ٹویٹس

۱۸ جنوری ۲۰۲۳ء

مذہبی رواداری کا مطلب اپنے مسلک کو چھوڑنا نہیں ہے بلکہ اپنے اپنے مسلک پر قائم رہتے ہوئے دوسروں کے جذبات اور بزرگ شخصیات کا احترام کرنا اور مشترکہ قومی و دینی معاملات میں باہم مل کر جدوجہد کا ماحول پیدا کرنا ہے، اہلِ علم کے اسوہ و تعامل سے ہمیں یہی راہنمائی ملتی ہے۔

۱۷ جنوری ۲۰۲۳ء

کراچی کے بلدیاتی انتخابات میں جماعت اسلامی کی نمایاں پیش قدمی ملک بھر کے دینی حلقوں کیلئے حوصلہ افزا ہے، اللہ کرے باقی دینی جماعتوں کو بھی اپنے زیراثر علاقوں میں اس سمت پیشرفت کا موقع مل جائے۔

۱۵ جنوری ۲۰۲۳ء

مغربی تہذیب وفلسفہ کے علمبردارابھی تک یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ مسلمانوں کا اسلام کیساتھ تعلق صرف رسمی نہیں ہے بلکہ وہ اپنی تمام ترعملی کمزوریوں کے باوجود اسلام کے معاشرتی کردارپر ایمان رکھتے ہیں اورنبی اکرمﷺ کی ذات گرامی کیساتھ انکی عقیدت ومحبت ہردور میں شک وشبہ سے بالاتررہی ہے۔

۱۴ جنوری ۲۰۲۳ء

خواتین کی تعلیم کے حوالے سے اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) کے مطالبہ پر امارت اسلامی افغانستان کا مثبت ردعمل حوصلہ افزا ہے۔ باہمی افہام و تفہیم کے ساتھ افغان قوم کے مسائل و مشکلات میں ان کی راہنمائی اور معاونت امت مسلمہ کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔

۱۲ جنوری ۲۰۲۳ء

اس کٹھن گھڑی میں وطن عزیز کی معقول امداد پر ہم عالمی برادری کے شکرگذار ہیں اور امید رکھتے ہیں کہ یہ امداد اسلامی جمہوریہ پاکستان کے تہذیبی تشخص کے حوالے سے کسی ایجنڈے کے ساتھ مشروط نہیں ہو گی۔

۱۱ جنوری ۲۰۲۳ء

آج مغرب کے ذرائع ابلاغ مسلسل یہ پراپیگنڈا کر رہے ہیں کہ اسلام عورتوں کی تعلیم کا مخالف ہے، حالانکہ مسلمانوں کے ہاں اس دور میں علمی و تحقیقی کام کرنے والی بے شمار خواتین تاریخ کے ریکارڈ پر ہیں جب خود مغرب نے ابھی عورتوں کی تعلیم کے بارے میں سوچا بھی نہیں تھا۔

۹ جنوری ۲۰۲۳ء

جین کے ساتھ امارت اسلامی افغانستان کا معاہدہ ان کی آزادانہ قومی پالیسی کا آئینہ دار ہے اور مسلم ممالک کی سب سے بڑی ضرورت اس وقت یہی آزادانہ قومی طرز عمل ہے اللہ پاک سب کو نصیب فرمائیں آمین یا رب العالمین

۷ جنوری ۲۰۲۳ء

دینی مدارس کے وفاقوں کے ساتھ حکومتی گفت و شنید خوش آئند ہے مگر دینی تعلیم کے بارے میں مغربی ایجنڈے سے فاصلہ قائم رکھنا اس کی کامیابی کیلئے ضروری ہے ورنہ نتائج پہلے سے مختلف نہیں ہوں گے۔

۴ جنوری ۲۰۲۳ء

افغانستان میں امن پاکستان کی ضرورت ہے مگر اس کیلئے زمینی حقائق اور تہذیبی ماحول کا ادراک و اعتراف اس سے بھی زیادہ ضروری ہے، اور ہمیں اب امریکی ٹرک کی بتیوں سے بہرحال چھٹکارا حاصل کرنا ہو گا۔

