پاکستان کا ایٹمی دھماکہ اور مستقبل کی پیش بندی

   
۱۰ جون ۱۹۹۸ء

بالآخر تاریخ کا وہ فیصلہ کن مرحلہ آپہنچا جس کا پوری ملت اسلامیہ کو ایک مدت سے انتظار تھا اور جس کے لیے لاکھوں پیشانیاں بارگاہ ایزدی میں سجدہ ریز ہوتی رہی ہیں اور جسے دیکھنے کی حسرت دل میں لیے کروڑوں مسلمان قبروں میں جا بسے۔ جب مجھے مقامی صحافی دوست جناب محمد شفیق نے فون کر کے پاکستان کے ایٹمی دھماکوں کی خبر دی تو دل اور آنکھوں پر قابو نہ رہا۔ انہوں نے اس پر تبصرہ کرنے کو کہا تو زبان کو الفاظ نہیں سوجھ رہے تھے۔ انہیں چند منٹ انتظار کا کہہ کر حواس کو مجتمع کیا اور دل و دماغ اور زبان کا رشتہ پھر سے جوڑ کر بمشکل چند جملے ترتیب دے سکا۔

شام چھ بجے ٹی وی پر وزیراعظم کا خطاب سنا اور رات نو بجے خبرنامہ دیکھا تو خوشی کی انتہا نہ رہی کہ یہ کیفیت صرف میری نہیں بلکہ ہر اس پاکستانی کی ہے جو پاکستان کے لفظ کا معنٰی سمجھتا ہے، پاکستان کے قیام کے مقصد سے آگاہ ہے اور مسلم ممالک کی برادری میں پاکستان کے مقام و مرتبہ سے باخبر ہے۔ وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے اپنے خطاب میں حالات کا جو تناظر پیش کیا ہے اور ایٹمی دھماکوں کے ناگزیر ہونے کے جو اسباب بیان کیے ہیں وہ بلاشبہ حقیقت پسندانہ ہیں اور ان پر سنجیدگی کے ساتھ توجہ دینے والا کوئی بھی شخص ان کی واقعیت سے انکار نہیں کر سکتا۔ لیکن ان کے خطاب سے پہلے تلاوت کرنے والے قاری صاحب نے قرآن حکیم کی جن آیات کا انتخاب کیا وہ عالم اسلام کے موجودہ حالات اور ملت اسلامیہ کی دینی ذمہ داریوں کی بہت صاف اور واضح عکاسی کر رہی تھیں۔ انہوں نے سورۃ الاحزاب کی چند آیات پڑھیں جن میں غزوۂ خندق کا ذکر ہے۔

غزوۂ خندق میں عرب کے کم و بیش سب قبائل نے مسلمانوں کے خلاف متحدہ محاذ بنا لیا تھا اور چاروں طرف سے مدینہ منورہ کی طرف یلغار کر دی تھی۔ اللہ تعالیٰ قرآن کریم کی ان آیات میں مسلمانوں کو یاد دلا رہے ہیں کہ اس وقت کو یاد کرو جب عرب قبائل ہر طرف سے تم پر چڑھ دوڑے تھے اور تمہارے خوف کا عالم یہ تھا کہ آنکھیں خوف کے مارے ٹیڑھی ہوگئی تھیں اور دل حلق میں جا اٹکے تھے، جب مومنوں کو آزمائش میں ڈال دیا گیا تھا اور انہیں ہلا کر رکھ دیا گیا تھا۔ اس وقت اللہ تعالیٰ نے ہوا کے ساتھ مسلمانوں کی مدد کی کہ مدینہ منورہ کا محاصرہ کرنے والا ہزاروں کا لشکر آندھی کا شکار ہوگیا۔ تیز ہوا نے خیمے اکھاڑ دیے، چولہے الٹ گئے، خیموں کو آگ لگ گئی اور محاصرہ کرنے والوں کے لیے فرار کے سوا کوئی چارہ نہ رہا۔ یہ واقعہ بھی اسی جنگ کا ہے کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ منورہ میں محصور ہو کر دفاع کا فیصلہ کیا اور حضرت سلمان فارسیؓ کی تجویز پر مدینہ منورہ کے گرد خندق کھودنے کی تدبیر اختیار کی جو کہ عربوں کے لیے ایک نئی جنگی تکنیک تھی۔ اور یہ واقعہ بھی اسی جنگ میں رونما ہوا کہ خندق کھودتے ہوئے ایک صحابیؓ نے جناب نبی اکرمؐ سے بھوک کی شکایت کی اور پیٹ سے کپڑا اٹھا کر دکھایا کہ بھوک کو دبانے کے لیے اس نے پیٹ پر پتھر باندھ رکھا ہے۔ جناب رسول اللہؐ نے اسے صبر کی تلقین کرتے ہوئے اپنے پیٹ مبارک سے کپڑا اٹھا دیا اور اس صحابیؓ کو یہ دیکھ کر حوصلہ ہوا کہ اسے صبر کی تلقین کرنے والے راہنما کے پیٹ پر دو پتھر بندھے ہوئے ہیں۔

