فرقہ ورانہ تخریب کاری اور حکومتی رویہ
امورِ داخلہ کے وزیر مملکت راجہ نادر پرویز نے روزنامہ جنگ لاہور کو انٹرویو دیتے ہوئے انکشاف کیا ہے کہ ’’حکومت کے علم میں لایا گیا ہے کہ تخریب کاروں کے ایک گروہ نے ۱۲ ربیع الاول کے موقع پر ملک میں وسیع پیمانے پر فساد بپا کرنے کا منصوبہ بنا رکھا ہے۔‘‘ (روزنامہ جنگ لاہور ۔ ۳۰ اکتوبر ۱۹۸۷ء) ۔ ملک کے مختلف حصوں میں تسلسل کے ساتھ ہونے والے بم دھماکوں کے پس منظر میں وفاقی وزیر مملکت کا یہ خدشہ اگرچہ کچھ زیادہ خلافِ قیاس نہیں ہے لیکن سوال یہ ہے کہ خود حکومت کا رویہ اس سلسلہ میں کیا ہے؟ مکمل تحریر
شریعت بل پر اتفاق رائے ۔ وزیراعظم محمد خان جونیجو کے نام کھلا خط
گزارش ہے کہ روزنامہ مشرق لاہور ۲۷ جون ۱۹۸۷ء کی اشاعت میں ایک خبر شائع ہوئی ہے جس کے مطابق وفاقی کابینہ نے شریعت بل کے بارے میں عوامی رابطہ کے عنوان سے وزراء کے ملک گیر دوروں کا پروگرام طے کیا ہے اور اس پروگرام کی تکمیل تک سینٹ کے اجلاس کے انعقاد کو مؤخر کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ خبر کے مطابق وزراء کے ان دوروں کا مقصد یہ بیان کیا گیا ہے کہ شریعت بل کو تمام طبقات کے لیے قابل قبول بنایا جائے۔ اس خبر کے حوالہ سے آنجناب کی خدمت میں چند ضروری گزارشات پیش کرنا ضروری سمجھتا ہوں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر
ذکری فتنہ ۔ مولانا محمد الیاس سے انٹرویو
سوال۔ ذکری فتنہ کیا ہے، اس کا آغاز کب ہوا اور اس کا بانی کون تھا؟ جواب۔ ذکری فتنہ نیا نہیں بلکہ بہت پرانا فتنہ ہے، تقریباً ساڑھے چار سو سال قبل نور محمد اٹکی نامی ایک شخص نے اس فتنہ کی بنیاد رکھی۔ اس فتنہ کے پیروکار اسلام کے پانچوں بنیادی ارکان کلمہ، نماز، روزہ، زکوٰۃ، حج اور تمام اسلامی عبادات کے علاوہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ختم نبوت کے منکر ہیں اور نور محمد اٹکی کو نبی، مہدی وغیرہ مانتے ہیں۔ انہوں نے اپنا خود ساختہ کلمہ ’’لا الہٰ الا اللہ نور پاک نور محمد مہدی رسول اللہ‘‘ بنایا ہوا ہے، ان کے نزدیک نماز پڑھنا کفر ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر
سانحۂ مستونگ
اضاخیل پشاور کے ’’صد سالہ عالمی اجتماع‘‘ کے بعد سے اس بات کا خدشہ اور خطرہ مسلسل محسوس ہو رہا تھا کہ کچھ نہ کچھ ہوگا۔ صد سالہ اجتماع کی بھرپور کامیابی اور اس میں دیے جانے والے واضح پیغام نے دنیا کو ایک بار پھر بتا دیا ہے کہ شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندیؒ کا قافلہ دینی و قومی تحریکات کے لیے عدم تشدد پر مبنی پر امن جدوجہد کی پالیسی پر نہ صرف قائم ہے بلکہ آئندہ کے لیے اس نے اس کا تسلسل قائم رکھنے کا عزم نو بھی کر لیا ہے۔ اس لیے خیال تھا کہ تشدد کو اوڑھنا بچھونا بنانے والوں کے لیے اس کو ہضم کرنا مشکل ہوگا اور وہ اپنے غصے کا کہیں نہ کہیں اظہار ضرور کریں گے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر
گلگت کے فسادات اور حکومت کی ذمہ داری
گلگت میں رمضان المبارک کے آخر میں سنی شیعہ کشیدگی میں جو اچانک اضافہ ہوا تھا وہ بالآخر خونریز فسادات پر منتج ہوا اور سینکڑوں افراد کی جانیں ان فسادات کی نذر ہوگئیں۔ سینکڑوں جانوں کی بھینٹ وصول کرنے والے ان فرقہ وارانہ فسادات کے اسباب کیا ہیں اور کون عناصر ان کے ذمہ دار ہیں؟ اس کا جائزہ لینے کے لیے متحدہ سنی محاذ کا ایک وفد اس ہفتہ کے دوران گلگت جا رہا ہے اور اس سلسلہ میں حتمی بات اس وفد کی رپورٹ کے بعد ہی کی جا سکتی ہے۔ تاہم اب تک موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق واقعات کی ترتیب کچھ اس طرح بنتی ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر
مولانا محمد اسلم قریشی کی بازیابی
