اہل علم کو ایک اللہ والے کی نصیحت

امام دارمیؒ نے اپنی سند کے ساتھ حضرت زید العمٰیؒ سے روایت بیان کی ہے کہ انہوں نے بعض فقہاء کرام کو یہ نصیحت فرمائی کہ اے صاحب علم! اپنے علم پر عمل کرو اور اپنی ضرورت سے زائد جو مال ہو وہ اللہ کی راہ میں دے دو۔ لیکن ضرورت سے زائد بات کو اپنے پاس روک رکھو، بات وہی کرو جو تمہیں تمہارے رب کے پاس نفع دے۔ اے صاحب علم! جو کچھ تم جانتے ہو اگر اس پر عمل نہیں کرو گے تو جب تم اپنے رب سے ملو گے تو تمہارے لیے کوئی عذر اور حجت نہیں ہوگی۔ تمہارا علم کے مطابق عمل نہ کرنا تمہارے اوپر عذر اور حجت کو قطع کر دے گا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۵ اکتوبر ۱۹۶۸ء

آئین شریعت کے لیے تئیس سالہ جدوجہد کا جائزہ

یہ بات اتنی مرتبہ دہرائی جا چکی ہے کہ رفتہ رفتہ مفہوم و مطلب کے لباس سے عاری ہو کر روز مرہ کے تکیہ کلام کی حیثیت اختیار کرتی جا رہی ہے۔ اگر شریعت کے نفاذ کا تعلق اس حقیقت کے لفظی تکرار کے ساتھ ہوتا تو پاکستان اس وقت دنیا کی مثالی اور معیاری اسلامی سلطنت کا روپ دھار چکا ہوتا۔ لیکن کہیں نعروں اور جملوں کے بار بار تکرار سے بھی کسی قوم کی تقدیر بدلتی ہے؟ بدقسمتی سے ہمارے یہاں تئیس سالوں سے نعروں اور لفظوں کے بے مقصد تکرار کا یہ کھیل پوری منصوبہ بندی کے ساتھ کھیلا جا رہا ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۱ اگست ۱۹۷۰ء

دینی مدارس کو غیر مؤثر بنانے کی مہم

8 اگست منگل کو مرکزی جامع مسجد شیرانوالہ باغ گوجرانوالہ میں ضلع بھر کے دیوبندی علماء اور سرگرم کارکنوں کا بھرپور کنونشن ہوا جس کی صدارت خانقاہ سراجیہ مجددیہ کندیاں شریف کے سجادہ نشین حضرت مولانا خواجہ خلیل احمد دامت برکاتہم نے کی۔ کنونشن سے وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے ناظم اعلیٰ مولانا قاری محمد حنیف جالندھری، جمعیۃ علماء اسلام پاکستان (س) کے سیکرٹری جنرل مولانا عبد الرؤف فاروقی، پاکستان علماء کونسل کے چیئرمین مولانا صاحبزادہ زاہد محمود قاسمی اور دیگر سرکردہ زعماء نے خطاب کیا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۱ اگست ۲۰۱۷ء

خان عبد القیوم خان کا طرزِ سیاست

یوں محسوس ہوتا ہے کہ صدر ذوالفقار علی بھٹو نے خان عبد القیوم خان کو وزیرداخلہ بنایا ہی اس لیے ہے کہ وہ ملک کی جمہوری قوتوں اور عوامی صوبائی حکومتوں کو سبوتاژ کرنے کے لیے مسلسل سازشیں کرتے رہیں۔ حتیٰ کہ جب سندھ کے لسانی فسادات پورے عروج پر تھے، لسانی عصبیت کا جنون مسلمان کے ہاتھوں مسلمان کا گلا کٹوانے میں مصروف تھا اور پورا سندھ خون میں نہایا ہوا تھا، خان موصوف سندھ میں وزیرداخلہ کی حیثیت سے اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے کی بجائے سرحد کی جمہوری حکومت کے خلاف تقریروں اور الزام تراشی میں مصروف تھے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

یکم جون ۱۹۷۳ء

لاٹھی گولی کی سرکار نہیں چلے گی

ملتان اور لاہور میں متحدہ جمہوری محاذ کے عام جلسوں کو ناکام بنانے کے لیے جو حربے اختیار کیے گئے وہ تشدد اور فسطائیت کی دنیا میں نئے نہیں۔ قافلۂ جمہوریت کو اس سے قبل بھی امتحان و آزمائش کے اس موڑ سے بارہا گزرنا پڑا اور اب بھی یہ راہ متحدہ جمہوری محاذ کے رہنماؤں کے لیے جانی پہچانی گزرگاہ ہے۔ دراصل لیاقت باغ کے خونی المیہ کے بعد سے ہی یہ بات واضح ہو گئی تھی کہ حکمران طبقہ نے اصول، شرافت اور جمہوری عمل کی بساط لپیٹ دی ہے اور اب وہ اپنے اقتدار کے تحفظ کے لیے عوام کو اعتماد میں لے کر سیاسی جنگ لڑنے کی بجائے بندوق کی نالی پر بھروسہ کرے گا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۸ جون ۱۹۷۳ء

انتظامیہ کو سیاسی جنگ میں فریق نہ بنائیے!

