قرآن کریم سے ترک تعلق کی مختلف صورتیں

سورۃ الفرقان کی آیت ۳۰ میں اللہ تعالیٰ نے قیامت کے روز حشر کے میدان میں اللہ تعالیٰ کی عدالت میں جناب نبی کریمؐ کی طرف سے دائر کی جانے والی ایک درخواست کا ذکر فرمایا ہے کہ اس روز جبکہ ظالم و فاسق لوگ اپنی بداعمالیوں پر حسرت اور بے بسی کے ساتھ اپنے ہاتھوں کو دانتوں میں چبائیں گے اور اپنی اس کوتاہی کا حسرت کے ساتھ تذکرہ کریں گے کہ اے کاش! ہم نے رسول اکرمؐ کی راہ اختیار کی ہوتی اور فلاں فلاں کے نقش قدم پر نہ چلے ہوتے۔ اس روز آنحضرتؐ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں عرض کریں گے کہ ’’اے میرے رب! میری اس قوم نے قرآن کریم کو مہجور بنا دیا تھا‘‘ ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۵ ستمبر ۱۹۹۹ء

اقوام متحدہ کا منشور اور اسلامی نظام ۔ تضادات پر ایک نظر

جس دور میں اقوام متحدہ کا یہ منشو رمنظور کیا گیا تھا بہت سے مسلمان ممالک غلامی اور محکومیت کی زندگی بسر کر رہے تھے اور عالمی سطح پر امت مسلمہ کو (جغرافیائی طور پر آزادی کی) یہ حیثیت حاصل نہیں تھی جو اب حاصل ہے۔ اور اس کے بعد نصف صدی کے دوران ان پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی بہہ چکا ہے اور عالمی منظر تبدیل ہوگیا ہے۔ اس لیے اگر اقوام متحدہ حالات کی تبدیلی کا ادراک نہیں کرے گی اور عالم اسلام کے بڑھتے ہوئے اسلامی رجحانات کا احترام کرنے کی بجائے اسے اپنے خلاف حریف سمجھتی رہے گی تو بالآخر خود اس کے لیے اپنا وجود قائم رکھنا مشکل ہو جائے گا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۳ دسمبر ۱۹۹۸ء

برطانیہ کی ختم نبوت کانفرنسیں ۔ توقعات اور نتائج

ان ختم نبوت کانفرنسوں میں ہونے والی گفتگو کا مواد اور انداز بھی وہی روایتی یعنی موچی دروازے اور لیاقت باغ والا ہوتا ہے جس سے پاکستان، بھارت اور بنگلہ دیش سے آکر آباد ہونے والے حضرات کا ’’ٹھرک‘‘ تو پورا ہو جاتا ہے اور وہ بہت محظوظ ہوتے ہیں کہ کافی عرصہ کے بعد انہیں اپنے محبوب خطباء کے خطابات سننے اور پرانی یادیں تازہ کرنے کا موقع مل جاتا ہے لیکن یہاں پیدا ہونے اور پروان چڑھنے والے نوجوانوں کے پلے کچھ نہیں پڑتا۔ اس لیے ان اجتماعات میں نوجوانوں کی شرکت کا تناسب نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۹ اگست ۱۹۹۹ء

حکیم محمد سعید شہیدؒ اور مولانا محمد عبد اللہ شہیدؒ

گزشتہ روز ایک قومی اخبار میں کے پی آئی کے حوالہ سے وفاقی وزیرداخلہ چودھری شجاعت حسین کا یہ اعلان نظر سے گزرا کہ اسلام آباد کی مرکزی جامع مسجد کے سابق خطیب مولانا محمد عبد اللہ شہیدؒ کے قاتلوں کی گرفتاری یا نشاندہی پر حکومت کی طرف سے پانچ لاکھ روپے بطور انعام دیے جائیں گے۔ یہ پڑھ کر بے حد تعجب ہوا کہ حکومت کو دو ماہ بعد مولانا عبدا للہ شہیدؒ اچانک کیسے یاد آگئے؟ شہیدِ پاکستان حکیم محمد سعیدؒ اور مولانا عبد اللہؒ ایک ہی روز دہشت گردوں کا نشانہ بنے تھے، دونوں پاکستان کے محب وطن شہری اور شریف انسان تھے اور اپنی اپنی خدمات کے دائروں میں دونوں ممتاز حیثیت کے مالک تھے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۳۰ دسمبر ۱۹۹۸ء

نفاذِ اسلام اور مروجہ نوآبادیاتی سسٹم

قرآن و سنت کو دستوری طور پر ملک کا سپریم لاء قرار دینے کی صورت میں بعض حلقوں کو یہ خدشہ ہے کہ اگر اس پر عملدرآمد ہوا تو ملک کا پورا نظام تبدیل ہو جائے گا۔ چنانچہ ایک دانشور نے اس کا اظہار ایک بڑے خطرے کی صورت میں کیا ہے جس کے جواب میں ہم نے عرض کیا کہ قرآن و سنت کی بالادستی یا شریعت کے نفاذ سے نظام ہی کی تبدیلی تو مقصود ہے۔ ورنہ اگر نظام جوں کا توں رہنا ہے تو پھر اسلام اور شریعت کی بات کرنے یا سرے سے پاکستان کے نام سے الگ ملک کے قیام ہی کی کوئی ضرورت نہیں تھی ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۳ نومبر ۱۹۹۸ء

