ایران عراق جنگ اور اسلامی اتحاد کانفرنس
گزشتہ ہفتہ کے دوران اسلام آباد میں ’اسلامی اتحاد کانفرنس‘‘ کے عنوان سے منعقد ہونے والے ایک اجتماع میں ایران عراق جنگ کے حوالہ سے عراق کو جارح قرار دیتے ہوئے اس کی مذمت کی گئی ہے۔ اس کانفرنس کا افتتاح صدر پاکستان جنرل محمد ضیاء الحق نے کیا جبکہ مبینہ طور پر اس اجتماع میں ایرانی حکومت کے ذمہ دار حضرات شریک ہوئے مگر دوسرے فریق عراق کو کانفرنس میں شرکت کی دعوت نہیں دی گئی۔ اس پس منظر میں جارح قرار دینے کی قرارداد انصاف کے مسلمہ اصولوں کے منافی اور جانبدارانہ ہی قرار پا سکتی ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر
وفاقی وزیر مذہبی امور حاجی سیف اللہ خان کا ارشاد
مذہبی امور کے وفاقی وزیر حاجی سیف اللہ خان نے گزشتہ روز لاہور میں دارالعلوم حزب الاحناف کے سالانہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’پاکستان میں شریعت کے نفاذ کا نہیں بلکہ اس پر عملدرآمد کا مسئلہ ہے کیونکہ شریعت کا نفاذ اس روز سے شروع ہو گیا تھا جب یہ آیت نازل ہوئی کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے دین کو مکمل کر دیا ہے۔ اس دن کے بعد سے آج تک ہر مسلمان کا کام یہ ہے کہ قرآن و سنت کے مطابق کام کرے اور دوسروں کو بھی تلقین کرے۔‘‘ (روزنامہ نوائے وقت، لاہور ۔ ۱۹ جون ۱۹۸۷ء) ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر
امریکہ میں قادیانیت اور یہودیت کا نفوذ
مجھے نیویارک پہنچے آج ساتواں روز ہے۔ محترم مولانا میاں محمد اجمل قادری بھی تین روز قبل یہاں پہنچ چکے ہیں۔ میاں صاحب حج بیت اللہ کی سعادت حاصل کر کے کنیڈا چلے گئے تھے اور ایک ہفتہ تک وہاں مختلف شہروں میں مسلمان راہنماؤں اور شہریوں سے ملاقاتیں کرنے کے علاوہ انہوں نے متعدد اجتماعات سے خطاب کیا اور اس کے بعد امریکہ کے دارالحکومت واشنگٹن اور ایک اور شہر مشی گن سے ہوتے ہوئے نیویارک پہنچے ہیں اور اب ہم دونوں مل کر اس وسیع و عریض شہر کے مختلف حصوں میں دوستوں سے ملاقاتیں اور اجتماعات سے خطاب کر رہے ہیں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر
فضلاء کرام کے چند تربیتی اجتماعات میں شرکت
گزشتہ دو تین روز وفاقی دارالحکومت اور اس کے اردگرد گزارنے کا موقع ملا۔ باگڑیاں گکھڑ کے مدرسہ کے استاد مولانا محمد جاوید اور ان کے ساتھی محمد عمران رفیق سفر تھے۔ ہماری بڑی ہمشیرہ محترمہ اچھڑیاں ہزارہ سے آنکھوں کے آپریشن کے لیے چھوٹی ہشیرہ کے پاس جھلم آئی ہوئی ہیں جہاں ان کی بیمار پرسی اور دونوں بہنوں سے ملاقات کی۔ ہمارے بھانجے اور جامعہ حنفیہ جھلم کے مہتمم مولانا حافظ محمد ابوبکر صدیق حال ہی میں برطانیہ کے سفر سے واپس آئے ہیں، ان سے وہاں کے حالات معلوم کیے اور مختلف امور پر تبادلۂ خیالات ہوا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر
مولانا ولی رازی کی تصنیف ’’ہادیٔ عالم‘‘ پر ایک نظر
کہا جاتا ہے کہ عباسی دور کے ایک معروف خطیب سحبان بن وائل اپنی زبان کی لکنت کی وجہ سے بعض حروف روانی کے ساتھ نہیں بول سکتے تھے لیکن جب وہ خطبہ کے لیے کھڑے ہوتے تو گھنٹوں بولتے چلے جاتے مگر ان کے خطاب میں وہ حروف نہیں ہوتے تھے اور ایسے حروف کو استعمال میں لائے بغیر وہ اپنا مافی الضمیر پوری مہارت اور اعتماد کے ساتھ بیان کر دیا کرتے تھے۔ اس وجہ سے ان کی خطابت و فصاحت ضرب المثل بن گئی تھی اور بڑے بڑے فصیح اللسان خطباء کو اپنے وقت کا سحبان کہا جاتا تھا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر
صدر پاکستان جناب غلام اسحاق خان کے نام کھلا خط