۳ جنوری ۲۰۲۳ء

ہمارا سب سے بڑا مسئلہ قومی خودمختاری کی بحالی اور تحفظ ہے، جب تک ہم ملکی معاملات میں غیر ملکی مداخلت سے نجات حاصل نہیں کر لیتے اور اپنے فیصلے خود کرنے میں آزاد نہیں ہو جاتے، اس وقت تک اپنا کوئی بھی مسئلہ قومی و مِلی تقاضوٖں کے حوالے سے حل نہیں کر سکتے۔

۲ جنوری ۲۰۲۳ء

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے متعدد احادیثِ مبارکہ میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا ماحول ختم ہو جانے کو معاشرتی فساد اور خرابیوں کا ذریعہ بتایا ہے، اور امت کو آگاہ فرمایا ہے کہ نیکیوں کی تلقین اور برائیوں سے روکنے کا سلسلہ ترک کرنے کا وبال صرف غلط اعمال کرنے والوں تک ہی محدود نہیں رہتا۔

۲۹ دسمبر ۲۰۲۲ء

ہمارے معاشرے میں عورت بہت حوالوں سے مظلوم ہے اور اس کے بہت سے شرعی حقوق یہاں دبائے جا رہے ہیں لیکن اس محاذ پر دینی حلقوں کی کوئی واضح نمائندگی موجود نہیں ہے، سیکولر حلقے اور این جی اوز ہی حقوقِ نسواںٖ کے شعبہ میں جدوجہد کرتے اور اپنے ایجنڈے کے حوالے سے اسے کیش کرواتے نظر آتے ہیں۔

۲۶ دسمبر ۲۰۲۲ء

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جسمانی اور روحانی دونوں قسم کی بیماریوں کے علاج معالجے کی تلقین فرمائی ہے اور بعض علاج خود بھی تجویز کیے ہیں، اس لئے انسانی بیماریوں کا علاج اور ان کیلئے تحقیق و محنت، خدمتِ خلق ہونے کے ناتے عبادت اور سنتِ رسولؐ بھی شمار ہوتا ہے۔

۲۳ دسمبر ۲۰۲۲ء

خواتین کی تعلیم کے حوالے سے امارتِ اسلامی افغانستان سے سعودی عرب اور اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) کا تقاضہ قابلِ توجہ ہے، طالبان حکومت کو اسے نظر انداز نہیں کرنا چاہئے اور اہلِ علم کی مشاورت سی کوئی راستہ نکالنا چاہئے۔

۲۲ دسمبر ۲۰۲۲ء

ہمارے ہاں عموماً سیکولرازم کو غیر فرقہ وارانہ حکومت کے معنی میں پیش کر کے یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ سیکولرازم کی بنیاد مذہب کی نفی پر نہیں ہے بلکہ اس کا مقصد کسی ایک فرقہ پر دوسرے فرقہ کی بالادستی کو روکنا ہے۔ ہمارے خیال میں یہ مذہب کو سیاست سے دور رکھنے کیلئے محض ایک فریب کاری ہے۔

۱۸ دسمبر ۲۰۲۲ء

شریعتِ اسلامیہ کے سارے احکام حکومت و اقتدار سے متعلق نہیں ہیں بلکہ زیادہ تر ایسے ہیں جن پر عملدرآمد کیلئے کسی انتظامی یا قانونی ڈھانچے کی ضرورت نہیں ہے۔ ہم اپنے وجود، خاندان اور ماحول پر آزادی کے ساتھ ان کا اطلاق کر سکتے ہیں۔ ایسے احکام و قوانین کا نفاذ تو ہمیں بہرحال کرنا چاہئے۔

۱۷ دسمبر ۲۰۲۲ء

ایک المیہ یہ ہے کہ مکاتبِ فکر کے درمیان مناقشت و مسابقت کی فضا نے باہم مل بیٹھنے کے راستے مسدود کر رکھے ہیں، اگرچہ نفاذِ اسلام اور ختمِ نبوت جیسے مشترکہ مقاصد کیلئے مذہبی قیادتیں بوقتِ ضرورت مل بیٹھتی ہیں لیکن یہ ناکافی ہے، دینی راہنماؤں اور کارکنوں کو اس طرف توجہ دینی چاہئے۔