میں سمجھتا ہوں کہ وزیر اعظم کے اس خطاب سے پہلے تلاوت کے لیے ان آیات کریمہ کا انتخاب جس نے بھی کیا ہے اس نے ہمارے سامنے موجودہ اور آنے والے حالات کا پورا نقشہ پیش کر دیا ہے۔ اور قرآن کریم کی زبان میں یہ بتا دیا ہے کہ ایٹمی دھماکے کا تاریخی فیصلہ کرنے کے بعد تمہارے خلاف دنیا کی بڑی اقوام کا متحدہ محاذ بنے گا، ہر طرف سے تم پر یلغار ہوگی، تمہاری معاشی حالت پیٹ پر پتھر باندھنے جیسی ہو سکتی ہے اور تمہیں ہراساں اور خوف زدہ کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی جائے گی۔ لیکن اگر تم ثابت قدم رہے، ایمان کا دامن تھامے رکھا اور آزمائش پر پورا اترے تو خدا کی غیبی قوتیں تمہارے حق میں حرکت میں آئیں گی اور تمہارے مخالفین کے لیے شکست مقدر ہو کر رہے گی۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے غزوۂ خندق کے موقع پر مدینہ منورہ کا محاصرہ کرنے والے عرب قبائل کی شکست و فرار کا ذکر ان الفاظ سے کیا ہے کہ:

’’اور اللہ تعالیٰ نے کفار کو ان کے غصے سمیت واپس پلٹا دیا اور وہ کچھ بھی حاصل نہ کر سکے اور اللہ مومنوں کو لڑائی میں کافی ہوگیا۔‘‘

اسلام کا مزاج یہ ہے کہ حالات کی نامساعدت اور اسباب کی ناموافقت جب انتہا کو پہنچ جاتی ہے اور اہل ایمان کا اس حالت میں بھی خدا کی مدد پر ایمان قائم رہتا ہے تو پھر امید کی کرن پھوٹتی ہے اور دیکھتے ہی دیکھتے حالات پلٹا کھا جاتے ہیں۔ اس پر بطور مثال دو واقعے عرض کرنا چاہتا ہوں۔ ایک واقعہ ہجرت کا ہے کہ آنحضرتؐ مکہ مکرمہ سے ہجرت کر کے مدینہ منورہ جا رہے تھے، ظاہری کیفیت یہ تھی کہ ننگی تلواروں کے گھیرے کو توڑ کر گھر سے نکلے تھے اور عام راستے کی بجائے اجنبی راستے سے مدینہ کی طرف چھپتے چھپاتے سفر کر رہے تھے۔ لیکن راستے میں جب سراقہ بن مالکؓ نے ایک ٹولی کے ساتھ آپؐ کو گرفتار کرنے میں ناکام ہو کر واپس جانے کی بات کی تو آپ نے سراقہ سے فرمایا کہ

’’میں تمہارے ہاتھوں میں کسریٰ بادشاہ کے کنگن دیکھ رہا ہوں۔‘‘

یہ پیش گوئی رسول اللہؐ کا معجزہ تھا جو حضرت عمرؓ کے دور خلافت میں پوری ہوئی۔ لیکن یہ محض پیش گوئی نہ تھی بلکہ اس میں ایک واضح سبق بھی ہے کہ مسلمان کو ظاہری حالات کے وقتی ماحول کا اسیر نہیں رہنا چاہیے۔ اور مشکل سے مشکل حالات میں بھی اپنے اعلیٰ ترین مقصد اور نصرت خداوندی کی طرف نظر رکھنی چاہیے کہ اس کا اصل سرمایہ یہی ہے۔

دوسرا واقعہ غزوۂ احزاب کا ہے جس کا ظاہری منظر سطور بالا میں ذکر ہو چکا ہے کہ انتہائی خوف کی کیفیت تھی، مدینہ منورہ کے دفاع کے لیے خندق کی کھدائی کا کام دن رات جاری تھا اور اس ظاہری منظر کو دیکھنے والے یہ یقین کیے بیٹھے تھے کہ اب مسلمانوں کو کہیں جائے پناہ میسر نہیں آئے گی۔ لیکن اسی حالت میں رسول اللہؐ ایک چٹان کو توڑنے کے لیے کدال کی ضرب لگاتے ہیں تو اس میں سے چمک اٹھتی ہے جس پر حضورؐ اپنے ساتھیوں کو خوشخبری دیتے ہیں کہ مجھے اس چمک میں اللہ تعالیٰ نے روم کے بادشاہ قیصر اور فارس کے بادشاہ کسریٰ کے محلات دکھائے ہیں جو مسلمانوں کے ہاتھوں فتح ہوں گے۔ اس لیے گبھرانے کی ضرورت نہیں، پریشانیوں اور مشکلات کی ایک لہر ضرور آئے گی جو شدید سے شدید تر بھی ہو سکتی ہے، لیکن اگر ایمان اور اس کے تقاضوں پر ثابت قدم رہے تو انہی پریشانیوں اور مشکلات کی کوکھ سے عظیم تر کامیابیاں جنم لیں گی ۔ اور حالات کا رخ بتاتا ہے کہ آنے والی صدی مسلمانوں کے لیے انہی کامیابیوں کو اپنے دامن میں سنبھالے غزوۂ احزاب جیسے ایمان والے مسلمانوں کی راہ تک رہی ہے۔