انتظامیہ کا کام ہوتا ہے کہ ملک میں قانون و آئین کی بالادستی کا تحفظ کرے، امن و امان بحال رکھے اور غیرجانبداری کے ساتھ نظم و نسق چلائے۔ اس فرض کی صحیح ادائیگی کے لیے ضروری ہے کہ انتظامیہ ملک میں سیاسی وفاداریوں سے لاتعلق ہو کر اپنے کام سے کام رکھے اور جہاں کوئی بات اسے قانون کے خلاف نظر آئے، اس کے خلاف بلاجھجھک کاروائی کرے۔ جن جمہوری ممالک میں انتظامیہ اپنے فرائض کو سیاسی عمل سے الگ تھلگ رکھتی ہے وہاں سیاسی عمل بھی جمہوری اقدار کا حامل ہے اور انتظامیہ کو فرائض کی کماحقہ ادائیگی میں کوئی رکاوٹ پیش نہیں آتی ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۵ جون ۱۹۷۳ء

بلوچستان کی صورتحال اور قادیانیوں کی سرگرمیاں

بلوچستان اپنے جغرافیائی محل وقوع اور دیگر گوناگوں خصوصیات کے باعث کافی عرصہ سے اندرونی و بیرونی سازشوں کی مذموم مساعی کی آماجگاہ بنا ہوا ہے اور آج بھی سازشی قوتیں تمام وسائل کے ساتھ بلوچستان کے امن کو اپنے مقصد کی بھینٹ چڑھانے کے لیے سرگرم عمل ہیں۔ ۱۹۵۲ء کی بات ہے، قادیانی گروہ کے سربراہ مرزا بشیر الدین محمود نے بلوچستان کو قادیانی علاقہ قرار دینے کے منصوبے کا اعلان کیا تھا اور ۱۹۵۳ء کی تحریک ختم نبوت کے محرکات میں یہ منصوبہ بھی شامل تھا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۷ جولائی ۱۹۷۳ء

اشتراکیت نہیں، اسلام

پنجاب کے وزیر خزانہ جناب محمد حنیف رامے نے صوبائی اسمبلی میں سمال انڈسٹریز کارپوریشن بل پر بحث کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ پاکستان کے حالات کا اولین تقاضا ہے کہ ہم سودی نظام سے نجات حاصل کریں۔ اور حکومت سود سے پاک اقتصادی نظام رائج کرنے کا ارادہ رکھتی ہے مگر موجودہ سرمایہ دارانہ و جاگیردارانہ نظام میں سود سے چھٹکارا ممکن نہیں، اس کے لیے ضروری ہے کہ موجودہ معاشی نظام سے گلوخلاصی کرا کے اشتراکی نظام رائج کیا جائے۔ حنیف رامے صاحب نے اس سلسلہ میں کارل مارکس فریڈرک، اینگلز اور لینن کے حوالہ سے اشتراکیت کا ذکر کرتے ہوئے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۲ جون ۱۹۷۳ء

ریڈ کراس کی بجائے ہلال احمر

صدارتی کابینہ نے ایک اجلاس میں ریڈ کراس سوسائٹی کا نام تبدیل کر کے انجمن ہلال احمر رکھنے کا فیصلہ کیا ہے اور قومی حلقوں میں اس مناسب فیصلہ کو سراہا جا رہا ہے۔ عوامی حلقوں کی طرف سے قیام پاکستان کے بعد ہی سے یہ مطالبہ کیا جا رہا تھا کہ ملک میں فرنگی ا قتدار و تسلط کے دور کی تمام یادگاروں اور نشانات کو مٹا دیا جائے اور اسلامی قانون و سیاست، اخلاق و معاشرت، اقتصاد و معیشت، تہذیب و تمدن اور روایات و اقدار کو فروغ دیا جائے۔ آزادی کی جنگ لڑنے والوں کا مطمح نظر بھی یہی تھا اور قیام پاکستان کا بنیادی محرک بھی یہی سوال بنا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۳ جولائی ۱۹۷۳ء

اور اب بناسپتی گھی!

اشیاء خوردنی کی کمر توڑ گرانی انتہائی تشویشناک صورت اختیار کر چکی ہے۔ غریب عوام بلکہ متوسط طبقہ بھی اس مہنگائی کے سامنے بے بس ہو چکا ہے اور اس سے نجات کی کوئی صورت دکھائی نہیں دے رہی۔ بازار سے جس چیز کا بھاؤ پوچھو اس کا نرخ آسمان سے باتیں کر رہا ہے اور ہر شخص پریشان ہے کہ آخر گرانی کا یہ ڈنڈا کب تک قوم کی پیٹھ پر برستا رہے گا۔ پہلے چینی غریب عوام کے اعصاب پر سوار رہی اور ابھی تک یہ مسئلہ طے نہیں ہو سکا۔ ستم ظریفی کی انتہا دیکھیے کہ جب ہم باہر سے چینی منگواتے تھے تو سستی تھی ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۳ جولائی ۱۹۷۳ء

Pages


2016ء سے
Flag Counter