جہاں تک مولانا محمد اسلم قریشی کی سلامتی اور واپسی کا تعلق ہے اس پر ہر طبقہ کی طرف سے اطمینان کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ ان کی زندگی کے بارے میں جو خدشات مسلسل باعث اضطراب بنے ہوئے تھے وہ دور ہوگئے ہیں مگر آئی جی پولیس کی موجودگی میں پریس کانفرنس سے خطاب کے دوران انہوں نے ازخود روپوش ہونے، اپنے بارے میں عوامی تحریک کا علم ہونے کے باوجود واپس نہ آنے، ایران کی فوج میں بھرتی ہونے اور اچانک واپس آنے کی جو کہانی بیان کی ہے اسے ملک کے دینی و عوامی حلقوں میں بے یقینی اور شکوک و شبہات کی نظر سے دیکھا جا رہا ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر
جمعیۃ علماء اسلام اور جمعیۃ علماء پاکستان کے راہنماؤں میں اہم مذاکرات
۱۳ جولائی ۱۹۸۸ء کو شام پانچ بجے دفتر جمعیۃ علماء پاکستان، سکندر روڈ، لاہور میں جمعیۃ علماء اسلام پاکستان اور جمعیۃ علماء پاکستان کے مرکزی راہنماؤں کے درمیان اہم مذاکرات ہوئے۔ اس گفتگو میں جمعیۃ علماء اسلام پاکستان کی طرف سے قائد جمعیۃ مولانا سمیع الحق، مولانا زاہد الراشدی (راقم الحروف)، مولانا فداء الرحمان درخواستی اور میاں محمد عارف ایڈووکیٹ، جبکہ جمعیۃ علماء پاکستان کی طرف سے صدر جمعیۃ مولانا شاہ احمد نورانی، مولانا عبد الستار خان نیازی، شاہ فرید الحق، ریٹائرڈ جنرل کے ایم اظہر اور دیگر راہنما شریک ہوئے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر
دینی مدارس کا جرم؟
لاہور کے بعض اخبارات میں شائع ہونے والی اس خبر سے ملک بھر کے دینی حلقوں میں غم و غصہ اور احتجاج و اضطراب کی لہر دوڑ گئی ہے کہ حکومت نے تمام دینی مدارس کو قومی تحویل میں لینے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ اس خبر کے مطابق اصولی طور پر اس امر کا فیصلہ ہوچکا ہے اور اب صرف یہ بات فیصلہ طلب ہے کہ قومی تحویل میں لینے کے بعد دینی مدارس کا نظام وفاقی حکومت چلائے گی یا صوبائی حکومتوں کو یہ ذمہ داری قبول کرنا ہوگی؟ خبر میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ابتدائی مرحلہ میں پنجاب کے اڑھائی سو مدرسے قومیائے جائیں گے اور مدارس کو اول دوم اور سوم تین مدارج میں تقسیم کیا جائے گا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر
سانحۂ مکہ اور ایرانی راہنما کی دھمکی ۔ حکومتِ پاکستان اپنی پوزیشن واضح کرے
جہاں تک سانحۂ مکہ کے بارے میں ایرانی حکومت کے موقف کی وضاحت کا تعلق ہے، ایرانی راہنماؤں کو اس کا پورا پورا حق حاصل ہے اور وہ دنیا کے کسی بھی حصہ میں اس حق کو استعمال کرنے کا جواز رکھتے ہیں۔ لیکن ’’جرم بخشا نہ جائے گا‘‘ کے انتقامی لہجے کے ساتھ ’’حج کی بھرپور تیاری‘‘ اور ’’جلوس نکالنے‘‘ کا الٹی میٹم کسی طرح بھی گزشتہ واقعات کی وضاحت نہیں کہلا سکتا بلکہ یہ ایک کھلی دھمکی ہے جو پاکستان کی سرزمین پر دی گئی ہے۔ پاکستان کے عوام اور دینی حلقے حرمین شریفین کی مقدس سرزمین پر ایرانی عازمین کے سیاسی مظاہروں کو پسندیدگی کی نظر سے نہیں دیکھتے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر
اسلام کی تشریح اور پیپلز پارٹی ۔ علماء کرام توجہ فرمائیں!
پیپلز پارٹی کی چیئرپرسن بے نظیر بھٹو نے پولیٹیکل پارٹیز ایکٹ میں ترامیم کے خلاف سپریم کورٹ میں جو آئینی پٹیشن دائر کر رکھی ہے اس پر سپریم کورٹ کے گیارہ رکنی فل بینچ نے گیارہ روز بحث کے بعد فیصلہ محفوظ کر لیا ہے۔ رٹ پٹیشن کے دوران بے نظیر بھٹو کے وکیل اور پیپلز پارٹی کے راہنما جناب یحییٰ بختیار نے دیگر متعلقہ امور کے علاوہ نظریۂ پاکستان کے حوالہ سے اسلام کی تعبیر و تشریح کے بارے میں اپنی پارٹی کا نقطۂ نظر بھی عدالت کے سامنے پیش کیا ہے جو بلاشبہ اس اہم اور نازک مسئلہ پر پیپلز پارٹی کے باضابطہ اور ذمہ دارانہ موقف کی حیثیت رکھتا ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر