ٹویٹس

۷ اپریل ۲۰۲۲ء

مسجد آیا صوفیہ استنبول میں اٹھاسی برس کے بعد باجماعت نماز تراویح باعثِ مسرت ہونے کے ساتھ اس زمینی حقیقت کا اظہار بھی ہے کہ امتِ مسلمہ کو اس کے شرعی احکام اور دینی ماحول سے محروم کرنے کوششیں بالآخر ناکامی کا شکار ہوتی ہیں جو ایسا کرنے والوں کو اپنے رویے پر نظرثانی کی دعوت دیتی ہیں۔

۶ اپریل ۲۰۲۲ء

آج میری آنکھوں کا دوبارہ آپریشن حاجی مراد آئی ہسپتال گوجرانوالہ میں ہوا ہے جو بحمد اللہ کامیاب رہا ہے، جبکہ مجھے کچھ عرصہ تک آنکھوں کے مسلسل استعمال سے گریز کا مشورہ دیا گیا ہے، احباب سے خصوصی دعاؤں کی درخواست ہے۔

۵ اپریل ۲۰۲۲ء

دوست پوچھتے ہیں کہ موجودہ حالات میں ہم کس کے ساتھ ہیں؟ گذارش ہے کہ ہم اسلامی جمہوریہ پاکستان کی (۱) نظریاتی اساس (۲) قومی خود مختاری (۳) اور دستور کی بالادستی کے ساتھ ہیں، اس حوالے سے جو خطرہ کسی طرف سے بھی دکھائی دے گا، آواز بلند کرتے رہیں گے ان شاء اللہ تعالٰی۔

۲ اپریل ۲۰۲۲ء

مولانا مفتی منیب الرحمٰن کا ارشاد ہے کہ ملک دستوری بحران کی طرف بڑھ رہا ہے، جبکہ پردہ سکرین کے پیچھے کی یہ سرگوشیاں اب غیرمحسوس نہیں رہیں کہ ’’نیا قومی بیانیہ‘‘ شاید اس کے بغیر تشکیل نہ دیا جا سکے۔ دستور اور نظریہ پاکستان کے ماننے والوں کو اپنے کردار کا تعین ابھی سے کرلینا چاہیے۔

یکم اپریل ۲۰۲۲ء

امریکہ بہادر کی اس ’’خوبی‘‘ کا اعتراف کرتے ہوئے اس کا شکرگزار ہونا چاہیے کہ وہ کسی جگہ مداخلت پر خود کو خفیہ نہیں رہنے دیتا اور کسی نہ کسی طرح یہ تاثر دے دیتا ہے کہ سب کچھ اسی کے کہنے پر ہو رہا ہے، اس سے نظریاتی کارکنوں کو صورتحال سمجھنے اور محتاط ہو جانے میں راہنمائی مل جاتی ہے۔

۲۸ مارچ ۲۰۲۲ء

اسرائیل کی سرحدی حدود اربعہ کیا ہیں؟ یہ بات ابھی تک طے نہیں ہو سکی۔ مسلم دنیا اور فلسطینی عوام کی اکثریت نے سرے سے فلسطین کی تقسیم کو ہی قبول نہیں کیا، جبکہ اقوامِ متحدہ نے اسرائیل اور فلسطین کے درمیان جو سرحدات اپنی قراردادوں میں طے کر رکھی ہیں انہیں اسرائیل نے کبھی تسلیم نہیں کیا۔

۲۵ مارچ ۲۰۲۲ء

بخاری میں ہے کہ حضرت عمرؓ کی اہلیہ ان کے دورِ خلافت میں فجر اور عشاء کیلئے مسجد جایا کرتی تھیں۔ انہیں اپنی طبعی غیرت کی وجہ سے یہ پسند نہیں تھا لیکن منع نہیں کرتے تھے۔ اس کی وجہ حضرت عبد اللہ بن عمرؓ کے بقول نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد تھا کہ اللہ کی بندیوں کو مسجد جانے سے نہ روکا کرو۔