۱۶ دسمبر ۲۰۲۲ء

یومِ سقوط ڈھاکہ پر ہر سال غم و صدمہ کا میڈیا پر اظہار کیا جاتا ہے جو قومی جذبات و احساسات کا مظہر ہے مگر اس کے ساتھ اس کے اسباب و عوامل کی نشاندہی اور تلافی کے اقدامات بھی ضروری ہیں۔

۱۳ دسمبر ۲۰۲۲ء

عالمِ اسلام میں اسلامی معاشی نظام کے تعطل پر کم و بیش دو صدیاں گزر گئی ہیں اور استعماری ممالک کے تسلط کے دوران مسلم ممالک کی معیشتوں کو جس بری طرح سودی شکنجے میں جکڑ دیا گیا ہے اس سے نکلنے کیلئے جو تجرباتی اور تدریجی عمل ضروری ہے اس کی حوصلہ شکنی نہیں ہونی چاہئے۔

۱۱ دسمبر ۲۰۲۲ء

مولانا فضل الرحمان کو حافظ حسین احمد کے گھر میں دیکھ کر بہت خوشی ہوئی، اللہ پاک نظرِ بد سے بچائیں اور اس کا مصداق بنادیں کہ ؎

بڑا مزہ اس ملاپ میں ہے
جو صلح ہو جائے جنگ ہو کر

آمین یا رب العالمین

۱۰ دسمبر ۲۰۲۲ء

تصویر کا ایک رخ یہ ہے کہ حلال و حرام کے تصور سے آزاد ’’فری سوسائٹی‘‘ کا جو فلسفہ گذشتہ دو صدیوں سے مسلمان معاشروں کو گھول کر پلانے کی عالمگیر کوشش جاری ہے وہ ابھی تک ہضم نہیں ہو رہا۔ جبکہ دوسرا رخ یہ ہے کہ آج کے ایک عام مسلمان کے سامنے حلال و حرام کا نقشہ پوری طرح واضح نہیں ہے۔

۸ دسمبر ۲۰۲۲ء

روس کے صدر ولادیمیر پیوٹن کی طرف سے ملک میں ہم جنس پرستی کے حوالے سے پابندیوں کا اعلان خوش آئند اور لائق تحسین ہے۔ انسانی شرافت اور خاندانی نظام کے تحفظ کیلئے تمام ممالک بالخصوص مسلم حکومتوں کو ایسا کرنا چاہیئے۔

۵ دسمبر ۲۰۲۲ء

عقائد و احکام کی تعبیر و تشریح کی اپنی اپنی چھلنیاں سب نے تھام رکھی ہیں، جو اس میں سے گذر جائے وہ حق باقی سب باطل۔ اسی ذوق و مزاج نے امت کے ہر اجتماعی کام کا راستہ روک رکھا ہے۔

۳ دسمبر ۲۰۲۲ء

اقوامِ متحدہ کے منشور اور قراردادوں سے یہ بات بالکل واضح ہے کہ اگر مسلم ممالک اپنے قانونی نظاموں کو ان کے مطابق بناتے ہیں تو انہیں نکاح، طلاق، وراثت، زنا، شراب، چوری، ڈکیتی، قذف، ارتداد اور ناموسِ رسالت جیسے بہت سے معاملات میں قرآن و سنت کے صریح احکام سے دستبردار ہونا پڑے گا۔

یکم دسمبر ۲۰۲۲ء

مرکز الاقتصاد الاسلامی اور وفاق ایوانہائے صنعت و تجارت پاکستان کے زیرِ اہتمام کراچی کا قومی حرمتِ سود سیمینار سودی نظام کے خاتمہ پر قومی اتفاقِ رائے کا مظہر ہے، مگر یہ معاملہ مسلسل، مربوط اور عملی جدوجہد کا طلبگار ہے۔

