عوامی جمہوریہ چین کے حکمرانوں سے ایک گزارش

   
۲۳ اکتوبر ۱۹۹۹ء

عوامی جمہوریہ چین ہمارا عظیم پڑوسی ملک ہے اور پاکستان کے ان دوستوں میں شمار ہوتا ہے جنہوں نے ہر آڑے وقت میں پاکستان کا ساتھ دیا۔ مگر گزشتہ ایک ہفتہ کے دوران دو تین خبریں ایسی آئی ہیں جنہوں نے پاک چین تعلقات کے حوالہ سے محب وطن پاکستانیوں کو بے چینی سے دوچار کر دیا ہے۔

  • ایک خبر تو رائٹر کی جاری کردہ ہے جو لاہور سے شائع ہونے والے ایک قومی اخبار نے ۱۲ اکتوبر کو شائع کی ہے کہ چین کے شورش زدہ صوبے ژنجیانگ (سنکیانگ) میں عدالت نے بم دھماکوں اور ڈکیتیوں کی منصوبہ بندی کرنے پر تین مسلمان علیحدگی پسندوں کو سزائے موت سنا دی ہے اور ان کے چھ دیگر ساتھیوں کی سزائے موت کو عمر قید میں بدل دیا ہے۔
  • دوسری خبر این این آئی نے ہندوستان ٹائمز کے حوالہ سے جاری کی ہے کہ پنجاب کے سابق وزیراعلیٰ میاں شہباز شریف نے واشنگٹن کے دورہ میں امریکی حکام کے ساتھ جو سمجھوتہ کیا ہے اس میں یہ نکتہ بھی شامل ہے کہ پاکستان چین کے ساتھ امریکہ کے معاملات میں امریکہ کا ساتھ دے گا۔
  • جبکہ تیسری خبر حرکت المجاہدین کے امیر مولانا فضل الرحمان خلیل نے گزشتہ ہفتے پریس کانفرنس میں بتائی ہے کہ رابطہ عالم اسلامی نے ان سے رابطہ قائم کر کے ترغیب دی تھی کہ وہ سنکیانگ میں مسلمانوں کو جہاد آزادی کے لیے تیار کرنے میں کردار ادا کریں مگر انہوں نے چین کے خلاف کسی کارروائی میں حصہ لینے سے انکار کر دیا ہے۔

سنکیانگ چین کا وہ سرحدی صوبہ ہے جو پاکستان کے ساتھ ملتا ہے اور اسے چینی ترکستان کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ کاشغر نام کا معروف شہر بھی اسی صوبہ میں ہے۔ اس صوبہ کی مجموعی آبادی ایک کروڑ بیان کی جاتی ہے جس کی اسی فیصد اکثریت مسلمان بتائی جاتی ہے۔ کمیونسٹ انقلاب کے بعد اس خطہ کے مسلمانوں نے اپنی آزادی برقرار رکھنے کے لیے مزاحمت کی اور علامہ سید محمد انور شاہ کشمیریؒ کے شاگرد مولانا ثبوت اللہ ایغور شہیدؒ کی قیادت میں کمیونسٹ فوجوں کے ساتھ سالہا سال تک مقابلہ کیا۔ مگر وہ شہید ہوگئے، مزاحمتی تحریک دم توڑ گئی اور ان کے قریبی رفقاء ہجرت کرنے پر مجبور ہوگئے جن میں ایک بزرگ مولانا نیاز محمد ختنی بھی تھے۔ مولانا مرحوم قیام پاکستان کے بعد حضرت مولانا بدر عالم میرٹھی کے ہمراہ بہاولنگر آگئے اور مرکزی عیدگاہ میں جامع العلوم کے نام سے دینی درسگاہ قائم کی جو آج بھی ان کے فرزند مولانا جلیل احمد اخون کی نگرانی میں تعلیمی خدمات میں مصروف ہے۔

جہاد افغانستان اور اس کے نتیجہ میں وسطی ایشیا کی ریاستوں کی آزادی کے اثرات چین کے اس مسلم اکثریت کے صوبے پر پڑنا بھی لازمی اور فطری بات تھی اور یہ بھی صاف نظر آرہا تھا کہ امریکہ چین کے خلاف جو عزائم رکھتا ہے اور اس کی بڑھتی ہوئی قوت کو غیر مؤثر بنانے کے لیے اس کے اردگرد حصار قائم کرنے کی جو کوشش کر رہا ہے اس میں سنکیانگ کے مسلمانوں کا مسئلہ اس کے لیے ایک مفید ہتھیار ثابت ہو سکتا ہے۔ حالات کی ترتیب بتا رہی ہے کہ امریکہ اس سلسلہ میں منصوبہ بندی کے تقاضوں سے غافل نہیں رہا اور مذکورہ بالا خبروں سے امریکی پروگرام کا بخوبی اندازہ کیا جا سکتا ہے۔

