ٹویٹس

۹ جولائی ۲۰۲۲ء

السلام علیکم ورحمۃ اللہ سب رفقاء بزرگوں دوستوں اور احباب کو عید الاضحٰی مبارک، اللہ پاک امتِ مسلمہ کو آزادی خودمختاری اور نفاذِ شریعت کی حقیقی خوشیوں سے مالامال فرمائیں، آمین یارب العالمین۔

۷ جولائی ۲۰۲۲ء

امارتِ اسلامی افغانستان کے امیر ملّا ھبۃ اللہ اخوندزادہ کا یہ مطالبہ انصاف اور امن کی پکار ہے کہ ہم سب کے ساتھ اچھے تعلقات رکھنا چاہتے ہیں ہمیں تسلیم کیا جائے۔ اس مطالبہ کو نظرانداز کرنا سراسر نا انصافی ہے۔

۵ جولائی ۲۰۲۲ء

مولانا فضل الرحمٰن پر اعتراض کرنے والے اور ان سے امیدیں وابستہ رکھنے والے حضرات یہ مت بھولیں کہ انہیں بھی اسی نظام سے سابقہ ہے جس میں دستور کی بالادستی، قومی خودمختاری، یا نفاذِ اسلام کے کسی فیصلے نے جب بھی ’’ریڈ لائن‘‘ کراس کرنے کی کوشش کی وہ کسی نہ کسی جال میں پھنس کر رہ گیا۔

۴ جولائی ۲۰۲۲ء

امریکی سپریم کورٹ نے عورت کے اسقاطِ حمل کے حق کو محدود کر دیا ہے جو پاپائے روم اور دیگر مذہبی قیادتوں کے اس موقف کی تائید ہے کہ بچے میں جان پڑ جانے کے بعد اسقاط کرنا قتل کے مترادف ہے۔

یکم جولائی ۲۰۲۲ء

جب تک حکومت کی جانب سے کوئی ٹھوس لائحہ عمل سامنے نہیں آتا سودی نظام سے چھٹکارے کے حوالے سے سب اعلانات اور وعدے زبانی جمع خرچ اور وقت گزاری کے ہتھکنڈے ہیں جو ہماری حکومتیں کئی دہائیوں سے استعمال کرتی چلی آ رہی ہیں۔

۲۹ جون ۲۰۲۲ء

چند روز پہلے جناب ڈاکٹر نثار احمد چیمہ نے قومی اسمبلی میں والد محترم مولانا سرفراز خان صفدرؒ کے نام پر گکھڑ منڈی میں فلائی اوور برج تعمیر کرنے کی تجویز پیش کی تھی، گزشتہ روز مولانا اسعد محمود نے اسمبلی میں اس تجویز پر عملدرآمد کا اعلان کیا ہے، ہم اہلِ خاندان دونوں کے شکرگزار ہیں۔

۲۷ جون ۲۰۲۲ء

سودی نظام کے خاتمہ کے لیے وفاقی شرعی عدالت کے فیصلہ کے خلاف اپیل واپس لے کر اس پر عملدرآمد کیلئے قومی کمیشن بنایا جائے تو اس سلسلہ میں مشکلات کے حل کے لیے باہمی تعاون کی صورت بن سکتی ہے، ورنہ عوامی مزاحمت کے سوا اور کوئی راستہ نہیں ہے۔

۲۶ جون ۲۰۲۲ء

اسٹیٹ بینک اور چار نجی بینکوں نے سود کے خلاف وفاقی شرعی عدالت کا فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا ہے اور اسٹیٹ بینک کا کہنا ہے کہ ہم سپریم کورٹ میں راہنمائی حاصل کرنے کیلئے گئے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ عدالتی فیصلہ پر عملدرآمد رکوانا راہنمائی کی کونسی قسم ہے؟

۲۴ جون ۲۰۲۲ء

یہ درست ہے کہ عالمی اداروں کی معاشی جکڑبندی ہماری قومی مجبوری ہے مگر کن لوگوں کی نا اہلیوں اور عیاشیوں کے ذریعے قوم کو اس دلدل میں پھنسایا گیا ہے، کیا اس کا کوئی ٹریک موجود ہے اور کیا اس سے نکلنے کا کوئی راستہ بھی ہے؟ قومی خودمختاری اور دستور کی بالادستی کا مدار اس کے جواب پر ہے۔

