ہزارہ کا سفر اور صفہ اکیڈمی مانسہرہ کا منصوبہ

صفہ اکیڈمی کا یہ طریق کار مجھے بہت پسند آیا بلکہ حضرت مولانا قاضی زاہد الحسینیؒ کی ایک پرانی تجویز یاد آگئی کہ بڑے دینی مدارس کو اپنی اقامت گاہوں میں ایسے بچوں کے لیے بھی کمرے تعمیر کرنے چاہئیں جن کے والدین ان کے تعلیمی اخراجات برداشت کرنے کی توفیق نہ رکھتے ہوں۔ وہ تعلیم تو سکولوں اور کالجوں میں حاصل کریں مگر دینی ماحول اور اخراجات کی کفالت ساتھ ساتھ ضروری دینی تعلیم کا ان کے لیے انتظام کر دیا جائے۔ یوں وہ قومی زندگی کے جس شعبے میں جائیں گے ایک فرض شناس مسلمان کے طور پر جائیں گے اور اپنے مدرسہ و مسلک کے نمائندہ بھی ہوں گے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

یکم نومبر ۲۰۱۶ء

ختم نبوت کانفرنس چناب نگر

چناب نگر میں عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کی سالانہ کانفرنس 27و 28 اکتوبر کو منعقد ہو رہی ہے اور ملک کے مختلف حصوں سے دینی جماعتوں اور مکاتب فکر کے سرکردہ راہنما اس سے خطاب کر رہے ہیں۔ راقم الحروف کو ایک عرصہ تک اس کانفرنس میں شرکت کی سعادت حاصل ہوتی رہی ہے بلکہ یہ سعادت اس دور میں بھی حاصل رہی ہے جب یہ کانفرنس چنیوٹ کے میونسپل ہال میں منعقد ہوا کرتی تھی۔ مگر اب چند سالوں سے اس سے محروم ہوں جس کی وجہ چنیوٹ کی ضلعی انتظامیہ کا وہ حکم نامہ ہے جو چند دیگر علماء کرام سمیت مجھ پر ہر ایسے اجتماع سے قبل لاگو ہو جاتا ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۸ اکتوبر ۲۰۱۶ء

حالات کی مجبوری اور مولانا فضل الرحمٰن کا انتخاب

مجھے یہ اطلاع تو دوبئی روانہ ہونے سے قبل مل گئی تھی کہ مولانا فضل الرحمٰن بھی انہی دنوں متحدہ عرب امارات کے دورے پر جا رہے ہیں مگر یہ معلوم نہیں تھا کہ ان کی فلائٹ بھی وہی ہے جس پر میں نے سیٹ بک کرا رکھی ہے۔ یہ پی آئی اے کی فلائٹ تھی جو دوبئی کے لیے پشاور سے براستہ لاہور تھی۔ مولانا پشاور سے سوار ہوگئے جبکہ میں لاہور سے جہاز پر بیٹھا مگر دوبئی پہنچنے تک ہمیں ایک دوسرے کے بارے میں پتہ نہ چل سکا اور وہاں ایئرپورٹ پر امیگریشن لاؤنج میں ہماری ملاقات ہوئی ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۸ جنوری ۲۰۰۱ء

جداگانہ طرز انتخاب اور مسیحی اقلیت

تعجب کی بات ہے کہ مسلمانوں کے دینی حلقے اس سیاسی مفاد کو قربان کرتے ہوئے جداگانہ طرز انتخاب کے اصولی موقف پر زور دے رہے ہیں جبکہ اس کے برعکس بہت سے مسیحی قائدین اپنی کمیونٹی کے سیاسی مفاد اور اصولی موقف دونوں کو نظر انداز کرتے ہوئے مخلوط طرز انتخاب کا مطالبہ کر کے بین الاقوامی سیکولر لابیوں اور قادیانیوں کی تقویت کا باعث بن رہے ہیں۔ اس پس منظر میں مسیحی اقلیت کے بعض سنجیدہ رہنماؤں کی طرف سے یہ آواز اٹھنا شروع ہوگئی ہےکہ مسیحی کمیونٹی اپنے مذہبی و سیاسی مفادات کا سنجیدگی کے ساتھ جائزہ لے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۷ ستمبر ۲۰۰۰ء