۲۰ مارچ ۲۰۲۲ء

اسلام آباد میں منعقد ہونے والی مسلم وزرائے خارجہ کانفرنس کو باہمی سیاسی کشمکش میں اپنے اپنے مقاصد کے حصول کا ذریعہ بنانا یا اسے روکنے کی دھمکی دینا غلط بات ہے، حکومت اور اپوزیشن کو سنجیدگی سے کام لیتے ہوئے معزز مہمانوں کے احترام کے تقاضے پورے کرنے چاہئیں۔

۱۶ مارچ ۲۰۲۲ء

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ناموس اور اسلامی تعلیمات و روایات کو جس طرح بین الاقوامی پروپیگنڈے اور کردارکشی کا سامنا رہتا ہے، ہمارے دانشوروں کی دینی و ملی ذمہ داری ہے کہ اس کا مقابلہ ویسے ہی کریں جیسے غزوۂ خندق کے بعد خطابت اور شاعری کی جنگ میں حضرت حسانؓ، کعبؓ، عبد اللہؓ اور ثابتؓ نے کیا تھا۔

۱۳ مارچ ۲۰۲۲ء

یوکرین پر روسی حملہ کے جواز یا عدمِ جواز کی بحث سے قطع نظر اس پر مغربی قوتوں کے مجموعی ردعمل سے یہ بات ایک بار پھر واضح ہو گئی کہ اہلِ مغرب کے استعماری رجحانات اور نسلی عصبیت کا گراف ابھی تک ایک صدی قبل کی سطح پر قائم ہے اور وہی ان کا اصل عالمی ایجنڈا ہے۔

۱۰ مارچ ۲۰۲۲ء

حضراتِ صحابہ کرامؓ حضورؐ سے دعا کی درخواست کیا کرتے تھے ’’ادع لنا یا رسول اللہ‘‘ اور یہ خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت بھی ہے، ایک مرتبہ حضرت عمرؓ مکہ مکرمہ عمرے کیلئے جانے لگے تو آپؐ نے فرمایا ’’لا تنسنا يا اخی من دعائك‘‘ میر ے بھائی ہمیں اپنی دعا میں نہ بھولنا۔

۶ مارچ ۲۰۲۲ء

علامہ محمد اقبال مرحوم اس اعتبار سے ماضی قریب کے خوش قسمت ترین راہنما ہیں کہ انہیں کم و بیش تمام طبقوں سے یکساں احترام ملا ہے۔ اور ان کا یہ کارنامہ تاریخ کا ایک ناقابل فراموش باب ہے کہ انہوں نے برصغیر کے مسلمانوں کے دلوں میں مدت سے پرورش پانے والے جذبات کو ایک واضح فکر کا رخ دیا۔

۴ مارچ ۲۰۲۲ء

پاکستان کے وزیر اعظم اور ازبکستان کے صدر نے اسلام آباد میں ملاقات کے دوران افغانستان کی حکومت تسلیم کرنے کو ضروری قرار دیتے ہوئے اس کیلئے مہم چلانے کا ارادہ ظاہر کیا ہے جو خوش آئند ہے مگر خود تسلیم کئے بغیر یہ مہم آخر کیسے چلائی جا سکے گی؟ اربابِ اقتدار سے یہ ایک سنجیدہ سوال ہے۔

۳ مارچ ۲۰۲۲ء

اب سے دو دہائیاں قبل عراق پر امریکی حملے کے تناظر میں ملائیشیا کے وزیراعظم مہاتیر محمد نے کہا تھا کہ مسلم دنیا کے حکمران صرف جان، اقتدار اور مفادات بچانے کے حوالے سے پالیسیاں طے نہ کریں بلکہ اپنے ضمیر کی آواز بھی سنیں اور انصاف کے تقاضوں کیلئے خطرات کی پروا کیے بغیر آگے بڑھیں۔