۲۲ جون ۲۰۲۲ء

بیرونی اداروں کی ڈکٹیشن پر کی جانے والی قانون سازی کوئی اعزاز کی بات نہیں کہ اس کا کریڈٹ لینے کی کوشش کی جائے۔ قومی معاملات میں بیرونی مداخلت قبول کرنا ایک المیہ ہے جس کے اسباب و عوامل کا جائزہ لینا اور اس سے نجات کی جدوجہد کرنا ہم سب کی ذمہ داری ہے۔

۲۱ جون ۲۰۲۲ء

امارتِ اسلامی افغانستان کے ترجمان کا یہ تقاضہ بالکل بجا ہے کہ ان کے ساتھ کوئی بات یا معاملہ انہیں باضابطہ طور پر تسلیم کر کے حکومتی سطح پر کیا جائے۔ مسلم ملکوں خاص طور پر اسلامی جمہوریہ پاکستان کو یہ تقاضہ نہ صرف پورا کرنا چاہیے بلکہ اپنے طور پر بھی یہ آواز بلند کرنی چاہیے۔

۲۰ جون ۲۰۲۲ء

ملکی تاریخ گواہ ہے کہ دینی سیاسی جماعتوں نے جب بھی باہمی سیاسی اتحاد کا مظاہرہ کیا ہے اس کے ثمرات دیکھے ہیں۔ دینی قائدین اس حقیقت کا ادراک جتنی جلدی کر لیں اچھا ہے کہ ان کی اصل قوت ان کے مل بیٹھنے میں ہے اور جب بھی وہ متحد ہوئے ہیں عوام نے انہیں کبھی مایوس نہیں کیا۔

۱۷ جون ۲۰۲۲ء

بیرونی معاہدات کے بوجھ تلے مسلسل پسے چلے جانے کی بجائے ان کے حصار سے نکلنے کے لیے قومی سوچ اور دینی جدوجہد درکار ہے جو گروہی، طبقاتی اور فرقہ وارانہ دائروں سے بالاتر ہو کر ہی ممکن ہو سکتی ہے۔

۱۴ جون ۲۰۲۲ء

برصغیر پر تاجِ برطانیہ کے قبضہ کے بعد عوامی سطح پر دینی مدارس کے اس نظام کا آغاز اس خوف کی بنا پر ہوا تھا کہ اگر دینی علوم کی تعلیم و تدریس کا انتظام نہ ہو سکا تو یہ رفتہ رفتہ مسلمانوں کی زندگی سے نکل جائیں گے اور علامہ محمد اقبالؒ کے بقول یہ خطہ بھی اسپین بن جائے گا۔

۱۳ جون ۲۰۲۲ء

وزیرخزانہ کی طرف سے پیش کردہ وفاقی بجٹ اور تقریر میں سودی نظام کے بارے میں مکمل خاموشی نے جن سوالات و شبہات کو جنم دیا ہے وہ نظرانداز نہیں کیے جا سکتے۔ حکومت کو سودی نظام کے خاتمے کے لیے وفاقی شرعی عدالت کے حالیہ فیصلہ کے حوالہ سے قوم کو بہرحال اعتماد میں لینا ہو گا۔

۱۱ جون ۲۰۲۲ء

حُبِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر کٹ مرنے کا جذبہ ایمان کی علامت ہے جبکہ حالات کی تبدیلی اور اصلاح کا راستہ اللہ و رسول کی اطاعت اور فرمانبرداری ہے، اللہ تعالی ہمیں دونوں کی کامل توفیق سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔

۹ جون ۲۰۲۲ء

نوآبادیاتی نظام اور اس کے ذریعے روزافزوں بیرونی مداخلت نے قومی و ملکی معاملات کو ایسا الجھا کر رکھا ہوا ہے کہ سلجھنے کا کوئی امکان دکھائی نہیں دیتا۔ اور ہماری دینی قیادتیں ہیں کہ اتحاد و یکجہتی کا راستہ اختیار کرنے کی بجائے ’’معروضی سیاست‘‘ کی دلدل میں مزید دھنستی چلی جا رہی ہیں۔

