نواب محمد اکبر خان بگٹی کے افسوسناک قتل نے جہاں ماضی کی بہت سی تلخ یادوں کو ایک بار پھر بے نقاب کر دیا ہے وہاں مستقبل کے حوالہ سے بھی انجانے خدشات و خطرات کی دھند ذہنوں پر مسلط کر دی ہے۔ جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ جو کچھ ہوا ہے درست نہیں ہوا اور اس کے نتائج ملک و قوم کے لیے خطرناک ہو سکتے ہیں، اس پر حکومتی پارٹی اور اپوزیشن میں اختلاف نہیں ہے اور متحدہ مجلس عمل اور اے آر ڈی کے ساتھ ساتھ چودھری شجاعت حسین اور میر ظفر اللہ خان جمالی بھی اس پر افسوس کا اظہار کر رہے ہیں۔ لیکن اس کے اسباب و محرکات اور اس قتل کی ذمہ داری کے حوالہ سے مختلف باتیں کہی جا رہی ہیں اور بحث و مباحثہ کا نیا بازار گرم ہوگیا ہے۔
نواب محمد اکبر خان بگٹی کا نام پہلی بار میں نے اس وقت سنا جب ۱۹۷۰ء کے عام انتخابات اور مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد باقی ماندہ پاکستان میں ذوالفقار علی بھٹو مرحوم نے زمام اقتدار سنبھالی اور سرحد و بلوچستان میں جمعیۃ علماء اسلام اور نیشنل عوامی پارٹی نے مخلوط حکومتیں بنائیں۔ سرحد میں مولانا مفتی محمودؒ اور بلوچستان میں سردار عطاء اللہ مینگل ان مخلوط حکومتوں کے سربراہ تھے۔ لیکن یہ مخلوط حکومتیں ابھی دس ماہ بھی کام نہ کر پائی تھیں کہ بلوچستان میں سردار عطاء اللہ خان مینگل کی وزارت کو وفاق کی طرف سے برطرف کر دیا گیا جس پر احتجاج کرتے ہوئے صوبہ سرحد کے وزیر اعلیٰ مولانا مفتی محمودؒ نے بھی استعفیٰ دے دیا۔ اس موقع پر اسلام آباد میں عراقی سفارت خانہ سے اسلحہ کی برآمدگی کا مسئلہ سامنے آیا جس کا تعلق خان عبد الولی خان اور سردار عطاء اللہ خان مینگل کی نیشنل عوامی پارٹی سے جوڑا گیا اور پھر نیشنل عوامی پارٹی کو خلاف قانون قرار دے کر اس کے خلاف سپریم کورٹ آف پاکستان میں ریفرنس دائر کر دیا گیا جو حیدرآباد ٹربیونل کے سامنے کئی برس تک زیر سماعت رہا۔
نواب محمد اکبر خان بگٹی اس موقع پر بلوچستان کی ایک قدآور شخصیت کے طور پر بھٹو حکومت کے اقدامات کے حامی کے طور پر سامنے آئے اور انہوں نے موچی دروازہ لاہور میں جلسہ عام سے خطاب بھی کیا۔ اس مرحلہ میں بلوچستان میں مری اور مینگل قبائل کے علاقوں میں فوجی ایکشن ہوا، ان قبائل کے لوگ حسب روایت پہاڑوں پر چڑھ کر مورچہ زن ہوگئے اور پاک فوج اور قبائل کے درمیان مسلح کشمکش کے ایک دور کا آغاز ہوگیا۔ اس کشمکش میں نواب محمد اکبر خان بگٹی مرحوم جناب ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کے ساتھی تھے اور ان کی طرف سے کچھ عرصہ بلوچستان کے گورنر بھی رہے۔ اسی دور میں اپوزیشن کی جماعتوں نے مل کر ’’متحدہ جمہوری محاذ‘‘ قائم کیا جس نے حکومت کے خلاف ملک گیر سیاسی مہم کا سلسلہ شروع کیا اور پنجاب کے گورنر جناب غلام مصطفیٰ کھر کی نافذ کردہ دفعہ ۱۴۴ کو ہدف بنا کر لاہور اور ملتان سے سول نافرمانی شروع کردی۔ اس تحریک میں دفعہ ۱۴۴ کی خلاف ورزی کرتے ہوئے گرفتاریاں پیش کرنے والوں میں ملک محمد قاسم، سید محمد قسور گردیزی، جناب حمزہ، قاری نور الحق قریشی اور متعدد سرکردہ سیاسی رہنما شامل تھے۔ سیاسی کارکنوں پر لاہور اور ملتان دونوں جگہ سخت تشدد کیا گیا، ملک محمد قاسم مرحوم زخمی ہوئے، میاں محمد طفیل جیسی محترم شخصیت تذلیل کا نشانہ بنی، شیرانوالہ لاہور کے مولوی شیر محمد پر بازاری عورتیں مسلط کی گئیں، اور چودھری ظہور الٰہی مرحوم کو گرفتار کر کے بلوچستان کی مچھ جیل میں ڈال دیا گیا۔
