مسلمانوں کا بیرونی مسلمانوں سے رابطہ قائم ہوا۔ اور اسی دوران وسطی ایشیا کی دیگر ریاستوں کی طرح اس چینی صوبے میں بھی جہادِ افغانستان کے اثرات پھیلنا شروع ہو گئے، جس کے نتیجے میں سنکیانگ میں مذہبی بیداری کے رجحانات فروغ پانے لگے، اور بظاہر چینی حکومت نے ان رجحانات پر قابو پانے کے لیے سخت گیر اقدامات شروع کر دیے ہیں۔
دو سال قبل اسلام آباد کے ایک ہوٹل میں راقم الحروف کی ملاقات سنکیانگ کے کچھ مسلمان نوجوانوں سے ہوئی جو وہاں کے مبینہ مظالم سے تنگ آ کر ہجرت پر مجبور ہوئے تھے، اور حکومتِ پاکستان سے سیاسی پناہ کے خواہاں تھے۔ حکومتِ پاکستان چین کے ساتھ اپنے تعلقات کے باعث ان نوجوانوں کو سیاسی پناہ نہ دے سکی، اور پھر یہ معلوم نہ ہو سکا کہ ان نوجوانوں کا کیا بنا۔
چین کے ساتھ پاکستان کے دوستانہ اور گرمجوش تعلقات کے باوجود ہمارے خیال میں حکومتِ پاکستان کو اس مسئلہ کو نظرانداز نہیں کرنا چاہیے، اور چینی حکمرانوں سے سنجیدگی کے ساتھ بات کرنی چاہیے کہ وہ معروضی حالات کا ادراک کرتے ہوئے حقائق کو تسلیم کریں۔ کیونکہ سنکیانگ کے مسلمانوں کے عالمی مسلم برادری کے ساتھ رابطہ، وسطی ایشیا کی مسلم ریاستوں کی آزادی، اور افغانستان میں اسلامی نظریاتی حکومت کے قیام کے بعد سنکیانگ کے مسلمانوں کو پابندیوں کے خول میں بند رکھنا اور ان کے جائز مذہبی حقوق پر پابندی جاری رکھنا زیادہ دیر ممکن نہیں رہے گا۔ اس لیے چینی حکومت خود ہی سنکیانگ کے مسلمانوں کو اعتماد میں لے کر انہیں جائز حقوق سے بہرہ ور کر دے تو یہ زیادہ مناسب بات ہو گی، ورنہ مذہبی بیداری کے بڑھتے ہوئے رجحانات کو کنٹرول نہیں کیا جا سکے گا۔ اور اگر اس صورتحال سے فائدہ اٹھانے کے لیے امریکی استعمار اپنے ایجنڈے کے مطابق آگے بڑھ گیا تو پھر حالات پر کسی کی گرفت باقی نہیں رہے گی۔