۸ جون ۲۰۲۲ء

اسلاموفوبیا سے نجات محض سفارتی سرگرمیوں سے ممکن نظر نہیں آتی، اس کیلئے خلافتِ راشدہ کی طرز پر اسلام کی درست تعلیمات اور متوازن کردار دنیا کے سامنے پیش کرتے ہوئے اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں مخالف قوتوں اور لابیوں کے پھیلائے ہوئے گمراہ کن شکوک و شبہات دور کرنا ضروری ہے۔

۷ جون ۲۰۲۲ء

ایٹمی اثاثوں کے ہر قیمت پر تحفظ کیلئے پاک فوج کا اعلان قوم کے دل کی آواز ہے، جبکہ فضا میں ہر طرف منڈلاتے ہوئے گِدھوں پر نظر رکھنا ہم سب کی مِلّی ذمہ داری ہے، اللہ پاک ہمیں ہمت اور توفیق سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔

۶ جون ۲۰۲۲ء

وزیراعظم میاں شہباز شریف کی طرف سے سودی نظام کے بارے میں وفاقی شرعی عدالت کے فیصلہ کی حمایت خوش آئند ہے، اس کے ساتھ عملدرآمد کے اقدامات کا آغاز ہو جائے تو ہم اللہ پاک کی رحمتوں کی توجہ بھی حاصل کر سکیں گے ان شاء اللہ تعالٰی۔

۳ جون ۲۰۲۲ء

قومی خودمختاری، معاشی آزادی اور نفاذِ شریعت کیلئے ہمیں گروہی سوچ، طبقاتی ترجیحات اور باہمی نفرت انگیزی سے بالاتر ہو کر کام کرنا ہوگا کیونکہ بیرونی دخل اندازی کے چور دروازے یہی ہیں جنہیں کنٹرول کیے بغیر ہم کچھ بھی نہیں کر سکیں گے۔

۲ جون ۲۰۲۲ء

خیبر پختونخوا کے بعد بلوچستان کے بلدیاتی انتخابات میں بھی جمعیۃ علماء اسلام کی پیشرفت دینی و نظریاتی حلقوں کیلئے نیک فال ہے، اللہ تعالٰی مسلسل ترقیات اور کامیابیوں سے نوازیں آمین یا رب العالمین۔

۳۱ مئی ۲۰۲۲ء

اسرائیل کے ساتھ تعلقات بین المذاہب ہم آہنگی کے حوالے سے نہیں بلکہ فلسطین پر غاصبانہ قبضہ اور بیت المقدس پر ناجائز تسلط کے تناظر میں ہی طے پائیں گے، اس کے علاوہ کوئی بھی کوشش نقش بر آب ہو گی۔

۲۹ مئی ۲۰۲۲ء

دستور ہمارا متفقہ قومی بیانیہ اور مِلّی وحدت کی علامت ہونے کے ساتھ ساتھ پاکستان کی تہذیبی شناخت اور نظریاتی اساس کا عنوان بھی ہے اس کا احترام و تحفظ ہر شہری کا فریضہ اور عملدرآمد تمام ریاستی اداروں کی ذمہ داری ہے۔

۲۷ مئی ۲۰۲۲ء

قومی اسمبلی نے الیکشن کے بارے میں سابقہ دور میں پاس کردہ قوانین میں ترامیم کی ہیں، ہماری گزارش ہے کہ مساجد و مدارس، خاندانی نظام اور اسٹیٹ بینک کے بارے میں آئی ایم ایف، سیڈا اور فیٹف کی ہدایت پر منظور کیے جانے والے قوانین پر بھی نظرثانی ضروری ہے۔

۲۶ مئی ۲۰۲۲ء

یاسین ملک کو سنائی جانے والی سزا جدوجہدِ آزادی کو کچلتے رہنے کی مسلسل پالیسی کا حصہ ہے، اس پر روایتی مذمتی بیانات سے زیادہ کشمیریوں کی تحریکِ آزادی کو مؤثر طور پر سپورٹ کی ضرورت ہے جو ہماری قومی ذمہ داری بھی ہے اور مِلّی بھی۔