میاں محمد نواز شریف اور ان کی حکومت کو اس عظیم کارنامے پر قوم کے ہر طبقے اور ہر محب وطن شہری نے مبارک باد دی ہے۔ اس مبارک باد میں ہمارے قابل فخر سائنس دان ڈاکٹر عبد القدیر، جنرل ضیاء الحق مرحوم اور جناب ذوالفقار علی بھٹو مرحوم بھی شریک ہیں۔ اور اپنے جوش و جذبہ کے ساتھ ان کی پشت پر کھڑی رہنے والی پاکستانی قوم اور پاکستان سے اپنی امیدیں اور آرزوئیں وابستہ کرنے والی پوری ملت اسلامیہ ان سب سے زیادہ مبارک باد کی مستحق ہے۔

لیکن میں ایٹمی دھماکے کے ساتھ بلکہ اس سے بھی زیادہ ایک اور دھماکے پر میاں نواز شریف کو مبارکباد دینا چاہتا ہوں۔ وہ وزیراعظم سیکرٹریٹ کی عالی شان عمارت چھوڑ دینے اور تعیش اور آسائش کا راستہ ترک کر دینے کا دھماکہ ہے جو میرے جیسے نظریاتی کارکن کے لیے ایٹمی دھماکے سے بھی بڑا ہے۔ کیونکہ اگر ہم اس تجربہ میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو نہ صرف عسکری میدان میں بلکہ اقتصادی اور معاشی میدان میں بھی آج کی قوتوں کے سامنے کھڑے ہو سکتے ہیں۔ اور عالمی بینک، آئی ایم ایف اور ان جیسے دیگر عالمی اداروں کے ظالمانہ چنگل سے نجات حاصل کر سکتے ہیں۔ اسلام کی بنیادی تعلیم بھی یہی ہے کہ یہ دنیا خواہشات کی نہیں بلکہ ضروریات کی دنیا ہے۔ اس دنیا میں خواہشات کسی بھی شخص کی پوری نہیں ہو سکتیں اور خواہشات کی تکمیل کے لیے اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کے لیے آخرت کی وسیع اور لامتناعی دنیا سجا رکھی ہے۔ اس لیے اس دنیا میں ہم سب اگر اپنے آپ کو ضروریات تک محدود رکھیں تو سوسائٹی کے ہر شخص کی ضروریات با آسانی پوری ہو سکتی ہیں۔ کیونکہ خرابی وہاں سے شروع ہوتی ہے جہاں کچھ لوگ ضروریات کا دائرہ پھلانگ کر دنیا کے محدود وسائل سے لا محدود خواہشات پوری کرنے کے لیے لگژری اور تعیش کا راستہ اختیار کرتے ہیں۔ اس سے وسائل اور ضروریات کا توازن بگڑ جاتا ہے اور چند لوگوں کی خواہشات پر بے شمار لوگوں کی ضروریات قربان ہو جاتی ہیں۔ اسلام کے معاشی فلسفے کی بنیاد اسی پر ہے اور یہی خلافت راشدہ کا طرۂ امتیاز تھا۔

اس لیے یہ ضروری ہے کہ پورے معاشی نظام پر ازسرِنو نظر ڈالی جائے اور وزیراعظم جس انقلاب کی بات کر رہے ہیں اس کی ابتدا اسی شعبہ سے کی جائے۔ مگر اس کے لیے عمر بن عبد العزیزؒ بننا پڑے گا۔ اور میں وزیر اعظم محترم کو مشورہ دوں گا کہ اگر وہ فی الواقع ملک میں کوئی انقلاب لانا چاہتے ہیں تو عمر ثانی یعنی حضرت عمر بن عبد العزیزؒ کی سوانح حیات اپنے ہاتھ میں رکھیں اور اس سے راہنمائی حاصل کریں۔ میں انہیں یقین دلاتا ہوں کہ اگر وہ ایسا کر گزرے تو اکیسویں صدی میں ملت اسلامیہ کا داخلہ ایسا شاندار ہوگا کہ پچھلی دس صدیاں تو کم از کم اس پر ضرور رشک کریں گی اور میاں نواز شریف تاریخ اسلام میں ہمیشہ کے لیے زندہ باد ہوجائیں گے۔

   
2016ء سے
Flag Counter