چند باتیں حضرت درخواستیؒ کی یاد میں

گزشتہ کچھ عرصہ سے ہمارا یہ ذوق بڑھتا جا رہا ہے کہ اپنے بزرگوں کا نام تو لیتے ہیں اور ان کے تذکرہ کے فوائد و ثمرات بھی حاصل کرتے ہیں مگر ان کی حیات و خدمات سے واقفیت حاصل کرنے کے لیے مطالعہ و آگاہی کی ضرورت محسوس نہیں کرتے۔ اس کا ایک بڑا نقصان یہ ہوتا ہے کہ ہم ان کی راہنمائی سے محروم رہتے ہیں، اور دوسرا نقصان اس سے بھی بڑا یہ ہوتا ہے کہ بار بار ان کا نام لینے سے لوگ انہیں بھی ہم پر قیاس کرنے لگتے ہیں اور ہم ان کی نیک نامی کا ذریعہ بننے کے بجائے ان کے تعارف کو خراب کرنے کا باعث بن جاتے ہیں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۶ جنوری ۲۰۱۶ء

حضرت مولانا مفتی محمودؒ کا فقہی ذوق و اسلوب

اسلام آباد میں ’’دفاع پاکستان و افغانستان کونسل‘‘ کے اجلاس کے موقع پر حافظ محمد ریاض درانی سکیرٹری اطلاعات جمعیۃ علماء اسلام پاکستان نے یہ خوش خبری سنائی کہ مفکر اسلام حضرت مولانا مفتی محمود قدس اللہ سرہ العزیز کے فتاویٰ کا پہلا حصہ جمعیت پبلی کیشنز لاہور کے زیر اہتمام شائع ہو گیا ہے اور وہ میرے لیے اس کا نسخہ ساتھ لائے ہیں۔ یہ معلوم کر کے بے حد خوشی ہوئی اس لیے کہ مدت سے اس بات کی تمنا تھی کہ مدرسہ قاسم العلوم ملتان میں حضرت مولانا مفتی محمودؒ کے فتاویٰ کا جو ریکارڈ موجود ہے وہ کسی طرح اشاعت پذیر ہو جائے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۶ ستمبر ۲۰۰۱ء

حضرت مولانا مفتی محمودؒ کی یاد میں

راقم الحروف کو مولانا مفتی محمود رحمہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ ایک کارکن اور پھر ایک رفیق کار کے طور پر کم و بیش پندرہ برس تک کام کرنے کا موقع ملا ہے۔ اور میرے لیے یہ بات بھی سعادت و افتخار کی ہے کہ ۱۹۷۵ء میں جمعیۃ علماء اسلام کی مرکزی مجلس شوریٰ نے مدرسہ قاسم العلوم ملتان میں منعقدہ اجلاس میں جب پہلی بار مجھے جمعیۃ کا مرکزی سیکرٹری اطلاعات منتخب کیا تو میرا نام پیش کرنے والے اور مجلس شوریٰ کو بحث اور دلائل کے ساتھ اس پر قائل کرنے والے خود مولانا مفتی محمودؒ تھے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۲ اکتوبر ۱۹۹۸ء

حضرت مولانا مفتی عبد الواحدؒ

آج کی نشست میں تذکرہ ہے حضرت مولانامفتی عبد الواحد نور اللہ مرقدہ کا، ان کے تعارف اور تذکرہ سے پہلے کچھ پسِ منظرعرض کرناچاہتاہوں۔ مرکزی جامع مسجدشیرانوالہ باغ گوجرانوالہ شہر کی قدیمی مساجدمیں سے ہے، اب سے تقریباً ڈیڑھ سوسال پہلے یہاں ایک بزرگ ہواکرتےتھے مولانا سراج الدین احمد جو کہ بڑے عالم اور فقیہ تھے انہیں فقیہِ پنجاب کہا جاتا تھا۔ مسجد کے عقب میں بازار تھانے والا کی گلی مولوی سراج دین اور مسجد مولوی سراج دین ان ہی کےنام پر ہیں اور وہ مسجد شہرکی جامع مسجد ہوا کرتی تھی ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

جنوری ۲۰۱۷ء

حضرت مولانا محمد حیاتؒ

حضرت مولانا محمد حیاتؒ شکرگڑھ کے قریب ایک گاؤں کے رہنے والے تھے اور درویش صفت عالمِ دین تھے۔ اللہ تبارک و تعالٰی نے ان کو علم و تکلم، تقویٰ و عمل کی بڑی خصوصیات سے نوازا تھا۔ مولانا کی ڈاڑھی قدرتی طور پر نہیں تھی اور ان کا طرزِ زندگی بہت سادہ تھا،کوئی آدمی بظاہر انہیں دیکھ کر یہ اندازہ نہیں کر سکتا تھا کہ وہ عالم دین اور دینی بزرگ ہیں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۴ نومبر ۲۰۱۶ء