خود راقم الحروف سے بھی اس مسئلہ پر بعض اسلامی تحریکات نے رابطہ قائم کیا اور اسی سال اگست کے دوران لندن میں اس سلسلہ میں ایک مختصر سی مشاورت بھی ہوئی جہاں کچھ دوستوں کا تقاضہ تھا کہ سنکیانگ کے مسلمانوں میں آزادی کے روز افزوں جذبات کو فروغ دینے کے لیے کام کیا جائے۔ مگر میں نے ان سے عرض کیا کہ ہم اس حوالہ سے بہت نازک صورتحال سے دوچار ہیں اور کوئی قدم پوری طرح سوچے سمجھے بغیر اٹھانے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ اس لیے کہ ایک طرف سنکیانگ میں بسنے والے اسی لاکھ کے لگ بھگ مسلمانوں کا مسئلہ ہے جو جہاد افغانستان اور وسطی ایشیا کی مسلمان ریاستوں کی آزادی کے تناظر میں ان سے پیچھے نہیں رہنا چاہتے اور اپنے تشخص اور آزادی کے لیے مسلسل قربانیاں دے رہے ہیں۔ وہاں آزادی کے لیے مزاحمتی تحریک پیدا ہو چکی ہے، ہزاروں افراد ہجرت کر کے قازقستان اور دوسرے ملکوں میں جا چکے ہیں، خود پاکستان بلکہ اسلام آباد میں بھی ہم نے ایسے نوجوان دیکھے ہیں جو سنکیانگ سے تعلق رکھتے ہیں اور ریاستی جبر سے بے بس ہو کر سرحد پار کرنے پر مجبور ہوئے ہیں۔ ان مسلمانوں کی جدوجہد اور قربانیوں سے قطعی طور پر لاتعلق رہنا شرعی اصولوں اور غیرت و حمیت کے تقاضوں کے منافی ہے۔ مگر دوسری طرف امریکہ اور اس کے حواری بعض دیگر ممالک اس صورتحال سے فائدہ اٹھانے اور اس کے ذریعہ چین کا شیرازہ بکھیرنے کے لیے بالکل تیار بیٹھے ہیں جو موجودہ حالات میں نہ صرف پاکستان کے وجود اور اس کی سالمیت و وحدت کے لیے انتہائی نقصان دہ بات ہوگی بلکہ عالمی سطح پر بھی امریکہ کی واحد اجارہ داری کو مستحکم کرنے اور اس کے نتیجہ میں عالم اسلام کی تباہی پھیلانے کا باعث بن سکتی ہے۔ اس لیے یہ بات ہمارے لیے ممکن نہیں ہے کہ کسی ایسی تحریک کو سپورٹ کریں جو عالم اسلام کے مقابلے میں امریکہ کی قوت میں اضافہ پر منتج ہوتی ہو۔

راقم الحروف نے ان دوستوں سے عرض کیا کہ میرے نزدیک چین کے حکمرانوں کو اس طرف توجہ دلانے کی ضرورت ہے کہ وہ اس خطہ کے معروضی حقائق کا سامنا کریں اور سنکیانگ کے مسئلہ کو کسی ایسی حکمت عملی کے ساتھ حل کریں کہ وہاں کے مسلمان محرومی کے احساس سے نجات حاصل کرلیں اور امریکہ کو موقع نہ ملے کہ وہ اس مسئلے سے فائدہ اٹھا کر چین کے خلاف کوئی نیا محاذ گرم کر سکے۔

جہاں تک پاکستان کے دینی حلقوں کا تعلق ہے، ایک تاریخی حقیقت کی طرف چین کے محترم حکمرانوں کی توجہ دلانا ضروری سمجھتا ہوں کہ کمیونسٹ ہونے کے ناطے سے ہمارے نزدیک روس اور چین میں کوئی فرق نہیں تھا اور کمیونزم کے دونوں فلسفے ہمارے نقطۂ نظر سے یکساں کفر کی حیثیت رکھتے تھے۔ لیکن روس کے عزائم توسیع پسندانہ تھے اور اس نے ہمیشہ پاکستان کے مقابلہ میں بھارت کو سپورٹ کیا جبکہ چین نے اپنے کمیونزم کے فلسفہ کو اپنی سرحدوں تک محدود رکھا اور پاکستان کو دوستی کی فضا فراہم کی۔ اس لیے پاکستان کے دینی حلقوں کی کمیونزم کے خلاف جدوجہد میں ان کا ہدف ہمیشہ روس رہا جبکہ چین کے خلاف پاکستان کی کسی دینی جماعت نے کبھی کوئی تحریک نہیں چلائی جو اس بات کا تاریخی ثبوت ہے کہ پاکستان کے دینی حلقے معروضی حالات کا مکمل ادراک رکھتے ہیں بلکہ دوست اور دشمن کی پہچان سے بھی بہرہ ور ہیں۔ مگر تالی کبھی ایک ہاتھ سے نہیں بجتی اور اب وقت آگیا ہے کہ چین کے حکمران اور دانشور معروضی حالات اور مستقبل کے خطرات کا صحیح طور پر اندازہ کریں اور جنوبی اور وسطی ایشیا کے مسلمانوں کے مذہبی جذبات کا احساس کرتے ہوئے افہام و تفہیم کے ساتھ امریکی یلغار کا راستہ روکنے کے لیے مشترکہ حکمت عملی کا راستہ اپنائیں کیونکہ دونوں کا مفاد اور بقا اب اسی میں ہے۔

   
2016ء سے
Flag Counter