دینی مدارس اور ٹونی بلیئر کی غلط فہمی

روزنامہ پاکستان نے ۳۰ ستمبر ۲۰۱۱ء کو نئی دہلی کی ڈیٹ لائن سے آن لائن کے حوالہ سے ایک خبر شائع کی ہے جس کے مطابق برطانیہ کے سابق وزیراعظم ٹونی بلیئر نے سی این این کو انٹرویو دیتے ہوئے ارشاد فرمایا ہے کہ: مکمل تحریر

۲۰ اکتوبر ۲۰۱۱ء

ملی مجلس شرعی کی قراردادیں

وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی کی طلب کردہ آل پارٹیز کانفرنس میں ملک کی سیاسی، مذہبی اور عسکری قیادت نے امریکی الزامات کو بیک آواز مسترد کرتے ہوئے امریکہ کی طرف سے ڈومور کے مطالبے کو قبول نہ کرنے کا اعلان کیا ہے جو ملک بھر کے عوام کے دلوں کی آواز ہے۔ اس طرح رائے عامہ کے رجحانات و جذبات نے ایک متفقہ قومی موقف کی حیثیت اختیار کر لی ہے جس پر آل پارٹیز کانفرنس طلب کرنے والے وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی اور کانفرنس کے تمام شرکا مبارکباد کے مستحق ہیں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۴ اکتوبر ۲۰۱۱ء

’’خبرِ واحد‘‘ اور اس کی حفاظت کا اہتمام

گزشتہ روز ایک نوجوان نے مجھ سے سوال کیا کہ کیا جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ’’خبرِ واحد‘‘ کی حفاظت کا اہتمام کیا تھا؟ میں نے پوچھا کہ بیٹا آپ کی تعلیم کیا ہے؟ بتایا کہ تھرڈ ایئر کا سٹوڈنٹ ہوں۔ پھر پوچھا کہ دینی تعلیم کہاں تک حاصل کی ہے؟ جواب دیا کہ ایک مکتب میں ناظرہ قرآن کریم اور نماز وغیرہ کی تعلیم حاصل کی تھی۔ میں نے دریافت کیا کہ علمِ حدیث کی کوئی کتاب اردو میں مطالعہ کی ہے؟ جواب دیا کہ نہیں۔ میں نے سوال کیا کہ بیٹا خبرِ واحد کے بارے میں آپ کو کس نے بتایا ہے کہ یہ کیا ہوتی ہے؟ ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۵ فروری ۲۰۱۸ء

میاں اسماعیل ضیاء مرحوم

سابق ایم پی اے گوجرانوالہ میاں اسماعیل ضیاء مرحوم میرے محترم دوستوں میں سے تھے۔ سیاسی راستے الگ الگ ہونے کے باوجود ہمارے درمیان بہت سے معاملات میں مفاہمت اور ہم آہنگی رہی ہے۔ وہ مسلکاً اہل حدیث تھے اور سیاسی طور پر معروف معنوں میں بائیں بازو کے سیاسی دانشوروں اور کارکنوں میں شمار ہوتے تھے۔ جبکہ میں دیوبندی مسلک کے پیروکاروں میں شمار ہوتا ہوں اور میرا سیاسی تعلق ہمیشہ جمعیۃ علماء اسلام کے ساتھ رہا ہے۔ ہماری باہمی دوستی اور تعلق کے پس منظر میں تین چار شخصیات کا بڑا حصہ اور کردار ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۱ نومبر ۲۰۱۱ء

حضرت مولانا سید ابوذر بخاریؒ

جانشین امیر شریعت حضرت مولانا سید ابوذر بخاریؒ کا نام تو سن رکھا تھا کہ ’’شاہ جی‘‘ امیر شریعتؒ کے بڑے بیٹے ہیں اور بہت بڑے عالم ہیں لیکن دیکھنے کا موقع اس وقت ملا جب ایوب خان مرحوم نے ۱۹۶۲ء میں مارشل لاء ختم کر کے ملک میں سیاسی سرگرمیاں بحال کیں اور مجلس احرار اسلام نے ملک کے مختلف شہروں میں جلسے منعقد کر کے جماعتی سرگرمیوں کا آغاز کیا۔ انہی دنوں گوجرانوالہ کے شیرانوالہ باغ میں مجلس احرار اسلام کا جلسہ تھا اور مولانا سید ابوذر بخاریؒ اس جلسہ کے مرکزی مقرر تھے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۳ اکتوبر ۲۰۱۱ء

