جہادِ کشمیر کی ایک تاریخی دستاویز

   
۲۰ جولائی ۲۰۰۱ء

تحریکِ آزادئ کشمیر کے سلسلہ میں ایک گزشتہ کالم کے حوالے سے ایک بات کی وضاحت ضروری سمجھتا ہوں جس کی طرف محترم سید بشیر حسین جعفری صاحب نے اپنے تفصیل خط میں توجہ دلائی ہے۔ اور بعد میں گزشتہ روز ایک ملاقات میں بھی انہوں نے اس کا ذکر کیا ہے۔ وہ یہ کہ ۱۹۴۷ء میں مہاراجہ ہری سنگھ کے خلاف بغاوت اور جہاد کے لیے حضرت مولانا سید مظفر حسین ندوی اور سردار محمد عبد القیوم خان صاحب کے اعلان کا میں نے نیلا بٹ کے حوالے سے تذکرہ کیا ہے، حالانکہ یہ فیصلہ باسیان (مری) کے مقام پر ہوا تھا اور وہیں جہاد کے اعلان کی تحریر لکھی گئی تھی۔ جعفری صاحب کا کہنا ہے کہ جسہ پیر منگ، راولاکوٹ، نیلا بٹ اور باسیان کے مقامات پر الگ الگ اجتماعات اور اعلانات ہوئے۔ جن میں سے باقاعدہ اعلانِ جہاد باسیان (مری) کے مقام پر تحریر کیا گیا اور دیگر اجتماعات میں مہاراجہ ہری سنگھ کے خلاف بغاوت اور کشمیر کی آزادی کے لیے جدوجہد کا عہد کیا گیا۔ جعفری صاحب تسلیم کرتے ہیں کہ اس سلسلہ میں سب سے پہلا اجتماع اور حلف جسہ پیر منگ میں ہوا، دوسرا اجتماع پندرہ اگست کو راولاکوٹ میں ہوا، تیسرا اجتماع تئیس اگست کو نیلابٹ میں ہوا، جب کہ تیس ستمبر ۱۹۴۷ء کو باسیاں (علاقہ مری) میں سردار محمد عبد القیوم خان کی تحریک پر حضرت مولانا سید مظفر حسین ندوی نے ’’اعلانِ جہاد‘‘ کی تحریر لکھی جس پر متعدد حضرات کے دستخط ہیں۔

حضرت مولانا سید مظفر حسین ندوی آزاد کشمیر کے بزرگ علماء کرام میں سے ہیں، ندوۃ العلماء لکھنؤ کے فاضل ہیں اور کچھ عرصہ وہاں استاد بھی رہے ہیں، ضلع باغ سے ان کا تعلق ہے، مفکر اسلام حضرت مولانا سید ابو الحسن علی ندویؒ ۱۹۴۴ء میں امیر المومنین سید احمد شہیدؒ کے حالاتِ زندگی اور مجاہدانہ خدمات پر کتاب کی تحریر کے سلسلہ میں ان کے مقامِ شہادت بالاکوٹ میں آئے تو دو ہفتے تک مولانا سید مظفر حسین ندوی کے ہاں قیام کیا اور اس سفر میں وہ ان کے ساتھ رہے۔ سید بشیر حسین جعفری صاحب مولانا سید مظفر حسین ندوی کے چھوٹے بھائی ہیں اور حضرت مولانا سید ابو الحسن علی ندویؒ کے اس سفر میں وہ بھی ان کے ساتھ شریک اور معاون رہے ہیں۔ حضرت مولانا سید مظفر حسین ندوی کافی عرصہ تک حکومتِ آزاد کشمیر میں امور دینیہ کے ڈائریکٹر کے منصب پر فائز رہے۔ اب مظفر آباد میں ریٹائرمنٹ کی زندگی گزار رہے ہیں اور بیمار ہیں، اللہ تعالیٰ انہیں صحتِ کاملہ سے نوازیں آمین۔

سید بشیر حسین جعفری صاحب نے اس ملاقات میں اس اعلانِ جہاد کی نقل بھی مرحمت فرمائی ہے جس کے لیے ان کا شکر گزار ہوں اور چاہتا ہوں کہ یہ ’’اعلانِ جہاد‘‘ قارئین کی نظر سے بھی گزر جائے۔

”بسم اللہ الرحمن الرحیم

آج ۳۰ ستمبر ۱۹۴۷ء کو باسیاں (کوہالہ مری روڈ) کی مسجد میں نمازِ ظہر کے بعد ہم یہ عہد نامہ تحریر کرتے ہیں۔