۲۵ مئی ۲۰۲۲ء

سیاسی تنازعات کو پارلیمنٹ یا باہمی مذاکرات کے ذریعے نمٹانا ہی اس کا درست طریقہ ہے۔ اور پُر امن عوامی احتجاج بھی ہر سیاسی جماعت کا حق ہے۔ جبکہ ملک کو خلفشار، بدامنی اور باہمی منافرت سے بچانا سب کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔

۲۱ مئی ۲۰۲۲ء

کالعدم ’’تحریکِ طالبان پاکستان‘‘ اور حکومتِ پاکستان کے درمیان امارتِ اسلامی افغانستان کے ذریعے مذاکرات خوش آئند ہیں اور ہم اسلام، پاکستان اور خطہ کے مفاد میں ان کی کامیابی کیلئے دعا گو ہیں، آمین یا رب العالمین۔

۲۰ مئی ۲۰۲۲ء

سودی نظام کے خلاف عدالتی فیصلہ پر گذشتہ تیس سالوں کے دوران دو دفعہ نظرثانی ہو چکی ہے، اب نظرثانی کی اپیل کا مطلب شریعت و دستور کے حکم سے صاف انکار اور بغاوت ہی سمجھا جائے گا، ہمارا ہمدردانہ مشورہ ہے کہ چند سالہ دنیاوی مفادات کی خاطر آخرت کی ابدی زندگی خراب نہ کریں۔

۱۹ مئی ۲۰۲۲ء

قادیانی حضرات کا اصل المیہ یہ ہے کہ وہ ملتِ اسلامیہ کے اجماعی عقائد سے صریح انحراف کرتے ہوئے بھی زبردستی مسلمان کہلانے پر بضد ہیں، اور دستور کے واضح فیصلہ کو تسلیم کرنے سے انکار بلکہ اس کے خلاف عالمی مہم جوئی کے باوجود مُصر ہیں کہ انہیں تمام حقوق و مراعات غیر مشروط طور پر دی جائیں۔

۱۸ مئی ۲۰۲۲ء

سودی نظام کے بارے میں وفاقی شرعی عدالت کے حالیہ فیصلہ پر عملدرآمد کی راہ ہموار کرنے اور مختلف النوع رکاوٹوں کو دور کرنے کیلئے تمام مکاتبِ فکر کے علماء کرام کو وکلاء اور تاجر برادری کے ساتھ مل کر جدوجہد کرنا ہو گی ورنہ اس نحوست سے چھٹکارہ حاصل ہوتا نظر نہیں آ رہا۔

۱۴ مئی ۲۰۲۲ء

اسرائیل صرف فلسطین کا نہیں پورے عالم اسلام کا مسئلہ ہے۔ اس کے بارے میں کوئی بھی ایسا فیصلہ جو مسلم امہ کے عمومی رجحانات کے خلاف ہوا تب تک مؤثر رہے گا جب تک اس فیصلہ کو نافذ کرنے والی قوتیں مؤثر رہیں گی۔

۱۳ مئی ۲۰۲۲ء

جسٹس اطہر من اللہ کا یہ کہنا بجا ہے کہ سیاسی مقاصد (مفادات) کیلئے مذہب کا استعمال درست نہیں ہے۔ لیکن ملک کے ہر قومی شعبے میں دستور کے مطابق مذہب کو عملی مقام دیئے بغیر اس سے بچنا شاید ممکن نہ ہو گا۔

۱۲ مئی ۲۰۲۲ء

قومی مسائل کو ذاتی، لسانی، نسلی اور طبقاتی دائروں سے بالاتر ہو کر اجتماعی تناظر میں اسلام اور پاکستان کے حوالے سے دیکھنے کی ضرورت ہے ورنہ یہ قوم کے ساتھ ساتھ خود اپنے ساتھ بھی نا انصافی ہو گی۔