۲۶ نومبر ۲۰۲۲ء

پاکستان کی مسلح افواج کے ماٹو میں ’’جہاد‘‘ کا لفظ شامل ہے مگر جہاد کی اصطلاح کو ایک عرصہ سے بین الاقوامی سیکولر لابیوں نے جس منفی مہم کا نشانہ بنا رکھا ہے اس کے مقابلے میں جہاد کے لیے قوم کی ذہن سازی کا ماحول دکھائی نہیں دے رہا، یہ ہماری سیاسی و عسکری قیادت کیلئے لمحۂ فکریہ ہے۔

۲۴ نومبر ۲۰۲۲ء

جنرل حافظ عاصم منیر کی بطور آرمی چیف تقرری نیک فال ہے، انہیں خوش آمدید کہتے ہوئے ہماری دعا ہے کہ ان کے سینے میں قرآن کریم کا نور ملک و قوم کی بہتری کا ذریعہ بن جائے، آمین۔

۲۳ نومبر ۲۰۲۲ء

تمام ریاستی ادارے، قومی طبقات اور دینی و سیاسی جماعتیں اگر دستور پاکستان کا احترام کرتے ہوئے اس کی حقیقی عملداری کیلئے سنجیدہ ہو جائیں تو کسی بھی نوعیت کے بحران سے نمٹنا مشکل نہیں رہے گا، آزمائش شرط ہے۔

۱۸ نومبر ۲۰۲۲ء

مغربی ملکوں میں جو لوگ مسلم دنیا کے اس دورِ انحطاط میں اسلام قبول کر رہے ہیں ان کے بارے میں جہاں مغربی حلقوں میں تشویش پائی جاتی ہے وہاں اس بات پر ریسرچ کا سلسلہ بھی جاری ہے کہ مغربی اور یورپی نسلوں کے لوگوں کے مسلمان ہونے کے اسباب کیا ہیں؟

۱۶ نومبر ۲۰۲۲ء

سودی نظام کے حوالے سے وفاقی شرعی عدالت کے فیصلہ کے خلاف عدالتِ عظمٰی میں دائر سرکاری اپیلوں کی واپسی کا اعلان خوش آئند ہے لیکن تمام اپیلوں کی واپسی کے بغیر فیصلہ پر عملدرآمد نہیں ہو سکے گا، اس کی کوئی تدبیر؟

۱۲ نومبر ۲۰۲۲ء

ایسی جمہوریت جس میں عوام کے منتخب کردہ نمائندے اللہ تعالیٰ کی حاکمیتِ اعلیٰ کو تسلیم کرتے ہوئے اس کے احکام و قوانین کے تابع رہ کر فیصلے کریں تو یہ جمہوریت اسلامی تعلیمات کے منافی نہیں ہے بلکہ اسلام خود اس کا علمبردار ہے۔

۱۱ نومبر ۲۰۲۲ء

سودی نظام کے خاتمہ کے حوالے سے وفاقی وزیرخزانہ جناب اسحاق ڈار کے اعلان کا ہم سابقہ سرکاری اعلانوں کی طرح خیرمقدم ہی کریں گے، اللہ ہمیں بحیثیت قوم سرکاری و غیرسرکاری سطح پر اس کیلئے سنجیدہ عملی اقدامات کی توفیق دیں، آمین۔

۹ نومبر ۲۰۲۲ء

اقبالؒ مسلم امّہ کی تہذیبی شناخت کی علامت اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی والہانہ محبت کا مناد ہے، اسے خراجِ عقیدت اس کے اسی جذبہ کی پیروی میں ہے۔

۸ نومبر ۲۰۲۲ء

افغانستان سے متعلقہ مسائل کا حل امارتِ اسلامی افغانستان کی حکومت کو تسلیم کرتے ہوئے اس کے ساتھ مذاکرات کی صورت میں ہی سامنے آئے گا، ورنہ دباؤ کے ساتھ باتیں منوانے اور بدنام کرنے کی روش سے خاطرخواہ نتائج نہیں ملیں گے۔

۳ نومبر ۲۰۲۲ء

عوامی نیشنل پارٹی کی طرف سے افغانستان کی طالبان حکومت کے ساتھ مذاکرات کی حمایت خوش آئند ہے جسے ذمہ دار حلقوں کو نظرانداز نہیں کرنا چاہئے۔