مسئلہ قادیانیت اور دستور سے انحراف

۷ ستمبر کا دن ملک بھر کے دینی حلقوں میں ’’یومِ ختم نبوت‘‘ کے طور پر منایا جاتا ہے، اس لیے کہ اس روز ۱۹۷۴ء میں پاکستان کی منتخب پارلیمنٹ نے ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کی قیادت میں قادیانیوں کا ۹۰ سالہ مسئلہ حل کرتے ہوئے رائے عامہ اور دینی حلقوں کا یہ متفقہ موقف دستوری طور پر تسلیم کر لیا تھا کہ قادیانی گروہ ایک نئے نبی کا پیروکار ہونے کی وجہ سے امت مسلمہ کا حصہ نہیں رہا، اس لیے اسے مسلمانوں کا حصہ سمجھنے کی بجائے ملک کی غیر مسلم اقلیتوں کے ساتھ شمار کیا جائے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۲ ستمبر ۲۰۱۱ء

دفاعِ اسلام اور استحکامِ پاکستان

سیمینار کے عنوان کے حوالے سے مجھے دو امور کے بارے میں کچھ عرض کرنا ہے۔ ایک دفاعِ اسلام اور دوسرا استحکامِ پاکستان۔ دفاعِ اسلام پر گفتگو کو میں تین دائروں میں تقسیم کروں گا۔ ذاتی دائرہ، قومی دائرہ اور عالمی دائرہ۔ (۱) ذاتی دائرے میں مجھے اس بات کا جائزہ لینا ہے کہ میں اور ہم میں سے ہر فرد اسلام کے ساتھ کس درجے کی کمٹمنٹ رکھتا ہے اور اس کے احکام پر کس قدر عمل پیرا ہے؟ اسلام میرا دین ہے اور ایک مسلمان کی حیثیت سے میں اس بات کا پابند ہوں کہ میری زندگی قرآن کریم اور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت و سیرت کے مطابق بسر ہو ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۱ جون ۲۰۱۱ء

ملی مجلس شرعی کا احسن اقدام

مختلف مذہبی مکاتب فکر کے درمیان مشترکہ اہداف و مقاصد کے لیے وقتاً فوقتاً متحدہ فورم ہمیشہ سامنے آتے رہے ہیں اور باہمی اختلافات کے باوجود مذہبی مکاتب فکر نے ملی و قومی مقاصد کے لیے اتحاد و اشتراک کے مظاہرے میں کبھی بخل سے کام نہیں لیا۔ ۳۱ اکابر علماء کرام کے ۲۲ متفقہ دستوری نکات، تحریک ختم نبوت، تحریک نظام مصطفیٰ، تحریک تحفظ ناموس رسالت اور متحدہ مجلس عمل اس کے تاریخی شواہد ہیں۔ لیکن اس بات کی ضرورت ایک عرصہ سے محسوس کی جا رہی تھی کہ وقتی ضروریات اور سیاسی ایجنڈے سے ہٹ کر ایک ایسا فورم بھی قومی منظر پر موجود رہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۵ جون ۲۰۱۱ء

اصل دہشت گرد کون؟

مئی کے پہلے ہفتے میں عام طور پر دو حریت پسندوں کو یاد کیا جاتا ہے۔ ایک سلطان ٹیپو شہیدؒ جس نے مشرقی ہند پر انگریزوں کی یلغار کا مسلسل مقابلہ کیا، بالآخر ۴ مئی ۱۷۹۹ء کو سرنگاپٹم کے محاصرے کے دوران جام شہادت نوش کیا اور اس کی شہادت کے بعد اس کی لاش پر کھڑے ہو کر انگریزی فوجوں کے کمانڈر نے کہا تھا کہ ’’آج سے ہندوستان ہمارا ہے‘‘۔ دوسرا تذکرہ مئی کے پہلے ہفتے کے حوالے سے تاریخ میں شہدائے بالاکوٹ کا کیا جاتا ہے کہ سید احمد شہیدؒ اور شاہ اسماعیل شہیدؒ جب اپنے جہادی مرکز کو کشمیر منتقل کرنے کے ارادے سے ہزارہ کے راستے کشمیر کی طرف سفر کر رہے تھے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۲ مئی ۲۰۱۱ء

جوڈیشری سسٹم کو اسلامی شریعت کے مطابق چلانے کی ضرورت

اسلام آباد کی بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی کا ایک شعبہ ’’شریعہ اکیڈمی‘‘ کے نام سے کام کر رہا ہے لیکن ہماری ’’الشریعہ اکادمی‘‘ گوجرانوالہ میں اور اس میں دو تین فرق ہیں: (۱) ایک فرق تو ’’الف لام‘‘ کا ہے جو دونوں کے نام میں واضح ہے۔ (۲) دوسرا یہ کہ وہ بڑا اور سرکاری ادارہ ہے اور ہم چھوٹے سے غیر سرکاری ادارے کے طور پر کام کر رہے ہیں۔ (۳) تیسرا فرق طریقِ کار کا سمجھ لیں کہ وہ ادارہ سرکاری حدود کے دائرے میں اپنا کام کر رہا ہے اور ہم قدرے آزاد ماحول میں اس خدمت کو جاری رکھے ہوئے ہیں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۴ اپریل ۲۰۱۱ء

Pages


2016ء سے
Flag Counter