  • یہ کہ مہاراجہ ریاست جموں و کشمیر ہری سنگھ نے ریاست میں مسلمانوں پر زندگی تنگ کر رکھی ہے، ان کو شہید کیا جا رہا ہے، ان کے بال بچے، خواتین اور مال متاع خطرے میں ہے، مسلمانوں کے گاؤں جلائے جا رہے ہیں، اور یہ سب اس لیے ہو رہا ہے کہ ریاست کے مسلمانوں نے مہاراجہ سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اس ریاست کا پاکستان سے الحاق کرے جو ایک نیا اسلامی ملک بنا ہے۔
  • یہ کہ ریاست کے پاکستان کو نکلنے والے راستے بند کر دیے گئے ہیں۔ کوہالہ کے پل پر فوج کا پہرہ ہے اور دریائے جہلم پر جتنی اور جہاں کشتیاں تھیں ان کو کاٹ کر بہا دیا گیا ہے تاکہ ریاست کے مسلمان پاکستان کی طرف ہجرت کر سکیں، نہ ہی پاکستانی مسلمان ہماری مدد کو ریاست میں داخل ہو سکیں۔ مہاراجہ نے اپنی ساری فوج پونچھ، میر پور اور مظفر آباد میں لگا رکھی ہے اور مشرقی پنجاب کی سکھ ریاستوں اور آر ایس ایس کی عسکری مدد بھی حاصل ہے، تاکہ وسیع پیمانے پر مسلمانوں کا قتلِ عام کیا جائے تاکہ ریاست ہندو اکثریت میں بدل جائے۔
  • یہ کہ ان حالات میں ہم کشمیر کے اور پاکستان کے مسلمانوں پر یہ فرض ہو گیا ہے کہ اللہ اور رسول اللہ ﷺ کے احکامات کی روشنی میں کافر مہاراجہ کشمیر کی فوجوں کے خلاف جہاد کا آغاز کریں۔ اپنی جانوں، مال متاع ، اپنی اولاد اور اپنی عزت و آبرو اور دین کو بچانے کے لیے میدان جنگ میں نکلیں۔

    یہ پہلا مجاہدین کا دستہ جس کی تعداد ۳۹ ہے، جو سردار محمد عبد القیوم کی قیادت میں ہیں۔ جن کو امیر المجاہدین پیر سید علی اصغر شاہ گیلانی کی برابر دینی راہنمائی حاصل ہے اور وہ اس جہاد میں سردار محمد عبد القیوم خان کی سیکنڈ ان کمانڈ بھی ہیں۔ ہم سب مولانا سید مظفر حسین ندوی استاذ دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ کے سامنے یہ عہد نامہ لکھتے ہیں، ان سے جہاد کی رسمی اجازت لیتے ہوئے اپنے آپ سے اور سب کے سامنے یہ وعدہ کرتے ہیں کہ ہم اللہ کے حکم سے جہاد کے لیے آج نکلے ہیں۔ ہم صرف اپنے خلاف لڑنے والوں کا قتال کریں گے، عورتوں، بچوں، بوڑھوں، بیماروں پر ہاتھ نہیں اٹھائیں گے، اس وقت تک لڑیں گے جب تک کہ ریاست پاکستان کا حصہ نہیں بن جاتی، آزاد کردہ حصوں میں اسلامی حکومت قائم کریں گے، اسلامی نظام عدل اور نظام معیشت نافذ کریں گے، بیت المال کا نظام قائم کریں گے، اپنے امیر (کمانڈر) کا حکم تسلیم کریں گے، کسی جانی اور مالی قربانی کے پیش کرنے سے دریغ نہیں کریں گے۔ اللہ ہمارا حامی و ناصر ہو آمین۔‘‘

اس دستاویز پر سردار محمد عبد القیوم خان، پیر سید علی اصغر شاہ، مولانا سید مظفر حسین ندوی، محمد سلیم خان (بعد میں میجر)، محمد سعید خان (بعد میں میجر) اور محمد صدیق خان (بعد میں لیفٹیننٹ کرنل) کے دستخط ہیں۔

یہ تاریخی دستاویز اس موقع پر عوام کے سامنے لانے کا ایک مقصد تو اپنے قارئین کو اس سے آگاہ کرنا ہے۔ اور دوسرا مقصد آزاد کشمیر کے حالیہ الیکشن میں سردار محمد عبد القیوم خان کی قیادت میں کامیابی حاصل کرنے والی آل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس کو حکومت سنبھالنے سے قبل دلی مبارکباد پیش کرتے ہوئے وہ حلف یاد دلانا ہے جو سردار صاحب موصوف نے پاکستان کے ساتھ ریاست جموں و کشمیر کے مکمل الحاق تک جہاد جاری رکھنے اور آزاد کردہ علاقوں میں مکمل اسلامی نظام کے نفاذ کے لیے تیس ستمبر ۱۹۴۷ء کو باسیاں کی مسجد میں اٹھایا تھا۔ امید ہے کہ مسلم کانفرنس حکومت سنبھالنے کے بعد اپنے قائد کے اس حلف کی پاسداری اور تکمیل کے لیے کسی مصلحت یا دباؤ کی پرواہ کیے بغیر عملی پیشرفت کرے گی۔ خدا کرے کہ ایسا ہی ہو، آمین یا رب العالمین۔

   
2016ء سے
Flag Counter