چیمپئنز ٹرافی – ۱۸۰ نفلوں کی مار

مجھے کھیلوں سے اس حد تک کبھی دلچسپی نہیں رہی جو معمولات اور ضروری کاموں پر اثر انداز ہو مگر بہرحال کچھ نہ کچھ تعلق ضرور چلا آرہا ہے۔ لڑکپن کے دور میں گکھڑ میں میرے ہم عمر دوستوں نے کرکٹ کی دو ٹیمیں بنا رکھی تھیں یونین کلب اور آزاد کلب کے نام سے۔ ان میں سے ایک کے کپتان محمد یونس بھٹی اب مرحوم ہو چکے ہیں جبکہ دوسری ٹیم کے کپتان محمد عبد اللہ خالد بقید حیات ہیں۔ دونوں میرے ذاتی دوستوں میں سے تھے، اللہ تعالیٰ بھٹی صاحب مرحوم کی مغفرت فرمائیں اور خالد صاحب کی صحت و عافیت کے ساتھ تادیر سلامت رکھیں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۰ جون ۲۰۱۷ء

امریکہ بنام امریکہ

امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی پالیسیوں اور اقدامات کے خلاف تین امریکی ریاستوں کے جذبات اور اپیل کورٹ کے مذکورہ فیصلے سے اندازہ ہوتا ہے کہ امریکی عوام بالخصوص وہاں کے سنجیدہ حلقوں کو وہ تبدیلیاں ہضم نہیں ہو رہیں جو امریکہ کے موجودہ عالمی کردار کے تسلسل کی وجہ سے سامنے آرہی ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ برطانوی استعمار کے خلاف آزادی کی جنگ کی قیادت کرنے والے جنرل واشنگٹن نے آزادی کےبعد امریکہ کے صدر کی حیثیت سے امریکی حکومت کو تلقین کی تھی کہ وہ دوسرے ممالک کے معاملات میں دخل اندازی سے گریز کرے اور خود کو امریکہ کے قومی معاملات تک محدود رکھے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۷ جون ۲۰۱۷ء

مسئلہ رؤیت ہلال پر دو تجاویز

رمضان المبارک نصف سے زیادہ گزر گیا ہے اور عید الفطر کی آمد آمد ہے۔ عید کے موقع پر رؤیت ہلال کا مسئلہ پھر حسب سابق زیر بحث آئے گا اور میڈیا حسب عادت اس سلسلہ میں اختلاف کی من مانی تشہیر کرے گا۔ اس حوالہ سے ہم اپنا موقف مختلف مواقع پر اس کالم میں تحریر کر چکے ہیں کہ مرکزی رؤیت ہلال کمیٹی ایک باقاعدہ ریاستی ادارہ ہے، اسے مجاز اتھارٹی کے طور پر پاکستان میں سب جگہ تسلیم کیا جانا چاہیے اور اگر اس کے کسی فیصلے سے اختلاف ہو تو اسے اختلاف کے درجہ میں رکھتے ہوئے صحیح طریقہ سے حل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے مگر کوئی متوازی فیصلہ کرنے سے گریز کرنا چاہیے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۵ جون ۲۰۱۷ء

حضرت مولانا سید علی میاںؒ کی یاد میں ایک نشست

۲۵ فروری کو مرکزی جامع مسجد گوجرانوالہ میں الشریعہ اکادمی کی طرف سے مفکر اسلام حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندویؒ کی یاد میں ایک تعزیتی ریفرنس کا اہتمام کیا گیا جس میں شہر کے سرکردہ علماء کرام اور اہل دانش نے شرکت کی۔ اسلامیہ کالج گوجرانوالہ کے ریٹائرڈ پرنسپل پروفیسر محمد عبد اللہ جمال نے نشست کی صدارت کی جبکہ گوجرانوالہ تعلیمی بورڈ کے شعبہ امتحانات کے نگران پروفیسر غلام رسول عدیم مہمان خصوصی تھے، انہوں نے تفصیل کے ساتھ ندوۃ العلماء لکھنو کی ملی خدمات اور مولانا سید ابوالحسن علی ندویؒ کی زندگی کے مختلف پہلوؤں پر اظہار خیال کیا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۶ مارچ ۲۰۰۰ء

’’دی لیڈر‘‘ اور قومی نصاب کمیٹی

جہاں تک نظم کو نصاب سے خارج کرنے کا تعلق ہے یہ خوش آئند بات ہے کہ وزارت تعلیم نے ملک کے کروڑوں عوام اور ارباب علم و دانش کے جذبات کا احترام کیا ہے اور اس کا بروقت نوٹس لیا ہے۔ لیکن اس سلسلے میں جو عذر پیش کیا گیا ہے وہ محل نظر ہے اور اس نے ایک اور نازک سوال کھڑا کر دیا ہے کہ کیا ہمارے ہاں قومی نصاب سازی کا معیار یہی ہے کہ کسی صاحب کو انٹرنیٹ سے اپنے ذوق کی کوئی نظم مل گئی اور اس نے اسے اٹھا کر نصاب میں شامل کر دیا؟ ظاہر ہے کہ یہ کتاب ’’قومی نصاب کمیٹی‘‘ میں منظوری کے مراحل سے گزری ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۳ دسمبر ۲۰۰۵ء

Pages

2016ء سے
Flag Counter