ان دنوں میں نے حضرت مولانا مفتی محمودؒ سے دریافت کیا کہ دفعہ ۱۴۴ کا نفاذ تو ہمارے معمولات میں شامل ہے اور یہ اکثر ہمارے اضلاع میں نافذ ہوتی رہتی ہے، اس پر اس قدر سخت ایکشن لینے کی کیا ضرورت ہے؟ مفتی صاحب مرحوم نے فرمایا کہ دفعہ ۱۴۴ کی خلاف ورزی دراصل ہم بلوچستان کے عوام کے ساتھ یکجہتی کے اظہار کے لیے کر رہے ہیں اور فوجی آپریشن کا نشانہ بننے والے بلوچوں کو یہ بتانا چاہتے ہیں کہ حکومتی کارروائیوں اور ریاستی تشدد کا ان کی طرح ہم بھی نشانہ ہیں۔ اس طرح ہماری کوشش ہے کہ پنجاب کے عوام اور سیاسی کارکن اس انداز میں قربانیاں دیں تاکہ بلوچ قبائل پر فوج کے اس آپریشن کو پنجاب کے خلاف استعمال نہ کیا جا سکے۔چودھری ظہور الٰہی مرحوم جب مچھ جیل سے رہا ہوئے تو انہوں نے بھی ہمارے ہاں مرکزی جامع مسجد گوجرانوالہ میں جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے اسی قسم کے جذبات کا اظہار کیا اور کہا کہ ہم بلوچ عوام کے ساتھ ہیں اور ان کے ساتھ ہم آہنگی کے اظہار کے لیے کسی قربانی سے دریغ نہیں کریں گے۔ میں خود اس جلسہ کے منتظمین میں سے تھا اور چودھری ظہور الٰہی مرحوم نے جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے بلوچ عوام کی مظلومیت کا جو نقشہ کھینچا اور مچھ جیل میں زیرحراست بلوچوں کی بے بسی کے جو مناظر پیش کیے اس نے جلسہ میں شریک ہر آنکھ کو نم کر دیا تھا۔
بلوچستان میں جمعیۃ علماء اسلام کے صوبائی امیر اور بلوچستان اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر مولوی سید شمس الدین شہیدؒ کی المناک شہادت کا واقعہ بھی اسی دور کا ہے۔ مولوی سید شمس الدین شہیدؒ کا تعلق ژوب سے تھا، انہوں نے میرے ساتھ مدرسہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ سے دورۂ حدیث کیا تھا۔ فراغت کے بعد وطن واپس پہنچے تو الیکشن کا طبل بج چکا تھا، وہ نوجوان تھے اور الیکشن لڑنے کے لیے ۲۵ سال کی عمر کی حد بمشکل پوری کر پائے تھے۔ اپنے علاقے کے نواب کے مقابلے میں وہ صرف اس نیت سے کھڑے ہوئے کہ وہ بلامقابلہ نہ منتخب ہو جائے۔ انہوں نے سائیکلوں پر انتخابی مہم چلائی اور خلاف توقع الیکشن جیت گئے۔ انہیں قادیانیوں کے خلاف ژوب میں ایک تحریک کے حوالہ سے گرفتار کر کے غائب کر دیا گیا۔ کئی ماہ تک ان کی بازیابی اور تلاش کا سلسلہ جاری رہا حتیٰ کہ مولانا مفتی محمودؒ کو قومی اسمبلی میں یہ کہنا پڑا کہ اگر انہیں مار دیا گیا ہے تو ان کی لاش تو ورثاء کے حوالے کر دی جائے۔ وہ رہا تو ہوئے مگر چند دنوں کے بعد انہیں شہید کر دیا گیا۔