۹ مئی ۲۰۲۲ء

سپریم کورٹ بار کے صدر احسن بھون کا یہ کہنا بالکل بجا ہے کہ دستور پاکستان کو قومی نصابِ تعلیم میں شامل ہونا چاہیے۔ مگر اس سے قبل دستور کی نظریاتی اساس قرآن و سنت کو نصابِ تعلیم کا لازمی جزو بنانا ضروری ہے جن سے قوم کو بے خبر رکھنے کیلئے پالیسیوں کا تسلسل ’’آزادی‘‘ کے بعد سے جاری ہے۔

۷ مئی ۲۰۲۲ء

اسلام آباد ہائی کورٹ کے سربراہ جسٹس اطہر من اللہ کا یہ کہنا قوم اور اس کے تمام طبقات کی سنجیدہ توجہ کا مستحق ہے کہ دستور اور اداروں کا احترام نہیں ہو گا تو افراتفری ہو گی، اور یہی منظر اِن دنوں ہر طرف نظر آ رہا ہے، ہر محب وطن شہری کو اس رویے سے نجات کے لیے کردار ادا کرنا ہو گا۔

۵ مئی ۲۰۲۲ء

امریکہ اور اس کے ہمنوا عالمی اداروں کی غلامی سے نجات صرف نعروں سے نہیں ملے گی، اس کیلئے ان تمام عوامل کا جائزہ لے کر ان کا سدباب کرنا ہوگا جنہیں جواز بنا کر اسٹیٹ بینک اور دیگر قومی اداروں کی بیرونی نگرانی ہم پر مسلط کی گئی ہے، جن میں عالمی قرضے اور ان کا ناجائز استعمال سرفہرست ہے۔

۳ مئی ۲۰۲۲ء

امریکی غلامی کا طوق گلے سے اتار پھینکنا ہماری سب سے بڑی قومی ضرورت ہے مگر عرب بہار کے تجربہ کے بعد یہ دیکھنا بھی ضروری ہے کہ بعد میں آنے والی قیادت کہیں پہلے سے بھی زیادہ امریکی جال کا حصہ تو نہیں ہو گی؟

۲ مئی ۲۰۲۲ء

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ! آئیے سب دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں حقیقی عید نصیب فرمائیں، قومی خودمختاری اور دین کی سربلندی کی منزل سے ہمکنار کریں، اور ہماری رمضان المبارک کی عبادات کو قبول فرماتے ہوئے آئندہ بھی خلوص اور ذوق کے ساتھ اس کی توفیق دیتے رہیں، آمین یارب العالمین۔

۳۰ اپریل ۲۰۲۲ء

ترکی کے صدر طیب اردگان کا دورۂ سعودی عرب شدید حبس میں ٹھنڈی ہوا کے جھونکے کی طرح ہے، دونوں ملک تمام تر باہمی تحفظات و شکایات کے باوجود امتِ مسلمہ کی امیدوں کا مرکز ہیں اور ہم عالمِ اسلام کے مسائل پر ان دونوں ملکوں کے ’’ایک پیج‘‘ پر آنے کیلئے مسلسل دعاگو ہیں۔

۲۷ اپریل ۲۰۲۲ء

غداری، نا اہلی اور کرپشن کے باہمی الزامات کی بجائے تمام سیاسی جماعتیں اور قومی ادارے اپنی صفوں میں ان لوگوں کو تلاش کریں جو قوم کو آپس میں لڑانے کیلئے عالمی منصوبہ بندی کے تحت حالات کو ’’نو ٹرن پوائنٹ‘‘ پر لے جانے میں مصروف ہیں، ان کو بے نقاب کرنا ملک و قوم کا اولین مفاد ہے۔

۲۵ اپریل ۲۰۲۲ء

بیت المقدس کے حوالے سے انڈونیشیا کی درخواست پر اسلامی تعاون تنظیم (OIC) کا مجوزہ اجلاس خوش آئند ہے مگر (۱) امریکی ایجنڈے کے حصار (۲) عالمی اداروں میں بے اثر نمائندگی اور (۳) قومی خودمختاری کے فقدان کے ماحول میں مسلم ممالک قراردادیں پاس کرنے کے سوا آخر کیا کر پائیں گے؟

