علم کا ذوق اور استاذ کا ادب

   
اسلامیہ سکول، ٹیکسلا
۱۵ اپریل ۱۹۹۹ء

بعد الحمد والصلوٰۃ۔ حضرت عبد اللہ بن عباسؓ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا زاد بھائی اور حضرت میمونہؓ کے بھانجے تھے۔ ان کا لقب ترجمان القرآن اور رأس المفسرین تھا۔ چودہ سال کی عمر میں مفسرین کے سردار بن گئے تھے۔ حضرت عمرؓ کے زمانے میں اکابر صحابہ کے ساتھ مشورے میں بیٹھتے تھے، اس وقت ان کی عمر اکیس سال تھی۔

امام بخاریؓ نے یہ واقعہ نقل کیا ہے کہ ان کو بچہ سمجھ کر کچھ بزرگوں نے محسوس کیا، بلکہ حضرت عبد الرحمٰن بن عوفؓ نے اعتراض بھی کر دیا کہ ان کو اکابر صحابہ کے ساتھ کیوں شریک کرتے ہیں؟

اس پر حضرت عمرؓ نے عملی جواب دیا۔ ایک دن شوریٰ بیٹھی تھی تو حضرت عمرؓ نے سوال کیا کہ سورۃ النصر میں حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ایک خاص پیغام ہے، وہ پیغام کیا ہے؟

یہ سوال شوریٰ سے پوچھا گیا تو حضرت عبد اللہ بن عباسؓ نے اس کا جواب دیا کہ اس میں حضور نبی کریمؐ کو وفات کا اشارہ دیا گیا ہے۔

سوال ہوا، وہ کیسے؟

تو انہوں نے کہا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کفر کا زور توڑنے کے لیے آئے تھے کہ اسلام غالب ہو۔ اس سورت میں فرمایا گیا ہے کہ اب وہ کام مکمل ہوگیا ہے اس لیے ’’فسبح بحمد ربک‘‘ اب آپ اللہ اللہ کریں۔

یہ سن کر صحابہؓ عش عش کر اٹھے۔ اس پر حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ اس کو اللہ تعالیٰ نے قرآن کا علم عطا کیا ہے اس لیے میں اس کو مشورے میں شریک کرتا ہوں۔

یہ عظمت کس ذوق سے حاصل ہوا، اس کی وجہ کیا تھی؟

حضرت ابن عباسؓ خود اپنا واقعہ بیان فرماتے ہیں کہ میں ایک دن اپنی خالہ حضرت میمونہؓ کے گھر یعنی حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں تھا۔ دوپہر کے وقت حضورؐ گھر سے باہر تشریف لے گئے تو میں سوچنے لگا کے باہر کیوں گئے ہوں گے۔

ذہین بچہ سوچتا ہے کہ نہ نماز کا وقت ہے اور نہ گھر والوں کو بتایا ہے۔

میں نے سوچا کہ قضائے حاجت کے لیے گئے ہوں گے۔ پھر سوچا کہ آپ کو پانی کی ضرورت ہو گی، میں خود ہی پانی کا لوٹا لے کر پیچھے چلے گیا۔ واقعی حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم قضائے حاجت کے لیے ہی گئے تھے۔ میں نے ان کے قریب لوٹا رکھ دیا۔ جب آپ فارغ ہوئے اور لوٹا پڑا ہوا دیکھا۔ اس سے طہارت حاصل کی۔ کچھ فاصلے پر میں کھڑا تھا۔ مجھ سے فرمایا کہ پانی تم لائے ہو؟ میں نے کہا، جی میں لایا۔ آپؐ نے دریافت فرمایا کہ کس نے کہا تھا؟ میں نے عرض کیا کہ خود ہی سوچا کہ آپ کو پانی کی ضرورت ہوگی تو لے آیا۔ حضورؐ اس پر بے حد خوش ہوئے۔

حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم دو وجہ سے خوش تھے: ایک یہ بات کہ بچہ ذہین اور سمجھ دار ہے، اور دوسرا یہ کہ کام کا جذبہ بھی رکھتا ہے۔

آنحضرتؐ نے وضو کر کے ہاتھ اٹھائے اور مجھ سے پوچھا کہ تمہارے لیے کیا دعا مانگوں؟ میں نے عرض کیا کہ دعا کریں اللہ تعالیٰ مجھے قرآن کا علم دے دیں تو آپؐ نے دعا فرمائی ’’اللہم فقہہ فی الدین‘‘۔ جس بچے اور طالب علم میں استفادہ کا ذوق و شوق ہو، وہ نیک لوگوں کی خدمت اور استاذ کا ادب کیا کرے۔ علم، ادب، گفتگو اور سلیقہ بہت بڑی نعمت ہے، یہ دنیا اور آخرت میں کام آنے والی چیزیں ہیں۔

الحمد للہ ہم سب مسلمان ہیں۔ اسلام کو غالب کرنے کا جذبہ بھی ہے۔ ہم اسلام کے داعی ہیں تو دعوت سے پہلے ہمیں خود اسلام کا پتہ ہونا چاہیے۔ خود علم حاصل کریں، بزرگوں کا ادب کریں، گفتگو کا سلیقہ سیکھیں، عملی مسلمان بنیں اور دوسروں کے لیے نمونہ ہوں۔ میں نے خود بہت استفادہ کیا ہے۔ میری ان باتوں کو پلے باندھیں۔ آپ لوگوں کے لیے اب بہت موقع ہے، یہاں علم اور تربیت حاصل کر کے معاشرے میں ایک اچھے مسلمان بن کر نمونہ پیش کریں۔

2016ء سے
Flag Counter