۲۸ فروری ۲۰۲۲ء

حضرت انس بن مالکؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجلس میں تشریف لاتے تو ہمارا جی چاہتا تھا کہ احترام میں اٹھ کھڑے ہوں لیکن ہم ایسا نہیں کرتے تھے ’’لمکان کراھتہ‘‘ کیونکہ آپؐ کو یہ پسند نہیں تھا۔ اس لیے ہمیں بھی محبت و عقیدت کے اظہار میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پسند و ناپسند کا لحاظ رکھنا چاہئے۔

۲۶ فروری ۲۰۲۲ء

حدیثِ نبویؐ کو حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ نے تمام علومِ دینیہ کی اصل اور اساس کہا ہے، اس لیے کہ سب علوم کے چشمے اسی سے پھوٹتے ہیں۔ حتٰی کہ قرآنِ کریم کے الفاظ کے ساتھ ساتھ اس کے معانی معلوم کرنے کا ذریعہ بھی حدیثِ نبویؐ ہی ہے کہ ام المؤمنین حضرت عائشہؓ کا ارشاد ہے ’’کان خلقہ القرآن‘‘۔

۲۳ فروری ۲۰۲۲ء

عالمی قوتیں مسلم دنیا میں اسلامی تعلیمات کو اسی دائرے میں محدود کر دینا چاہتی ہیں جس میں مسیحی ممالک میں مسیحیت کو محدود کر دیا گیا ہے۔ وہ دائرہ عقائد، عبادات اور اخلاقیات کا ہے جن کا تعلق ذاتی شخصی زندگی سے ہے، حتٰی کہ خاندانی زندگی میں بھی مذہب کی عملداری قبول نہیں کی جا رہی۔

۲۲ فروری ۲۰۲۲ء

ہمارے ہاں خلافتِ راشدہ کے صرف اعتقادی پہلو پر کسی حد تک اہلِ تشیع کے ساتھ اختلاف کے تناظر میں بات کی جاتی ہے۔ اس دور کے معاشی و معاشرتی ماحول، مذہبی و سیاسی حقوق، خلفاء کے طرزِ حکومت و زندگی، رفاہی ریاست اور بیت المال کے نظم وغیرہ کا تجزیہ اور بعد کے دور سے تقابل ضروری نہیں سمجھا جاتا۔

۲۱ فروری ۲۰۲۲ء

بعض ہمدرد لوگ اس خواہش کا اظہار کرتے ہیں کہ علماء کرام کو دینی خدمات کیلئے عوامی چندہ پر انحصار کرنے کی بجائے روزگار کا کوئی اور ذریعہ اختیار کرنا چاہیے۔ یہ کہنا ایسے ہی ہے جیسے جج صاحبان عدل و انصاف کیلئے عوامی ٹیکس پر انحصار کرنے کی بجائے کوئی اور ذریعہ معاش اختیار کریں۔

۱۷ فروری ۲۰۲۲ء

اللہ رب العزت اور رسول اللہ ﷺ کی ذاتِ گرامی سے محبت کا اصل تقاضہ یہ ہے ان کے احکام و تعلیمات کے مطابق زندگی گزاری جائے۔ اور محض کسی افواہ کی بنیاد پر اور بغیر کسی تحقیق کے کسی شخص کو جان سے مار دینا ہرگز دین کا تقاضہ نہیں ہے بلکہ قانون کو ہاتھ میں لینا ہی شریعت کے منافی ہے۔

۱۹ فروری ۲۰۲۲ء

حجاب اور نقاب کو ایک عرصہ سے غیر مسلم ممالک خصوصاً مغربی دنیا میں مسلمانوں کی ثقافتی علامت قرار دے کر نفرت اور تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے اور سیکولرازم کے دعویدار مسلم خواتین کو یہ حق دینے کیلئے تیار نہیں ہیں حالانکہ پردہ اور حجاب کی روایت سابقہ آسمانی تعلیمات سے چلی آرہی ہے۔

۱۷ فروری ۲۰۲۲ء

اللہ رب العزت اور رسول اللہ ﷺ کی ذاتِ گرامی سے محبت کا اصل تقاضہ یہ ہے ان کے احکام و تعلیمات کے مطابق زندگی گزاری جائے۔ اور محض کسی افواہ کی بنیاد پر اور بغیر کسی تحقیق کے کسی شخص کو جان سے مار دینا ہرگز دین کا تقاضہ نہیں ہے بلکہ قانون کو ہاتھ میں لینا ہی شریعت کے منافی ہے۔

۱۴ فروری ۲۰۲۲ء

ہمارے ہاں بدقسمتی سے یہ مزاج عام ہوتا جا رہا ہے کہ ہم مخالف کا موقف اس سے نہیں پوچھتے بلکہ اس کی تحریروں اور بیانات میں سے اپنی مرضی کی باتیں سامنے رکھ کر خود طے کرتے ہیں، اور اگر وہ جواب میں اپنے موقف کی وضاحت کرنا چاہے تو اسے یہ حق دینے کیلئے تیار نہیں ہوتے۔

۹ فروری ۲۰۲۲ء

علماء کرام سے میری گزارش ہوتی ہے کہ ایسے نوجوانوں کو دین کے بارے میں اپنے اشکالات کے آزادانہ اظہار کا موقع دیاکریں جن کا دینی اور عصری علوم پر مطالعہ ہوتا ہے۔ اور گمراہی کا طعنہ دینے یا فتوٰی کا لہجہ اختیار کرنے کی بجائے دلیل اورمنطق کیساتھ انکی کنفیوژن دور کرنے کی کوشش کیا کریں۔

۶ فروری ۲۰۲۲ء

پہلے زمانوں میں مسجد کا یہ کردار بھی رہا ہے کہ محتاجوں اور معذوروں کی ضروریات کا مسجد میں خودبخود اہتمام ہو جایا کرتا تھا۔ اگر امام مسجد اور انتظامی کمیٹی اس طرف توجہ دیں تو ویلفیئر اسٹیٹ کا ماحول ریاستی سطح پر نہ سہی، نجی سطح پر ضرور بنایا جا سکتا ہے۔

۵ فروری ۲۰۲۲ء

جغرافیائی محلِ وقوع، آبادی کے تناسب اور عوامی جذبات کی رو سے اہلِ کشمیر کا حق تھا کہ یہ خطہ پاکستان کا حصہ بنے مگر ڈوگرہ راجہ نے ان معروضی حقائق کو نظرانداز کرتے ہوئے بھارت کے ساتھ الحاق کیا جسے کشمیریوں نے تسلیم کرنے سے انکار کرکے مسلح مزاحمت کی اور آزاد کشمیر کا علاقہ حاصل کیا۔

۴ فروری ۲۰۲۲ء

بلوچستان میں دہشت گردی کا حالیہ واقعہ قابلِ مذمت اور امن و استحکام کیلئے قربانی دینے والے جوان قابلِ تحسین ہیں۔ مگر دہشت گردی کے اس تسلسل کو روکنے کیلئے بیرونی ایجنڈے اور مداخلت سے نجات ضروری ہے جو دستورِ پاکستان کی بالادستی اور قومی خودمختاری کی بحالی کے بغیر ممکن نظر نہیں آتا۔

۳ فروری ۲۰۲۲ء

قرآن و سنت کیوں لازم و ملزوم ہیں؟ حضرت علیؓ نے حضرت عبد اللہ بن عباسؓ کو خوارج کے پاس مذاکرات کیلئے بھیجتے ہوئے فرمایا کہ قرآن سے (براہ راست) استدلال نہ کرنا کیونکہ اس کے الفاظ میں مختلف معانی کا احتمال ہوتا ہے، سنتِ رسولؐ کی بنیاد پر بات کرنا وہ اس سے فرار کا راستہ نہیں پائیں گے۔

۳۱ جنوری ۲۰۲۲ء

دینی تعلیم قوم کی ایک لازمی ضرورت ہے، اسے جب اسلامی جمہوریہ پاکستان کے ریاستی نظامِ تعلیم نے پورا نہیں کیا تو قوم نے اس کیلئے کوئی اور راستہ نکالنا ہی تھا۔ اس لیے غیر سرکاری سطح پر دینی مدارس کی موجودگی اور ان کے ساتھ قوم کے ہر طبقہ کے بھرپور تعاون کی بڑی وجہ یہی ہے۔

۳۰ جنوری ۲۰۲۲ء

سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی نے نہ صرف معاشی، صنعتی اور تجارتی شعبوں میں خلافتِ عثمانیہ کے حریفوں کو سبقت دلا دی تھی بلکہ عسکری مہارت اور اسلحہ سازی میں بھی انہوں نے خلافتِ عثمانیہ کو آثارِ قدیمہ کی صف میں کھڑا کر دیا تھا۔ اس کا نتیجہ وہی ہوا جس کی عالمِ اسباب میں توقع کی جا سکتی ہے۔

۲۷ جنوری ۲۰۲۲ء

بھارت کی سپریم کورٹ نے ایک ذیلی عدالت کا یہ فیصلہ برقرار رکھا ہے کہ شادی کے جھوٹے وعدے پر قائم کیا گیا جنسی تعلق ریپ شمار کیا جائے گا۔ جبکہ قرآن کریم نے ’’ان تبتغوا باموالکم محصنین غیر مسافحین‘‘ (النساء ۲۴) فرما کر اس معاملہ میں مرد اور عورت دونوں کیلئے محفوظ ترین راستہ بتایا ہے۔

۲۶ جنوری ۲۰۲۲ء

مسلم تاریخ میں سنجیدہ علمی اختلاف کو ہمیشہ سنا گیا ہے مگر توہین و استہزا اور استحقار و استخفاف کو کبھی برداشت نہیں کیا گیا۔ اس حوالہ سے میں پنڈت دیانند سرسوتی کی کتاب ’’ستیارتھ پرکاش‘‘ کا متعدد بار مطالعہ کرچکا ہوں مگر راج پال کی ’’رنگیلا رسول‘‘ پڑھنے کا کبھی حوصلہ نہیں ہوا۔

۲۵ جنوری ۲۰۲۲ء

بہتر روزگار اور مستقبل کی تلاش میں غیر مسلم ممالک کا رخ کرنے والے مسلمانوں کو یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ ان سے پہلے کتنے مسلمان ان ملکوں میں گئے اور وہاں کی معاشرت میں جذب ہو کر اپنا مذہبی اور تہذیبی امتیاز کھو بیٹھے اور ان کی نسلوں کی مسلمانوں کی حیثیت سے پہچان ختم ہو کر رہ گئی ہے۔

۲۲ جنوری ۲۰۲۲ء

کیپیٹلزم اور کمیونزم وغیرہ کی کشمکش میں انصاف اور فطرت کا راستہ صرف اسلامی نظامِ حیات ہے جو اعتدال اور توازن کے ساتھ انسانی معاشرہ کے تمام طبقات کے حقوق و مفادات کے تحفظ کی ضمانت دیتا ہے، لیکن اصل چیلنج اسلام کو ایک اجتماعی نظام کی حیثیت سے پیش کر کے اس کی افادیت ثابت کرنے کا ہے۔

۲۱ جنوری ۲۰۲۲ء

آج کی گلوبل سوسائٹی میں دین و مذہب کے بارے میں ایک نقطۂ نظر آپ کو یہ ملے گا کہ مذہب کی افادیت سے انکار نہیں ہے، یہ انسانی اخلاق و عادات کو سنوارنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے، لیکن مذہب غیب سے کوئی رہنمائی نہیں بلکہ عقائد، عبادات اور اخلاقیات کا یہ مجموعہ انسان ہی کا وضع کردہ ہے۔

۱۷ جنوری ۲۰۲۲ء

’’سیکولرازم‘‘ کو مذہبی معاملات میں عدمِ مداخلت کا عنوان دیا جاتا ہے کہ اسکا مقصد تمام مذاہب کے پیروکاروں کو مذہبی آزادیاں فراہم کرنا ہے، لیکن انٹرنیشنل اسٹیبلشمنٹ کی پالیسیوں کا تسلسل بتاتا ہے کہ اسکے پیچھے اصل مقصد اسلامی ثقافت و روایات کے عالمی سطح پر دوبارہ اظہار کو روکنا ہے۔

۱۵ جنوری ۲۰۲۲ء

’’دل زندہ جس سے ہے وہ تمنا تمہی تو ہو‘‘ کو طرح مصرعہ بنا کر شعراء نے ایک محفل میں نعتیہ کلام پیش کیا تو شہید جالندھری مرحوم نے اسے ’’آپؐ ہی تو ہیں‘‘ سے تبدیل کرتے ہوئے کہ یہ اندازِ خطاب بہت بے تکلفانہ ہے میرا جی نہیں چاہتا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اس لہجے میں مخاطب ہوں۔

۱۳ جنوری ۲۰۲۲ء

لفظ ربوٰا کے بارے میں بے معنی تکرار کا سلسلہ ابھی تک جاری ہے کہ اس سے مراد کون سا سود ہے اور بینکوں کا سود اس میں شامل ہے یا نہیں۔ حالانکہ قرآنِ کریم نے جب ربوٰا کو حرام قرار دیا تو نبی کریم ﷺ نے اس وقت تجارت اور قرض وغیرہ کے تمام شعبوں میں جو بھی سود جاری تھا سب ختم کر دیا تھا۔

۹ جنوری ۲۰۲۲ء

دنیائے انسانیت کو دینی تعلیمی اداروں کے اس کردار کا معترف ہونا چاہیئے کہ وہ آسمانی تعلیمات اور وحیٔ الٰہی کے مستند ذخیرے کی حفاظت اور نسل در نسل منتقلی کی ذمہ داری کامیابی سے نبھاتے چلے آ رہے ہیں۔ اور یہی آج کے عالمی تناظر میں دینی مدارس کا درست تعارف ہے۔

۸ جنوری ۲۰۲۲ء

السلام علیکم ورحمۃ اللہ، میرا ٹویٹ اکاؤنٹ اس کے سوا کوئی نہیں ہے اور میرے نام سے باضابطہ حوالے کے بغیر اس کے علاوہ کسی طرف سے بھی کوئی بات جاری ہو تو میں اس کا ذمہ دار نہیں ہوں، احباب اس کا خیال رکھیں۔

۷ جنوری ۲۰۲۲ء

پاکستانی مسلمان بھارت کیساتھ دشمنی کا اظہار اس لیے نہیں کرتے کہ وہ کافر اکثریت کا ملک ہے، اگر ایسا ہو تو ان کے جذبات چین وغیرہ کے بارے میں بھی اسی طرح کے ہونے چاہئیں۔ ہمارے خیال میں اسکی اصل وجہ مسئلہ کشمیر کے حل میں مسلسل تاخیر اور مشرقی پاکستان کی علیحدگی میں بھارت کا کردار ہے۔

۵ جنوری ۲۰۲۲ء

مغربی فلسفہ کے مطابق کسی چیز کے جائز یا ناجائز ہونے میں صرف نفع اور نقصان ہی بنیاد ہے جس کا فیصلہ سوسائٹی نے خود کرنا ہے۔ جبکہ آسمانی تعلیمات کے مطابق نفع و نقصان سے قطع نظر اللہ تعالٰی جسے حلال قرار دیں وہ حلال اور جسے حرام قرار دیں وہ حرام ہے، اور روزہ اس کی بہترین مثال ہے۔

۲ جنوری ۲۰۲۲ء

بھٹو مرحوم نے دستور میں پاکستان کی اسلامی نظریاتی شناخت قائم رکھتے ہوئے نفاذ اسلام کا عہد کیا، تحفظ ختم نبوت کا دیرینہ مسئلہ حل کیا، مسلم سربراہ کانفرنس منعقد کرکے عالم اسلام کو وحدت کا پیغام دیا، اور عالمی دباؤ کو نظرانداز کر کے ایٹمی توانائی کے حصول میں ملی حمیت کا مظاہرہ کیا۔

۳۰ دسمبر ۲۰۲۱ء

مسلم سلطنتوں کے حکمرانوں کا یہ ذوق رہا ہے کہ وہ اصحابِ علم ودانش اور اربابِ فن وحکمت کی حوصلہ افزائی کے طریقے نکالتے رہتے تھے۔ لیکن مسلم حکومتوں کا موجودہ تناظر اس قسم کے ذوق سے نہ صرف خالی نظر آتا ہے بلکہ اس کے برعکس حوصلہ شکنی حتٰی کہ کردارکشی کے رجحانات بھی سامنے آتے رہتے ہیں۔

۲۵ دسمبر ۲۰۲۱ء

روس کے صدر ولادیمیر پیوٹن نے توہینِ رسالت کو اظہارِ رائے کی آزادی تسلیم کرنے سے انکار کر کے مسلمانوں سمیت تمام مذاہب کے پیروکاروں کے جذبات کی ترجمانی کے ساتھ ساتھ انصاف کے مسلّمہ اصولوں کی پاسداری کی ہے جس پر وہ ہم سب کے شکریہ کے مستحق ہیں۔

۲۱ دسمبر ۲۰۲۱ء

اسلامی تعاون تنظیم (OIC) کے اسلام آباد اجلاس میں افغان قوم کیلئے جن احساسات و جذبات کا اظہار کیا گیا ہے وہ خوش آئند مگر ناکافی ہے۔ اصل ضرورت امارتِ اسلامی افغانستان کو باقاعدہ طور پر تسلیم کرتے ہوئے ’’افغان جہاد‘‘ کے فطری اور منطقی نتائج کے حصول میں ان کے ساتھ سنجیدہ تعاون کی ہے۔

۱۹ دسمبر ۲۰۲۱ء

پاکستان اپنی داخلی اور خارجی مشکلات سے نجات حاصل کر کے امن و سلامتی، ترقی و استحکام اور وحدت و خودمختاری کی حقیقی منزل ہمکنار ہو۔ اس کی خواہش تو ہم سب کرتے ہیں لیکن اپنے انفرادی اور اجتماعی رویوں کی اصلاح کا راستہ اختیار کرنے کیلئے تیار نہیں ہیں۔

۱۶ دسمبر ۲۰۲۱ء

کسی بھی ملک میں شہری اور سیاسی حقوق دستور کی بنیاد پر طے ہوتے ہیں جو اس ملک کے باشندوں کے درمیان ’’سوشل کنٹریکٹ‘‘ کی حیثیت رکھتا ہے۔ اگر کوئی فرد یا گروہ دستور کو تسلیم کرنے پر تو آمادہ نہ ہو لیکن ’’حقوق‘‘ حاصل نہ ہونے کا ڈھنڈورا دنیا بھر میں پیٹتا چلا جائے تو اس کا کیا حل ہے؟

۱۳ دسمبر ۲۰۲۱ء

اقوام متحدہ کو بہت سے مسلم ممالک نے بااثر مغربی قوتوں کی وجہ سے مجبورًا تسلیم کیا ہوا ہے ورنہ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے منشور کی بعض دفعات قرآن و سنت اور اسلامی تعلیمات سے صریحاً متصادم ہیں اور سلامتی کونسل کے مستقل ارکان اور ویٹو پاور میں مسلم دنیا کی نمائندگی بالکل نہیں ہے۔

۷ دسمبر ۲۰۲۱ء

شہزادہ چارلس نے ایک خطاب میں اپنے دانشوروں کو یہ مشورہ دیا تھا کہ اسلام کو بطور نظامِ زندگی اور متبادل سسٹم کے اسٹڈی کریں لیکن ایسا کرتے ہوئے دو باتوں کی طرف مت دیکھیں، ایک یہ کہ ہمارے بڑوں نے اسلام کے بارے میں کیا کچھ کہا ہے، دوسرا یہ کہ اس وقت مسلمان کیسے نظر آرہے ہیں۔

Pages

Flag Counter