۱۰ اکتوبر کو ڈومیلی ضلع جھلم کی ایک با مقصد تقریب میں شرکت کا موقع ملا۔ ڈومیلی کا نام زبان پر آتے ہی حضرت مولانا حکیم سید علی شاہؒ کا سراپا نگاہوں کے سامنے گھوم جاتا ہے جنہوں نے اس علاقہ میں توحید و سنت کے فروغ اور رفض و بدعت کے تعاقب میں مسلسل جدوجہد کی۔ اور آج ان کی اس جدوجہد کے آثار پورے خطے میں دکھائی دے رہے ہیں۔ وہ حضرت علامہ سید محمد انور شاہ کشمیریؒ اور حضرت مولانا مفتی کفایت اللہ دہلویؒ کے شاگرد اور حکیم الامت حضرت تھانویؒ سے روحانی سلوک و تربیت کا تعلق رکھتے تھے۔
جامعہ صدیقیہ قادریہ ڈومیلی کے مہتمم مولانا قاری محمد اسحاق فاروقی نے اپنے علاقہ کے چند بزرگوں کے حالات اور دینی خدمات پر ایک کتاب ’’سرزمین ضلع جہلم کے حضرات اولیاء کاملین کا اجمالی تعارف‘‘ کے نام سے لکھی ہے۔ اس کی رونمائی جامعہ صدیقیہ میں ۱۰ اکتوبر کو منعقد ہونے والی ’’رحمۃ للعالمین کانفرنس‘‘ میں ہوئی۔ کتاب میں حضرت مولانا قاضی مظہر حسینؒ ، حضرت مولانا امت رسولؒ آف جکر، حضرت مولانا حکیم سید علی شاہؒ ، حضرت مولانا عبد اللطیف جہلمیؒ ، حضرت مولانا فضل الٰہیؒ ، حضرت مولانا قاضی غلام محمدؒ ، حضرت مولانا عبد الحلیمؒ ، حضرت مولانا قاری خبیب احمد عمرؒ ، حضرت مولانا سید منظور احمدؒ ، حضرت مولانا قاضی نذیر حسینؒ ، اور حضرت مولانا فتح محمدؒ کے مختصر حالات زندگی کے ساتھ ساتھ ان کی دینی جدوجہد کا اجمالی تعارف کرایا گیا ہے۔ تقریب میں ان بزرگوں کے عقیدت مندوں اور خوشہ چینوں کی ایک بڑی تعداد کے ساتھ ان کے علمی و نسبی ورثاء بھی شریک تھے جن میں تحریک خدام اہل سنت پاکستان کے امیر حضرت مولانا قاضی ظہور الحسین اظہر، جامعہ حنفیہ تعلیم الاسلام جہلم کے مہتمم مولانا قاری محمد ابوبکر صدیق، جامعہ عثمانیہ جکر کے مہتمم مولانا مفتی رشید احمد ارشد، اور مولانا حکیم سید علی شاہؒ کے فرزند مولانا حکیم سید عابد گیلانی نمایاں ہیں۔ اس طرح یہ ’’رحمۃ للعالمین کانفرنس‘‘ چکوال، جہلم، ڈومیلی اور جکر کے ان اکابر کے متوسلین کا ایک نمائندہ اجتماع بن گئی ۔ خود مولانا قاری محمد اسحاق فاروقی حضرت مولانا امت رسولؒ فاضل دیوبند کے نواسے اور مفتی رشید احمد ارشد کے بھانجے ہیں۔ میرے لیے اس کانفرنس میں حاضری ہی سعادت کی بات تھی مگر ان بزرگوں نے مجھے ’’مہمان خصوصی‘‘ کے اعزاز سے نوازا اور کتاب کی رونمائی کا حکم دے کر اس اعزاز کو دوچند کر دیا۔
میرے لیے سب سے زیادہ خوشی کی بات یہ تھی کہ اپنے بزرگوں کے ناموں سے واقف ہونے کے ساتھ ساتھ ان کے حالات زندگی اور جہد مسلسل سے آگاہی کا ذوق بھی اس کتاب اور تقریب سے جھلک رہا تھا۔ ورنہ میں اکثر یہ عرض کیا کرتا ہوں کہ ہم عام طور پر اپنے بزرگوں کے ناموں سے تو واقف ہوتے ہیں، ان کے ساتھ محبت و عقیدت رکھتے ہیں، اپنے تعلق کا اظہار کرتے ہیں اور اپنے ذوق کے مطابق ان کے کچھ کارناموں کا ذکر بھی کرتے رہتے ہیں، مگر اس بات سے بالکل بے خبر ہوتے ہیں کہ ان کے مجموعی حالات زندگی کیا ہیں، انہوں نے کن حالات میں کام کیا ہے، ان کی جدوجہد کے دائرے کون کون سے تھے، انہیں کیسی مشکلات کا سامنا تھا، انہیں کن صبر آزما مراحل سے گزرنا پڑا، اور انہوں نے کس حوصلہ و عزم اور صبر و قناعت کے ساتھ اپنی جدوجہد کو زندگی بھر جاری رکھا۔