۲۲ اپریل ۲۰۲۲ء

پاکستان میں نفاذِ شریعت کیلئے عسکری جدوجہد کی حمایت نہیں کی جا سکتی اس لیے کہ تمام مکاتبِ فکر کے جمہور علماء اس طریقہ کار کی مخالفت کرتے چلےآ رہے ہیں، جبکہ ’’دہشت گردی‘‘ کے خلاف کاروائیوں کو امریکی ایجنڈے سے ہٹ کر قومی مفاد کے دائرے میں لانا بھی ضروری ہے۔

۲۰ اپریل ۲۰۲۲ء

بخاری شریف میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رمضان کا آخری عشرہ آتا تو ’’شد مئزرہ وأحیا لیلہ وأیقظ أھلہ‘‘ یعنی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عبادت کیلئے کمر کس لیتے تھے، خود بھی راتوں کو جاگتے اور اہلِ خانہ کو بھی ترغیب دیتے تھے۔

۱۹ اپریل ۲۰۲۲ء

اکبر بادشاہ کے ’’دینِ الٰہی‘‘ کی تفصیل مولانا ابو الحسن علی ندویؒ کی ’’تاریخِ دعوت و عزیمت‘‘ میں پڑھی جا سکتی ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ دین کی تعبیر و تشریح کی اتھارٹی حکومتِ وقت کے پاس ہے جو شریعت کا کوئی بھی حکم حسبِ ضرورت تبدیل کر سکتی ہے۔

۱۷ اپریل ۲۰۲۲ء

’’امپورٹڈ گورنمنٹ نامنظور‘‘ کا نعرہ بہت خوش کن ہے مگر جہاں فیٹف (FATF)، سیڈا (CEDA) اور آئی ایم ایف (IMF) کے بھیجے ہوئے امپورٹڈ قوانین ڈکار لیے بغیر ہضم ہو جاتے ہوں وہاں یہ نعرہ دل فریب ہونے کے باوجود عجیب سا لگتا ہے۔

۱۶ اپریل ۲۰۲۲ء

شہزادہ چارلس نے ایک دفعہ کہا تھا کہ اسلام کو تشدد پسند گروہوں کے حوالے سے دیکھنا ایسے ہی ہے جیسے ہم برطانوی معاشرے میں قتل، عصمت دری اور نشہ بازی وغیرہ کے واقعات سے یہاں کی زندگی کے بارے میں رائے قائم کریں، کسی معاشرے کے بارے میں اس کی انتہاؤں کے حوالے سے فیصلہ نہیں کیا جا سکتا۔

۱۴ اپریل ۲۰۲۲ء

عدلیہ، انتظامیہ، پارلیمنٹ اور مسلح افواج وطنِ عزیز کے قابل احترام اور ذمہ دار قومی ادارے ہیں، ان کی کسی بات سے اختلاف یا ان کے کسی معاملہ میں مشورہ تو ہر شہری کا فطری حق ہے مگر ان میں سے کسی کی توہین و تحقیر ملکی مفاد کے خلاف اور قومی وقار کے منافی ہے، اس سے بہرحال گریز ضروری ہے۔

۱۰ اپریل ۲۰۲۲ء

مہر کی رقم کے بارے میں عام طور پر سوال کیا جاتا ہے کہ یہ کتنی ہونی چاہیے؟ عرض ہے کہ اس میں دونوں خاندانوں کی معاشرتی حیثیت کا لحاظ رکھنا چاہیے، رقم اتنی زیادہ نہ ہو کہ خاوند کیلئے بوجھ بن جائے اور اتنی کم بھی نہ ہو کہ بیوی کیلئے اس کی سہیلیوں اور خاندان میں خفت کا باعث بنے۔

۹ اپریل ۲۰۲۲ء

حرمین شریفین میں تراویح کی تعداد نصف کر دینے کی خبر باعثِ تشویش و اضطراب ہے مگر اسے فقہی اختلاف کے بجائے بادشاہی اختیارات کے پس منظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ فقہی اختلاف اس کا باعث ہوتا تو تعداد دس نہیں آٹھ ہوتی، یہ عالمِ اسلام بالخصوص سعودی عرب کے اصحابِ علم کیلئے لمحۂ فکریہ ہے۔

Pages

Flag Counter