مولوی نصر اللہ منصور شہیدؒ

مولوی نصر اللہ منصورؒ کا تعلق مولوی محمد نبی محمدی کی جماعت ’’حرکت انقلاب اسلامی‘‘ سے تھا اور وہ مولوی محمد نبی محمدی کے بعد اس جماعت کے بڑے لیڈر شمار کیے جاتے تھے۔ حتیٰ کہ جہادی سرگرمیوں میں یکسانیت پیدا کرنے کےلیے چھ جماعتوں نے ’’اتحاد اسلامی افغانستان‘‘ کے نام سے متحدہ محاذ قائم کیا تو مولوی نصر اللہ منصور کو اس کا سیکرٹری جنرل منتخب کیا گیا لیکن وہ زیادہ دیر دوسرے لیڈروں کے ساتھ نہ چل سکے اور پالیسی اختلاف نے نہ صرف ان کا راستہ دوسرے افغان لیڈروں سے الگ کر دیا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۵ مارچ ۲۰۰۲ء

حضرت مولانا محمد علی جالندھریؒ

آج جس شخصیت کے حوالے سےگفتگو کرنے لگا ہوں وہ صرف ہمارے پاکستان نہیں بلکہ برصغیر کی بڑی علمی اور تحریکی شخصیات میں سے ہیں۔ حضرت مولانا محمدعلیؒ جالندھر کے رہنے والے تھے۔ جامعہ خیر المدارس ملتان پہلے جالندھر میں تھا۔ مولانا خیرمحمد جالندھریؒ حکیم الامۃ مولانا اشرف علی تھانویؒ کے بڑے خلفاء میں سے تھے، انہوں نے جالندھرمیں جامعہ خیر المدارس بنایا تھا۔ مولانا محمدعلی جالندھریؒ ان کے خلفاء میں سے تھے اور خیرالمدارس میں پڑھاتے رہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۰ اکتوبر ۲۰۱۶ء

تحریکِ آزادیٔ کشمیر کی چند بھولی بسری یادیں

دار العلوم تعلیم القرآن پلندری آزاد کشمیر کے بانی ومہتمم شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد یوسف خان آزاد کشمیر کے ان بزرگ علماء میں سے ہیں جنہوں نے ۱۹۴۷ء کے جہاد آزادی کو منظم کرنے میں سرگرم کردار ادا کیا، اس میں عملی حصہ لیا اور آزاد کشمیر کی ریاست قائم ہونے کے بعد اس میں اسلامی قوانین کے نفاذ کے لیے سرگرم عمل ہو گئے جس کے نتیجے میں آزاد کشمیر میں سرکاری طور پر قضا اور افتا کے شرعی محکمے الگ الگ کام کر رہے ہیں، ہر ضلع اور تحصیل میں ججوں کے ساتھ جید علماء کرام بطور قاضی بیٹھ کر مقدمات کی سماعت کرتے ہیں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۹ جولائی تا یکم اگست ۲۰۰۰ء

شاہ حسین مرحوم

جہاں تک شاہ حسین کی وفات کا معاملہ ہے ایک مسلم حکمران اور پاکستان کے ایک دوست کی وفات کا ہمیں بھی رنج ہے اور ہم دعاگو ہیں کہ اللہ رب العزت ان کی غلطیاں معاف فرمائے اور جوارِ رحمت میں جگہ دے کہ ایک مسلمان کی حیثیت سے یہ ہم پر ان کا حق ہے۔ لیکن ان کے اور ان کے خاندان کے جو فضائل و مناقب بیان کیے جا رہے ہیں اور جس طرح مشرق وسطیٰ میں امن کے ہیرو کے طور پر انہیں پیش کیا جا رہا ہے اس کے پیش نظر اصل حقائق کو سامنے لانا اور نئی نسل کو ان سے متعارف کرانا بھی ہماری ذمہ داری ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۹ فروری ۱۹۹۹ء

حضرت قاری محمد انورؒ

استاذ الحفاظ و القراء حضرت قاری محمدانور صاحبؒ کاچند روز پہلے مدینہ منورہ میں انتقال ہو گیا ہے، آپؒ میرے حفظ کے استاذتھے اور صرف میرے ہی نہیں بلکہ ہمارے پورے خاندان کے استاذ تھے، ہم سب بھائی بہنیں ان کے شاگرد ہیں۔الحمدللہ نو بھائیوں نے اور تین بہنوں نے حفظ کیا ہے اور ایک بڑی بہن کے سوا باقی سب کے استاذ وہی تھے۔ جبکہ وہ گکھڑ اور اس کے ارد گرد سینکڑون حفاظ کے استاذ تھے۔ گکھڑ سے وہ افریقہ کے ایک ملک میں تشریف لے گئے، وہاں بھی بیسیوں حفاظ کے استاذ ہیں۔ پھر مدینہ منورہ میں تقریباً پینتیس سال انہوں نے قرآن کریم پڑھایا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۴ فروری ۲۰۱۷ء

Pages


2016ء سے
Flag Counter