یہ اس دور کی باتیں ہیں جب ہمارا یعنی جمعیۃ علماء اسلام کے کارکنوں کا نواب محمد اکبر خان بگٹی مرحوم سے پہلا تعارف ہوا بلکہ ان سے واسطہ پڑا۔ پھر اس کے بعد وہ دور بھی آیا جب جمعیۃ علماء اسلام نے نواب اکبر خان بگٹی مرحوم کے ساتھ مل کر بلوچستان میں حکومت بنائی۔ جنرل محمد ضیاء الحق مرحوم کے بعد ایک الیکشن میں بلوچستان اسمبلی میں نواب محمد اکبر خان بگٹی کی سربراہی میں کولیشن قائم ہوئی اور ان کی قیادت میں صوبائی حکومت بنائی گئی جس میں جمعیۃ علماء اسلام بھی شامل تھی۔ نواب اکبر خان بگٹی کا تعارف ایک سیکولر سیاستدان اور قوم پرست رہنما کا تھا۔ وہ سیاست میں مذہب کی چھاپ کو پسند نہیں کرتے تھے اور خالصتاً قوم پرستانہ سیاست کے قائل تھے۔ ان کے اس سیاسی پس منظر کے پیش نظر مجھے اس کولیشن پر تعجب ہوا۔ جمعیۃ علماء اسلام اس وقت فضل الرحمان گروپ اور درخواستی گروپ میں منقسم تھی۔ میں درخواستی گروپ کے ذمہ دار حضرات میں شامل تھا اس کے باوجود ایک موقع پر مولانا فضل الرحمان سے ملاقات کے دوران میں نے ان سے یہ دریافت کرنا ضروری سمجھا کہ نواب محمد اکبر خان بگٹی مرحوم کے ساتھ بلکہ ان کی قیادت میں جمعیۃ علماء اسلام کی کولیشن کے اسباب کیا ہیں؟ مولانا فضل الرحمن نے اس کا جو جواب دیا وہ اس موضوع گفتگو سے تعلق نہیں رکھتا اس لیے اس کا ذکر یہاں نہیں کر رہا، البتہ یہ بات بتانا چاہ رہا ہوں کہ جمعیۃ علماء اسلام اور بگٹی مرحوم کی یہ کولیشن وزارت کئی برس تک چلتی رہی۔
نواب اکبر خان بگٹی ایک جہاندیدہ اور صاحب مطالعہ سیاستدان تھے، معاملات کو سمجھتے تھے، اور موقع محل کے مطابق مشکل ترین حالات میں بھی راستہ نکالنے کے فن سے واقف تھے۔ لیکن ان کی سوچ اور سیاسی فکر بلوچ قومیت تک محدود رہی جس کی وجہ سے وہ قومی سیاست میں اپنی صحیح جگہ نہ پا سکے۔ ورنہ ان کے بارے میں میرا تاثر یہ تھا کہ اگر وہ بلوچ قوم پرستی کے دائرے سے نکل کر سیاست کے قومی دھارے میں وسیع ذہن کے ساتھ آتے تو قومی سطح کے سیاستدانوں کی صف میں نمایاں جگہ پا سکتے تھے۔ بلکہ مختلف علاقائی قوم پرستانہ تحریکوں کے سنگم کے طور پر ان تحریکوں کو وفاقی لیڈرشپ بھی فراہم کر سکتے تھے۔
نواب محمد اکبر خان بگٹی کی سوچ سے اختلاف کیا جا سکتا ہے اور ہمیں ہمیشہ اختلاف رہا ہے لیکن ان کے قتل اور بلوچ قبائل کے خلاف اس طرح کے فوجی ایکشن کی کسی طرح حمایت نہیں کی جا سکتی۔ یہ جو کچھ ہوا ہے اسے صریحاً ظلم اور ناعاقبت اندیشی ہی قرار دیا جا سکتا ہے، اور اس کے خلاف اپوزیشن نے یکم ستمبر کو ہڑتال کی جو کال دی ہے وہ وقت کا ایک اہم تقاضا ہے۔ بھٹو حکومت کے دور میں بلوچستان پر ہونے والے فوجی ایکشن کے خلاف پنجاب سمیت ملک بھر کے سیاسی کارکنوں نے جس شدید رد عمل کا اظہار کیا تھا اسے پھر زندہ کرنے کی ضرورت ہے اور اس میں مولانا مفتی محمودؒ اور چودھری ظہور الٰہی مرحوم کے بیٹوں کو نمایاں کردار ادا کرنا چاہیے کہ ان دو عظیم رہنماؤں کا سیاسی ورثہ یہی ہے۔ اس سلسلہ میں اطمینان کی ایک بات ہے یہ کہ آج اس احتجاج میں ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کی پارٹی بھی شریک ہے اور بلوچ عوام کے جائز حقوق کی حمایت کر رہی ہے۔ بلوچستان آج پھر فوجی آپریشن کی زد میں ہے، بلوچ عوام کو پھر کارنر کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے اور بلوچستان ایک بار پھر پنجاب کی طرف دیکھ رہا ہے۔ امید ہے کہ پنجاب اپنا فرض بخوبی نبھائے گا۔