گزارش ہے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کا قیام اسلامی معاشرہ کی تشکیل اور قرآن و سنت کے احکام کے عملی نفاذ کے لیے عمل میں لایا گیا تھا اور دستورِ پاکستان میں غیر اسلامی قوانین کے خاتمہ اور اسلامی احکام کی عملداری کا وعدہ کیا گیا ہے۔ لیکن ملک کے معاشی ڈھانچے کو سود کی لعنت سے ابھی تک نجات نہیں دلائی جا سکی جسے قرآن و سنت میں واضح طور پر حرام قرار دیا گیا ہے۔ اسلامی نظریاتی کونسل نے، جو ایک آئینی ادارہ ہے، ۱۹۸۰ء میں سودی نظام کے خاتمہ اور بلاسود بینکاری کے عملی ڈھانچہ پر مشتمل ایک تفصیلی رپورٹ حکومت کو پیش کر دی تھی ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر
بڑھتے ہی چلو کہ اب ڈیرے منزل پہ ڈالے جائیں گے
جمعیۃ علماء اسلام پاکستان کے زیر اہتمام ’’کل پاکستان نظام شریعت کانفرنس‘‘ ۴ مارچ ۱۹۸۸ء کو مینارِ پاکستان کے وسیع گراؤنڈ میں منعقد ہو رہی ہے اور مرکزی دفتر میں موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق ملک کے چاروں صوبوں، آزاد کشمیر اور آزاد قبائل میں شریعت اسلامیہ کی بالادستی کے علمبردار پورے جوش و خروش کے ساتھ کانفرنس میں شرکت کے لیے تیاریاں کر رہے ہیں۔ مینارِ پاکستان کا یہ گراؤنڈ وہی تاریخی میدان ہے جس میں ۱۹۴۰ء میں مسلم لیگ نے دو قومی نظریہ کے تحت مسلمانوں کے لیے الگ وطن کے مطالبے پر مشتمل ’’قراردادِ پاکستان‘‘ منظور کی تھی ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر
جمعیۃ علماء اسلام کی جدوجہد کا نظریاتی اور تاریخی پس منظر
قراردادِ مقاصد کی منظوری اور علماء کے ۲۲ دستوری نکات سامنے آنے کے بعد قوم کو یہ توقع ہوگئی تھی کہ اب نفاذِ اسلام کی طرف عملی پیش رفت ہوگی لیکن خان لیاقت علی خانؒ کی شہادت اور علامہ شبیر احمدؒ عثمانی کی وفات کے بعد بات آگے نہ بڑھ سکی۔ مسلم لیگ اس کے بعد اقتدار کی کشمکش اور کرسیوں کی اکھاڑ پچھاڑ میں مصروف ہوگئی اور جمعیۃ علماء اسلام نئی قیادت کی تلاش میں سرگرداں رہی۔ ۱۹۵۷ء میں حضرت مولانا احمد علی لاہوریؒ، حضرت مولانا عبد اللہ درخواستی مدظلہ، مولانا مفتی محمودؒ اور مولانا غلام غوث ہزارویؒ نے آگے بڑھ کر جمعیۃ علماء اسلام پاکستان کی زمامِ کار کو اپنے ہاتھ میں لیا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر
مرزا طاہر احمد اور امریکی امداد
مرزا طاہر احمد نے اس مقصد کے لیے لندن کو اپنی عالمی تحریک کا مرکز بنایا لیکن برطانیہ میں مقیم مسلمانوں کی بیداری اور سالانہ عالمی ختم نبوت کانفرنس کے مسلسل انعقاد کی وجہ سے برطانوی رائے عامہ کو اپنے ڈھب پر لانے میں اسے کامیابی نہ ہوئی۔ البتہ جنیوا کے بین الاقوامی انسانی حقوق کمیشن سے ایک قرارداد منظور کرانے میں قادیانی گروہ کامیاب ہوگیا جس میں قادیانیوں کے بارے میں مذکورہ آئینی و قانونی اقدامات کو انسانی حقوق کے منافی قرار دیتے ہوئے حکومت پاکستان پر ان کی واپسی کے لیے زور دیا گیا تھا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر
قانونی نظام یا ایمان فروشی کی مارکیٹ؟
قائم مقام وفاقی محتسب اعلیٰ جناب جسٹس شفیع الرحمان نے اپنے ایک حالیہ مقالہ میں موجودہ قانونی صورتحال کا نقشہ کھینچتے ہوئے کہا ہے کہ ’’قوانین اور طریق کار ایماندار اور بے ایمان دونوں طرح کے افراد پر برابر وزن ڈالتا ہے جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ بے ایمان افراد کو مدد ملتی ہے جبکہ ایماندار افراد کو کنارہ کشی کرنی پڑتی ہے یا مفاہمت کرنی پڑتی ہے یا پھر اس سارے عمل میں ایماندار فرد اپنی ایمان داری سے ہی ہاتھ دھو بیٹھتا ہے‘‘۔ (بحوالہ جنگ لاہور ۔ ۳۰ دسمبر ۱۹۸۷ء) ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر