۲۹ ستمبر ۲۰۲۱ء
سنت رسولؐ اور جماعت صحابہؓ کو دین کی تعبیر و تشریح کا حتمی معیار تسلیم کر لینے کے بعد کسی ایسی تحریف کا راستہ کھلا نہیں رہ جاتا جس پر چل کر یہود و نصاریٰ کی طرح قرآن و سنت کو من مانے معانی اور خود ساختہ تعبیر و تشریح کا جامہ پہنایا جا سکے۔ یہی ’’اہل السنۃ والجماعۃ‘‘ کا معنٰی ہے۔
۲۷ ستمبر ۲۰۲۱ء
عوام کے ووٹوں سے منتخب ہونے والی حکومت شریعتِ اسلامیہ اور دستور کو نظر انداز کر کے کسی قانون سازی کی مجاز نہیں ہے۔ مغرب کے نزدیک یہ بات پارلیمنٹ کی خودمختاری (ساورنٹی) کے منافی ہے اور وہ مسلمانوں کو اس سے دستبردار کرانے کیلئے لگاتار اقدامات کر رہا ہے۔
۲۶ ستمبر ۲۰۲۱ء
ہر قوم اور طبقہ میں اعتدال پسند لوگ بھی ہوتے ہیں اور شدت پسند بھی۔ اگر اعتدال و توازن کی قوتیں اپنا کردار ادا کرتی رہیں اور پیش آمدہ مسائل و مشکلات کو مطلوبہ توجہ ملتی رہے تو صورتحال قابو میں رہتی ہے، ورنہ شدت پسندوں کو آگے آنے کا موقع ملتا ہے جس سے بگاڑ پیدا ہوتا ہے۔
۲۴ ستمبر ۲۰۲۱ء
انسانی سماج کی گاڑی مرد و عورت کے ’’دو پہیوں‘‘ کے توازن پر چل رہی ہے۔ ان کی مثال بجلی کی دو تاروں کی طرح ہے جو ایک دوسرے کے بغیر بیکار ہیں، ساتھ ساتھ چلتی ہیں مگر نظم و قاعدہ کے بغیر ایک دوسرے کو چھو بھی جائیں تو تباہی کا سبب بن جاتی ہیں۔ یہی توازن انسانی سماج کا حسن و امتیاز ہے۔
۲۳ ستمبر ۲۰۲۱ء
اسلام نے عورت اور مرد کے میل جول کی حدود متعین کی ہیں اور پردے و حجاب کے ضابطے مقرر کیے ہیں جن کی پابندی بہرحال ضروری ہے۔ ان دائروں کا لحاظ کرتے ہوئے عورت ملازمت، کاروبار اور کمائی کے دیگر ذرائع اختیار کر سکتی ہے جن کی شریعت میں ممانعت نہیں ہے۔
۲۲ ستمبر ۲۰۲۱ء
مغرب اپنے ذہن سے وحی اور پیغمبر کو اتار چکا ہے اور اس کی وجہ یہ سمجھ آتی ہے کہ مغرب کے پاس نہ وحی اصل حالت میں موجود ہے اور نہ ہی پیغمبروں کے حالات و تعلیمات کا کوئی مستند ذخیرہ اسے میسر ہے۔ البتہ مسلمانوں سے مغرب کی یہ توقع ایک سراب کے پیچھے بھاگنے کے سوا کوئی معنویت نہیں رکھتی۔
۲۱ ستمبر ۲۰۲۱ء
امارتِ اسلامی افغانستان کو اِدھر اُدھر کے مشوروں اور فارمولوں کی یلغار کی بجائے اپنے ایجنڈے پر سکون سے عمل کے مواقع درکار ہیں اور ان کی خیرخواہی یہی ہے کہ انہیں آزادی کے ساتھ کام کا موقع دے کر نتائج کا انتظار کیا جائے کیونکہ عمل سے پہلے نتیجے کا مطالبہ انصاف کی بات نہیں ہے۔
۱۹ ستمبر ۲۰۲۱ء
افغانستان میں ہتھیار کی جنگ ہارنے کے بعد مغربی قوتیں ڈپلومیسی کی جنگ میں بھی دفاعی پوزیشن پر کھڑی نظر آ رہی ہیں۔ طالبان ترجمان نے یہ کہہ کر بلّا سنبھال لیا ہے کہ امریکہ کے ساتھ دشمنی حالتِ جنگ میں تھی اب صورتحال مختلف ہو گئی ہے۔ وقت مغرب کے جواب کا منتظر ہے۔
۱۸ ستمبر ۲۰۲۱ء
یورپی پارلیمنٹ نے افغانستان سے مغربی افواج کے انخلا کو اجتماعی ناکامی قرار دیا ہے اور روسی صدر پیوٹن نے افغانستان کے اثاثے منجمد نہ کرنے اور طالبان حکومت کے ساتھ مل کر کام کرنے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ اس کے بعد امارتِ اسلامی کو تسلیم کرنے میں تاخیر کا کیا جواز باقی رہ جاتا ہے۔
۱۴ ستمبر ۲۰۲۱ء
مغرب افغان قوم پر اپنا نظام و فلسفہ اور تہذیب و ثقافت بذریعہ جبر اور دباؤ مسلط کرنے کی بجائے اسلامی شورائی نظام کو آزادانہ فضا میں کام کرنے دے تو یہ آج کے دور میں انسانی سماج کے لیے بہتر اور فطری نظام کی تلاش کا پیش خیمہ ثابت ہو گا۔
۱۲ ستمبر ۲۰۲۱ء
’’فزت و رب الکعبۃ‘‘ فرماتے ہوئے نبی اکرم ﷺ اپنے رب کے حضور پیش ہوئے تو آپؐ کی تعلیمات صرف ہدایات و فرمودات پر مبنی نہیں تھیں بلکہ ان کے مطابق ایک نوتشکیل شدہ سماجی ڈھانچہ دنیا کے سامنے موجود تھا جسے آپؐ کی تربیت یافتہ جماعتؓ نے ایک صدی کے اندر دنیا کے تین براعظموں تک پھیلا دیا۔
۱۱ ستمبر ۲۰۲۱ء
وزیر خارجہ جناب شاہ محمود قریشی نے فرمایا ہے کہ ’’طالبان دنیا کی توقعات پر پورا اتریں‘‘۔ ہم بھی ان کی تائید کرتے ہیں لیکن عقیدہ و ثقافت اور قومی روایات سے دستبرداری بھی اگر دنیا کی توقعات کا حصہ ہے تو اس کی حمایت نہیں کی جا سکتی۔
۸ ستمبر ۲۰۲۱ء
امارتِ اسلامی افغانستان نے حکومت کا اعلان کر دیا ہے جو شخصی، خاندانی یا جمہوری نہیں بلکہ روس اور چین طرز کی پارٹی حکومت نظر آتی ہے جنہیں عالمی سطح پر تسلیم کیا جاتا ہے، چنانچہ دنیا کو طالبان کی حکومت تسلیم کرنے میں بھی کوئی جھجھک نہیں ہونی چاہیے۔
۷ ستمبر ۲۰۲۱ء
آرمی چیف محترم کا یہ ارشاد بالکل بجا ہے کہ ’’پاکستان کی بقا اور استحکام جمہوریت میں ہے‘‘۔ مگر جمہوریت لارڈ ماؤنٹ بیٹن والی نہیں بلکہ ان سے پاکستان کا چارج لینے والے قائد اعظم محمد علی جناح مرحوم کی جنہوں نے قران و سنت اور مسلم تہذیب و ثقافت کو اپنی جمہوریت کی اساس قرار دیا تھا۔
۵ ستمبر ۲۰۲۱ء
آزادی کا سب سے پہلا تقاضہ پاکستان کی تکمیل ہے: (۱) نظریاتی و تہذیبی تکمیل کہ جب قرآن و سنت کی تعلیمات کی عملداری قائم ہوگی۔ (۲) جغرافیائی و علاقائی تکمیل کہ جب کشمیریوں کو استصواب رائے کا حق ملے گا۔ (۳) معاشی و معاشرتی تکمیل کہ جب عالمی اداروں کے تسلط اورسودی نظام سے نجات ملے گی۔
۴ ستمبر ۲۰۲۱ء
قرآنِ کریم نے اپنا دوسرا نام ’’الفرقان‘‘ بتایا ہے جبکہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ ’’الفاروق‘‘ کے لقب سے معروف ہیں، دونوں کا معنٰی حق و باطل میں فرق کرنے والا بنتا ہے۔ قرآنِ کریم کے حوالے سے حضرت عمر فاروقؓ کا زندگی بھر کا طرزِعمل اس لفظی مناسبت کی گواہی دیتا ہے۔
۲ ستمبر ۲۰۲۱ء
اسلام کا آفاقی پیغام دنیا تک پہنچانے کے دو راستے ہیں: ایک یہ کہ زبان، قلم اور ابلاغ کے ذریعہ سے لوگوں کو اسلام اور اس کی تعلیمات سے متعارف کرایا جائے، اور دوسرا یہ کہ اسلامی معاشرت کا ایسا عملی ماحول اور نمونہ پیش کیا جائے جسے دیکھ کر لوگ متاثر ہوں اور اسلام کے حلقہ بگوش ہو جائیں۔
۳۱ اگست ۲۰۲۱ء
انگریزی اور کمپیوٹن میں مہارت، لابنگ اور بریفنگ کی صلاحیت، مغربی فکروفلسفہ سے آگاہی، دنیا کی معروضی صورتحال سے واقفیت، مستقبل کی علمی و فکری ضروریات کا ادراک اور دیگر حوالوں سے دینی مدارس کے نصاب و نظام میں ضروری اضافوں کے ہم خود داعی ہیں لیکن ان کے دینی و تعلیمی کردار کی قیمت پر نہیں۔
۳۰ اگست ۲۰۲۱ء
ہماری غلامی کا آغاز ایسٹ انڈیا کمپنی کے اثرونفوذ کے ذریعے ہوا تھا جو جنوبی ایشیا پر برطانوی استعمار کے تسلط تک جا پہنچا۔ آج پھر مغرب و مشرق کی ملٹی نیشنل کمپنیاں ہمارے سروں پر منڈلا رہی ہیں اور ہم عالمی معاہدات اور اداروں کے ذریعے قائم ہونے والے بیرونی تسلط کے ایک نئے دورسے گزر رہے ہیں۔
۲۹ اگست ۲۰۲۱ء
جب سوویت یونین کے خاتمہ کے بعد نیٹو کے سیکرٹری جنرل سے پوچھا گیا کہ نیٹو کا قیام ہی سوویت یونین کے خلاف عمل میں لایا گیا تھا تو اب سوویت یونین کے عالمی منظر سے ہٹ جانے کے بعد اسے باقی رکھنے کا کیا جواز رہ گیا ہے؟ تو انہوں نے بے ساختہ کہہ دیا تھا کہ ’’ابھی اسلام باقی ہے‘‘۔
۲۸ اگست ۲۰۲۱ء
امریکہ بہادر نے دوسری جنگ عظیم کے بعد ’’عالمی پولیس مین‘‘ کا کردار سنبھالا تھا تب سے مغرب کے استعماری ایجنڈے کی قیادت اسی کے ہاتھ میں ہے اور اس نے تائیوان، کوریا، جاپان، ویتنام، افغانستان، عراق، شام، فلسطین، بوسنیا، صومالیہ اور دیگر خطوں میں جو کردار ادا کیا ہے وہ کسی سے مخفی نہیں ہے۔
۲۷ اگست ۲۰۲۱ء
مولانا سید ابوالحسن علی ندویؒ نے خلافتِ عثمانیہ کے مرکز ترکی میں سیکولرازم کے غلبہ کے اسباب میں سے ایک سبب یہ ذکرکیا ہے کہ علماء اورصوفیاء کی گروہی مصروفیات نے ان کے اوقات اورتوجہات کو اس طرح جکڑ رکھا تھا کہ ملک و ملت کے اجتماعی مسائل پر غور کرنے کے لیے ان کے پاس وقت نہیں بچا تھا۔
۲۶ اگست ۲۰۲۱ء
مسئلہ کشمیرایک زندہ تنازع ہے، اس کا جو حل بھی کشمیری عوام کی خواہشات اورمسلّمہ حقوق کے مطابق ہوگا اس کا خیرمقدم کیا جائے گا۔ آزادی اورانسانیت کا نام لینے والی تمام اقوام کی ذمہ داری ہے کہ وہ مفادات و تعصبات سے بالاتر ہو کر کشمیریوں کو ان کا جائزحق دلانے کے لیے اپنا اثرورسوخ استعمال کریں۔
۲۵ اگست ۲۰۲۱ء
اسلام وکالت کی ضرورت کو تسلیم کرتا ہے اور حدیث وفقہ کی بیشتر کتابوں میں ’’کتاب الوکالۃ‘‘ کے نام سے مستقل ابواب ہیں جن میں زندگی کے مختلف شعبوں میں وکالت اورنمائندگی کے قوانین وضوابط وضع کیے گئے ہیں، البتہ وکالت کے مروجہ نظام کی بنیاد اسلام کی بجائے نوآبادیاتی عدالتی ڈھانچہ پر ہے۔
۲۴ اگست ۲۰۲۱ء
امریکی اتحاد اپنی بنائی ہوئی افغان فوج کو ’’امارتِ اسلامی افغانستان‘‘ کے خلاف لڑانے کے منصوبہ میں ناکامی کے بعد اب شمال اور جنوب کا قضیہ دوبارہ کھڑا کرنے پر تُل گیا ہے۔ اللہ تعالٰی افغانستان کی وحدت، سلامتی اور امن کی حفاظت فرمائیں، آمین یا رب العالمین۔
۲۳ اگست ۲۰۲۱ء
جنوبی ایشیا میں اسلامی شرعی قوانین تاجِ برطانیہ نے ۱۸۵۷ء کے قبضہ کے بعد منسوخ کیے تھے، جبکہ ترکی کو خلافت و شریعت سے یورپی اتحاد نے فوجی مداخلت کے ذریعے ۱۹۲۴ء میں محروم کیا تھا۔ اس لیے یہ کہنا خلافِ واقعہ ہے کہ امتِ مُسلمہ شرعی قوانین سے خود دستبردار ہو گئی تھی۔
۲۲ اگست ۲۰۲۱ء
اگر ’’امارتِ اسلامیہ افغانستان‘‘ مغربی جمہوریت کی بجائے اسلامی شورائیت کا نظام رائج کرنا چاہتی ہے تو یہ اس کا حق ہے اور اسے اس کا موقع ملنا چاہیے۔ مغرب کا صرف اپنے نظام پر اصرار نظاموں میں آزادانہ مقابلہ کے اصول سے انحراف اور سوسائٹی کے ساتھ ناانصافی ہے۔
۲۱ اگست ۲۰۲۱ء
جنگِ عظیم اول کے بعد برطانیہ اور اتحادی فوجوں نے قوم پرست ترک لیڈروں کو ان شرائط پر حکمران تسلیم کیا کہ وہ ترکی کی حدود میں رہیں گے، خلافت ختم کر دیں گے، ملک میں نافذ اسلامی قوانین منسوخ کر دیں گے، اور ضمانت دیں گے کہ آئندہ نہ اسلامی قوانین نافذ کریں گے اور نہ خلافت بحال کریں گے۔
۲۰ اگست ۲۰۲۱ء
نبی اکرمؐ کا فرمان ہے’’علماء امتی کأنبیاء بنی اسرائیل‘‘ میری امت کے علماء بنی اسرائیل کے انبیاء کرامؑ کی طرح ہیں۔ اور فرمایا ’’کانت بنواسرائیل تسوسھم الانبیاء‘‘ بنی اسرائیل میں سیاسی قیادت انبیاءؑ کیا کرتے تھے۔ چنانچہ علماء ہردورمیں راہنمائی وقیادت کے فرائض سرانجام دیتے آرہے ہیں۔
۱۷ اگست ۲۰۲۱ء
نبی اکرمؐ نے ’’ریاستِ مدینہ‘‘ علاقے پرقبضہ کر کے قائم نہیں کی تھی بلکہ اس کی بنیاد ’’میثاقِ مدینہ‘‘ کے نام سے مختلف قبائل و مذاھب کے درمیان ایک معاہدہ پرتھی، اسی طرح حضرت صدیق اکبرؓ کی خلافت بھی اجتماعی رائے سے تشکیل پائی تھی، اسلامی ریاست و حکومت کے قیام میں اس کا لحاظ رکھنا ضروری ہے۔
۱۶ اگست ۲۰۲۱ء
افغان طالبان کے نمائندہ سہیل شاہین کا یہ کہنا افغانستان کے روشن مستقبل کی نوید ہے کہ ’’ہم آئندہ حکومتی نظام میں تمام افغان طبقات کی شرکت کو یقینی بنائیں گے‘‘۔ افغانستان کی وحدت، قومی ہم آہنگی اور عقیدہ و ثقافت ہی افغان قوم کے روشن مستقبل کا عنوان ہے۔ اللہ تعالیٰ مبارک کریں، آمین۔
۱۴ اگست ۲۰۲۱ء
میں نے اٹلانٹا کا وہ میدان دیکھا ہے جہاں امریکی خانہ جنگی کے دوران جنوب کی ’’کنفڈریٹ اسٹیٹس آف امریکہ‘‘ نے شمال کی ’’یونائیٹڈ اسٹیٹس آف امریکہ‘‘ کے سامنے ہتھیارڈالے تھے جسکے بعد امریکہ کے متحد ہونے کی راہ ہموارہوئی تھی،آج افغانستان میں وہی ہونے جارہاہے توامریکہ کوپریشانی کیوں ہے؟
۱۳ اگست ۲۰۲۱ء
عالمی حلقے اگر افغان عوام کے ساتھ مخلص ہیں تو زمینی حقائق کو تسلیم کریں اور افغانستان کی وحدت، قومی خودمختاری اور تہذیبی شناخت کا احترام کرتے ہوئے ویتنام، کوریا اور جرمنی کی تقسیم والا ڈرامہ دہرانے سے باز رہیں۔
۱۰ اگست ۲۰۲۱ء
شکر گزاری اور ناشکری کے حوالے سے اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ایک ضابطہ یہ بیان فرمایا ہے کہ جو نعمتیں خود انسانوں کی فرمائش پر انہیں دی جاتی ہیں ان کی ناشکری پر زیادہ سخت عذاب ہوتا ہے۔ یاد رہے کہ جنوبی ایشیا کے مسلمانوں نے "پاکستان" جیسی عظیم نعمت اللہ تعالیٰ سے مانگ کر لی تھی۔
۹ اگست ۲۰۲۱ء
سلامتی کونسل افغانستان میں وہی کھیل دہرانا چاہتی ہے جو وہ گذشتہ سات عشروں سے فلسطین اور کشمیر میں کھیل رہی ہے۔ اس ماحول میں مسلم حکمرانوں کے لیے بارگاہِ ایزدی میں ہدایت کی دعا ہی کی جا سکتی ھے، اللھم ربنا آمین۔
۸ اگست ۲۰۲۱ء
مفتی محمد تقی عثمانی اور مولانا فضل الرحمٰن ملک کی محترم ترین شخصیات میں سے ہیں، ان کے بارے میں بعض سرکاری لوگوں کی زبان اورلب ولہجہ قرآنِ کریم کی اس آیت کریمہ کا مصداق نظرآتا ہے: افسدوھا وجعلوا اعزۃ اھلھا اذلۃ (النمل) ایسے حکمران فساد پھیلاتے ہیں اورمعزز لوگوں کی تذلیل کرتے ہیں۔
۶ اگست ۲۰۲۱ء
بعض مغربی اور عالمی حلقوں کے بقول افغانستان میں بزور طاقت قبضہ تسلیم نہیں کیا جائے گا۔ سوال یہ ہے کہ بعض ممالک میں مسلح افواج حکومت پر طاقت کے ذریعے قبضہ کر کے ریفرنڈم کے ذریعے عوامی حمایت حاصل کرتی ہیں جسے تسلیم کر لیا جاتا ہے، یہ اصول افغانستان کے لیے کیوں قابل قبول نہیں ہے؟
۳ اگست ۲۰۲۱ء
حضرت عمر بن عبد العزیزؒ فرماتے ہیں کہ اگر صحابہ کرامؓ کے درمیان مسائل میں اختلاف نہ ہوتا تو یہ بات مجھے اچھی نہ لگتی کیونکہ اس طرح امت ہر مسئلہ میں ایک لگے بندھے راستے پر چلنے کی پابند ہوجاتی۔
یکم اگست ۲۰۲۱ء
حرمین شریفین کی رونقوں اور جزیرۃ العرب کے عقیدہ و ثقافت کے حوالہ سے جو سوالات سامنے آ رہے ہیں وہ صرف سعودی عرب اور عربوں کا معاملہ نہیں بلکہ ملتِ اسلامیہ کا اجتماعی مسئلہ ہے، اکابر علماء کرام اور اہلِ فکر و دانش کو اس صورت حال کا سنجیدگی کے ساتھ جائزہ لینا ہو گا۔
۳۰ جولائی ۲۰۲۱ء
دینی جدوجہد کا سب سے بڑا تقاضہ یہ ہے کہ عوام کے ساتھ ساتھ تحریکی کارکنوں میں بھی دینی علم و شعور اور معاشرتی ادراک و احساس کا ماحول پیدا کیا جائے، ورنہ بے خبری اور سطحی ماحول میں جدوجہد فائدہ کی بجائے نقصان کا باعث بن سکتی ہے۔
۲۷ جولائی ۲۰۲۱ء
ہائر ایجوکیشن کمیشن کا یہ مبینہ اعلان کہ اب ایم اے کی ڈگری قابل قبول نہیں ہو گی اور اس کی بجائے بی ایس سی کا نظام نافذ العمل ہو گا، اس حوالہ سے دینی مدارس کے وفاقوں کی اسناد کا مسئلہ فوری طور پر قابل توجہ ہے اور اس کا کوئی قابل عمل حل سامنے آنا ضروری ہے۔
۲۶ جولائی ۲۰۲۱ء
حضرت یوسف بنوریؒ نے نصابِ تعلیم میں تین طرح کی تبدیلیوں کا ذکر کیا ہے ① تخفیف: ایک ہی موضوع پر ڈھیروں کی بجائے کم سے کم کتب پڑھائی جائیں ② تیسیر: غیر متعلقہ مباحث میں الجھانے کی بجائے نفسِ مضمون کی تفہیم دی جائے ③ ترمیم: غیر ضروری مضامین کی جگہ جدید و مفید علوم شامل کیے جائیں۔
۲۳ جولائی ۲۰۲۱ء
ریاستی واجتماعی امور پر صرف سوسائٹی کا اختیار ہونا چاہیے اور لوگوں کی اکثریت کسی معاملہ میں جو فیصلہ کردے اسے حرف آخر تسلیم کیا جائے، اس فلسفہ کا نام سیکولرازم ہے جو دنیا کی اکثر حکومتوں کے دساتیر کی بنیاد ہے بلکہ اقوام متحدہ کے قواعد اور فیصلوں کی پشت پر بھی اسی کی کارفرمائی ہے۔
۲۰ جولائی ۲۰۲۱ء
حضرت علی کرم اللہ وجہہٗ کا ارشادِ گرامی ہے ’’کُل یوم لا یعصی اللہ فیہ فھو لنا عید‘‘ جس روز اللہ تعالٰی کی نا فرما نی سرزَد نہ ھو وہ ہمارے لیے عید کا دن ہے۔ اللہ تعالیٰ ایسی عید بار بار نصیب فرمائیں، آمین یا رب العالمین۔
۱۸ جولائی ۲۰۲۱ء
اللہ تعالیٰ نے عربوں کو تیل اور سونے کی صورت میں جس دولت سے مالامال کیا اگر یہ ملتِ اسلامیہ کے اجتماعی اور ملّی مفاد میں استعمال ہوتی تو اس کا میدان سائنس وٹیکنالوجی، دفاع ومعیشت، اور تعلیم و تحقیق تھا مگر افسوس کہ عربوں کی دولت نے مسلمانوں سے کہیں زیادہ غیروں کو فائدہ پہنچایا۔
۱۶ جولائی ۲۰۲۱ء
پاکستان میں گزشتہ تہتر سال سے اسلام اور جمہوریت کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے اس کے پیش نظر، یہ تجویز کہ پاکستان کے علماء کرام افغان طالبان کی سیاسی و علمی رہنمائی کریں، ایک ملّی ضرورت ہونے کے باوجود کچھ زیادہ قابلِ عمل نظر نہیں آتی۔
۱۴ جولائی ۲۰۲۱ء
داعی کا کام یہ ہے کہ مخاطب کو مخالف سمجھ کر گفتگو کا آغاز نہ کرے بلکہ اسے یہ احساس دلائے کہ وہ اس کا ہمدرد ہے، اس کی تمام تر کمزوریوں سے آنکھیں بند کرتے ہوئے خیرخواہی کے لہجے میں اسے قریب لانے کی کوشش کرے، اور دنیا کے کسی بھی طبقے یا فرد کو اپنی تگ وتاز کے دائرے سے باہر نہ سمجھے۔
۱۲ جولائی ۲۰۲۱ء
پاکستان نے ایٹمی طاقت بن کر عالم اسلام کی قیادت کی طرف ایک عملی قدم بڑھایا تھا، لیکن قیادت صرف قوت کا نام نہیں ہے، اس کی اصل اساس علم اور اخلاق پر ہوتی ہے۔ جب تک ہم علم و تحقیق اور اخلاقیات کے تقاضے پورا نہیں کرتے صرف ایٹمی قوت کے بل بوتے پر برتری کا محض خواب ہی دیکھ سکتے ہیں۔
۱۱ جولائی ۲۰۲۱ء
وائٹ ہاؤس کے ترجمان کا یہ کہنا کہ بیس سالہ افغان جنگ میں امریکہ عسکری فتح حاصل نہیں کر سکا، قرآن کریم کے اس ارشاد کا تازہ ترین اظہار ہے: ’’کم من فئۃ قلیلۃ غلبت فئۃً کثیرۃً باذن اللہ‘‘ (البقرہ ۲۴۹)
۹ جولائی ۲۰۲۱ء
بجٹ کا اصل مقصد آمدن اوراخراجات میں توازن قائم کرنا ہے کہ قومی وحکومتی اخراجات کیلئے میسر آمدنی کا جائزہ لیکر متوقع کمی کو پورا کرنے کا بروقت انتظام کرلیا جائے۔ ہمارے ہاں بجٹ میں دوسرا پہلو غالب ہوتا ہے اور اصل مقصد کہ آمدنی اوراخراجات میں توازن قائم کیا جائے ہمیشہ مفقود رہتا ہے۔