۲ نومبر ۲۰۲۲ء

اسلام نے مختلف اقوام میں پہنچنے کے بعد ان پر اثرانداز ہونے کیلئے اکھاڑپچھاڑ کی بجائے موافقت اور ایڈجسٹمنٹ کی حکمت عملی اختیار کی تھی، اور انکی ثقافت کے صرف ان حصوں کی نفی کی تھی جو اسلام کے بنیادی عقائد و احکام سے متصادم ہوئے، باقی روایات و اقدار کو قبول کرنے میں بخل نہیں دکھایا۔

۳۱ اکتوبر ۲۰۲۲ء

ملک کی عمومی صورتحال ایک بار پھر خبردار کر رہی ہے کہ ہم گروہی، طبقاتی، علاقائی اور فرقہ وارانہ تعصبات و ترجیحات سے بالاتر ہو کر ملکی وحدت، قومی خود مختاری اور ملک و قوم کی دینی شناخت کے تحفظ کیلئے محنت کریں، ورنہ حالات کی بہتری کا اور کوئی راستہ نہیں ہے۔

۲۷ اکتوبر ۲۰۲۲ء

خلافتِ عثمانیہ کے بعد سب سے پہلے ترکی کو مجبور کیا گیا کہ وہ سیکولرازم کو دستور و قانون کی حیثیت دے، لیکن عام ترکوں نے آج تک اس لامذہبی فلسفہ کو قبول نہیں کیا اور اب بھی وہ دینِ اسلام کے ساتھ اپنی کمٹمنٹ کا کھلم کھلا اظہار کرتے ہیں، باقی مسلم دنیا کی بھی کم و بیش یہی صورتحال ہے۔

۲۴ اکتوبر ۲۰۲۲ء

جاپان نے کابل میں اپنی سفارتی سرگرمیاں بحال کرنے اور امارت اسلامی افغانستان کے ساتھ تعلقات کا آغاز کرنے کا فیصلہ کیا ہے جو بہت خوش آئند ہے اور مسلم حکومتوں کیلئے ایک گائیڈ لائن کی حیثیت رکھتا ہے۔

۱۹ اکتوبر ۲۰۲۲ء

چند سال قبل سوئس بینک کے ایک ڈائریکٹر نے کہا تھا کہ سوئس بینکوں میں پاکستانیوں کی اتنی رقوم پڑی ہیں کہ اگر انہیں استعمال کیا جائے تو پاکستان تیس سال تک ٹیکس فری بجٹ بنا سکتا ہے اور پاکستانیوں کو چھ کروڑ سے زائد ملازمتیں دی جا سکتی ہیں۔

۱۶ اکتوبر ۲۰۲۲ء

قرآن کریم غور و فکر اور تدبر کی دعوت دیتا ہے اور فقہ و اجتہاد اسلام کے بنیادی اصولوں میں شامل ہیں، لیکن عقل کو حکمران کی نہیں بلکہ معاون کی حیثیت دی گئی ہے، تاریخ گواہ ہے کہ عقل کبھی حکمران نہیں رہی، وہ جب وحی الٰہی کی معاون نہیں بنتی تو اسے طاقت یا خواہشات کی چاکری کرنا پڑتی ہے۔

۱۲ اکتوبر ۲۰۲۲ء

صدر محمد ایوب خان مرحوم کے دورِ اقتدار میں ان کے بھائی سردار بہادر خان مرحوم نے جب ایک موقع پر قومی اسمبلی کے فلور پر یہ کہا کہ پاکستان میں کوئی حکومت بھی امریکہ کی مرضی کے بغیر قائم یا تبدیل نہیں ہوتی تو میرے جیسے سیاسی کارکنوں کو اس وقت بہت تعجب ہوا تھا۔

۵ اکتوبر ۲۰۲۲ء

ٹیکسوں کی ضرورت و اہمیت سے کسی کو انکار نہیں ہے، لوگ ٹیکس دیتے ہیں اور بہت سے نہ دینے والے بھی دینے کیلئے تیار ہیں مگر ٹیکسوں کے تعیّن اور وصولی کے نظام کو منصفانہ اور شفاف بنائے بغیر اس سلسلہ میں اعتماد کی فضا قائم نہیں کی جا سکتی۔

۲ اکتوبر ۲۰۲۲ء

نبی اکرم صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے اسلام کو پوری نسلِ انسانی کا مذہب قرار دے کر رنگ، نسل، علاقہ اور زبان کی تفریق سے بالاتر معاشرے کی عملی شکل دنیا کے سامنے پیش کی تھی، مگر ہم آج پھر اس مقام سے نیچے اتر کر رنگ، نسل، علاقہ اور زبان کی قومیتوں کے دائرے میں محصور ہو کر رہ گئے ہیں۔

۳۰ ستمبر ۲۰۲۲ء

دینِ اسلام کو ریاست کا سرکاری مذہب قرار دیتے ہوئے دستور میں طے کیا گیا ہے کہ ملک میں قرآن و سنت کے منافی کوئی قانون نافذ نہیں کیا جائے گا اور قرآن و سنت کے قوانین کو بتدریج ملک میں نافذ العمل بنایا جائے گا، اور یہ صرف پاکستان ہی نہیں دنیا بھر کی مسلم حکومتوں کی مِلّی ذمہ داری ہے۔

۲۶ ستمبر ۲۰۲۲ء

دنیا کے بہت سے حلقے مسلسل اس کوشش میں لگے ہوئے ہیں کہ پاکستان کی اسلامی شناخت ختم کر کے اسے ایک سیکولر ملک کا روپ دیا جائے، ٹرانس جینڈر ایکٹ ۲۰۱۸ء بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔

۲۴ ستمبر ۲۰۲۲ء

ٹرانسجینڈر پرسنز ایکٹ ۲۰۱۸ء کا اتنی دیر تک ابہام میں رہنا بیرونی لابیوں کی سرگرمیوں سے ہماری غفلت کا نتیجہ ہے، ہمیں قومی و مِلّی معاملات میں اپنی توجہ درست رکھنے کی ضرورت ہے۔

۲۲ ستمبر ۲۰۲۲ء

حبیب جالب مرحوم نے آج کےدور کی عکاسی کرتے ہوئے ہی کہا تھا

جو پہنو ہم کو پہناؤ پھر اسلام کی بات کرو
گھر گھر جیون دیپ جلاؤ پھر اسلام کی بات کرو
کوٹھی بیس کنالوں کی اور نیچے ایک پجارو بھی
ہم کو سائیکل ہی دلواؤ پھر اسلام کی بات کرو
دیکھو کچھ تو رہ بھی گیا ہے اپنے دیس خزانے میں
کھاؤ لیکن تھوڑا کھاؤ پھر اسلام کی بات کرو
اللہ ہو کا ورد بجا ہے نبی کے گن بھی ٹھیک مگر
کچھ تو ان کا رنگ دکھاؤ پھر اسلام کی بات کرو
توڑو یہ کشکول گدائی اترو قرض کی سولی سے
امریکہ سے جان چھڑاؤ پھر اسلام کی بات کرو

۲۰ ستمبر ۲۰۲۲ء

نابینا، گونگے اور بہرے افراد کی طرح خواجہ سرا بھی نسل انسانی کے معذور افراد ہیں، ایک طبقہ کے طور پر ان کے حقوق و مفادات کا تحفظ ضروری ہے مگر انہیں ایک الگ جنس قرار دے کر معاشرتی ماحول کو غیر متوازن کر دینا کوئی معقول طرز عمل نہیں ہے۔

۱۶ ستمبر ۲۰۲۲ء

قومی و مِلّی مسائل کے عملی حل سے پہلے ان کی فکری بنیادوں اور تہذیبی پس منظر کا واضح ہونا بہت ضروری ہے۔ اسی طرح ایمان و عقیدہ کے رسوخ اور احکامِ شریعہ پر مخلصانہ عمل کیلئے فکری و ذہنی اطمینان کی ضرورت کو نظرانداز کر کے ہم اسلامائزیشن کی طرف مؤثر پیشرفت نہیں کر سکتے۔

Pages

Flag Counter