سہل پسندی کے اس دور میں ان اکابر کی جدوجہد، قربانیوں اور خدمات کا بار بار تذکرہ کرنا اس لیے بھی ضروری ہے کہ ہمیں ان سے راہ نمائی کے ساتھ ساتھ حوصلہ ملتا ہے اور خدمت و ایثار کی خفتہ صلاحیتیں بیداری سے آشنا ہوتی ہیں، جو شاید ہماری آج کی سب سے بڑی ضرورت بن چکی ہے۔
چکوال کچھ عرصہ پہلے تک ضلع جہلم کا حصہ تھا، اس دور میں مندرجہ بالا بزرگوں کی جدوجہد اس پورے علاقے تک وسیع تھی۔ ان کے ساتھ گجرات کے حضرت مولانا نذیر اللہ خانؒ کو بھی شامل کر لیا جائے تو اہل حق کے ایک پر عزم کاروان کا تصور سامنے آتا ہے جس کی قیادت حضرت مولانا قاضی مظہر حسینؒ کر رہے تھے۔ اور والد گرامی حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ کی علمی راہ نمائی اور سرپرستی بھی اس قافلہ کے ساتھ تھی۔ یہ سب بزرگ توحید و سنت کے پرچار، رفض و بدعات کے تعاقب، عقیدۂ ختم نبوت کے تحفظ، اہل سنت کے عقائد و حقوق کی پاسداری اور ملک میں نفاذ شریعت کے نفاذ کے لیے متحرک رہے۔ کارکنوں کے لیے ایسے بزرگوں کے کارناموں کا تذکرہ یقیناً ’’حدی خوانی‘‘ کا درجہ رکھتا ہے اور دینی جدوجہد کی راہ میں روز افزوں مشکلات کے ماحول میں ’’حدی را تیز ترمی خواں‘‘ کا نعرۂ مستانہ بلند کرتے رہنے کی ضرورت بڑھتی جا رہی ہے۔
مجھے ان میں سے اکثر بزرگوں کے ساتھ عقیدت و محبت اور خوشہ چینی کا شرف حاصل رہا ہے جس کا مختلف بہانوں سے وقتاً فوقتاً تذکرہ کرتا رہتا ہوں۔ مولانا قاری محمد اسحاق فاروقی کی مذکورہ بالا تصنیف اسی قسم کے جذبات اور تاثرات پر مشتمل ہے اور انہوں نے ان بزرگوں کے حوالہ سے معلومات کا اچھا خاصہ مواد اس میں جمع کر دیا ہے۔
میں نے اس تقریب کے دوران اپنی گفتگو میں اس بات کو ایک بار پھر دہرایا کہ پورے شرح صدر کے ساتھ میری یہ رائے ہے کہ اہل سنت کے عقائد و حقوق کے تحفظ کے لیے آج کے ماحول اور آنے والے مخدوش حالات میں اسی حکمت عملی کو زندہ کرنے اور آگے بڑھانے کی ضرورت ہے جو حضرت مولانا عبد الستار تونسویؒ ، حضرت مولانا قاضی مظہر حسینؒ اور ان کے رفقاء نے اختیار کی تھی۔ اس کے ساتھ ہی میں یہ سمجھتا ہوں کہ ملک بھر میں اس ذوق کو عام کرنا چاہیے کہ اصحاب ہمت اپنے اپنے علاقہ کے بزرگوں کے حالات و واقعات، خدمات اور جدوجہد کو اسی طرح مرتب کر کے سامنے لائیں۔ ہمارے ہاں صف اول کے چند بزرگوں کا تذکرہ تو بار بار ہوتا رہتا ہے لیکن علاقائی سطح پر کام کرنے والے ایسے بزرگوں کا اس طرح تذکرہ نہیں ہوتا جو دینی جدوجہد کی اصل بنیاد ہوتے ہیں اور جن کی قربانیوں پر تحریکات کی عمارتیں کھڑی ہوتی ہیں۔ مربوط، منظم اور مرتب تذکرہ نہ سہی، حقائق و واقعات کا جذبات و عقیدت کے رنگ میں غیر مرتب اظہار بھی افادیت سے خالی نہیں ہوتا بلکہ بسا اوقات زیادہ کام دے جاتا ہے۔ اس لیے ڈومیلی کے قاری محمد اسحاق فاروقی کی اس کاوش کو سراہتے ہوئے توقع رکھتا ہوں کہ ملک کے باقی حصوں کے باذوق حضرات بھی اس روایت کو آگے بڑھانے میں دلچسپی لیں گے۔