جہاد کے حوالے سے راجہ صاحب کی الجھن

راجہ صاحب نے لکھا ہے کہ ’’جہاں مسلم ریاست اپنا وجود یا اپنا اقتدار اعلیٰ کھو دے وہاں عوامی حمایت (اجتہاد) کے ذریعے مسلح تحریک آزادی (یعنی جہاد) کا آغاز تو کسی حد تک قابل فہم معاملہ ہے لیکن جہاں مسلم ریاست مکمل طور پر اپنا وجود رکھتی ہو اور اس کا اقتدار اعلیٰ بھی کلیتاً اس کے پاس ہو وہاں جہاد کا اعلان کون کرے گا؟‘‘ گویا اس طرح راجہ صاحب محترم نے متحدہ ہندوستان میں برطانوی سامراج کے خلاف مسلمانوں کے جہاد آزادی اور روسی استعمار کے خلاف افغان عوام کے جہاد میں فرق ظاہر کرنے کی کوشش کی ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۵ مئی ۲۰۰۰ء

جمعہ کی چھٹی اور راجہ صاحب کا فلسفہ

راجہ انور صاحب نے اپنے مضمون میں جمعہ کی چھٹی کا ذکر کیا ہے، میثاق مدینہ کا حوالہ دیا ہے، کسی مسلم مملکت کو ’’اسلامی‘‘ قرار دینے پر اعتراض کیا ہے، اور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی قائم کردہ ریاست کو ’’دولۃ العربیۃ‘‘ کے طور پر پیش کرنے کی کوشش فرمائی ہے۔ اس لیے ان امور کے بارے میں کچھ معروضات پیش کرنا چاہتا ہوں۔ جمعہ کی چھٹی کے بارے میں راجہ صاحب کا ارشاد یہ ہے کہ اس پر بلاوجہ زور دیا جا رہا ہے حالانکہ اسلامی تاریخ میں اس کا کوئی ثبوت نہیں ملتا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۵ و ۲۸ جولائی ۲۰۰۰ء

دینی مدارس کی مشکلات اور اساتذہ و طلبہ کا عزم

اب سے ڈیڑھ سو برس قبل جب دینی مدارس کے قافلہ کا سفر شروع ہوا تو تاریخ کے سامنے یہ منظر تھا کہ متحدہ ہندوستان 1857ء کی جنگ آزادی میں اہل وطن کی ناکامی بلکہ خانماں بربادی کے زخموں سے چور ہے ، خاص طور پر مسلمانوں کا ملی وجود اپنی تہذیبی روایات و اقدار اور دینی تشخص کے تحفظ و بقا کے لیے کسی اجتماعی جدوجہد کی سکت کھو چکا ہے۔ بیرونی استعمار کے ہاتھوں اپنے تعلیمی، سیاسی، معاشی، انتظامی، معاشرتی و ثقافتی تشخص اور ملی اداروں سے محروم ہو کر اس خطہ کے مسلمان پھر سے ’’زیرو پوائنٹ‘‘ پر کھڑے ہیں ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۱ اکتوبر ۲۰۱۶ء

مشرقِ وسطیٰ کی سنگین صورتحال اور درکار لائحہ عمل

اس زمینی حقیقت سے کسی صاحب شعور کے لیے انکار کی گنجائش نہیں ہے کہ جو سنی شیعہ اختلافات موجود ہیں وہ اصولی اور بنیادی ہیں اور صدیوں سے چلے آرہے ہیں، نہ ان سے انکار کیا جا سکتا ہے، نہ دونوں میں سے کوئی فریق دوسرے کو مغلوب کر سکتا ہے، اور نہ ہی ان اختلافات کو ختم کرنا ممکن ہے۔ ان اختلافات کو تسلیم کرتے ہوئے اور ایک دوسرے کے وجود کا اعتراف کرتے ہوئے باہمی معاملات کو ازسرنو طے کرنے کی ضرورت بہرحال موجود ہے جس کے لیے آبادی کے تناسب اور دیگر مسلمہ معروضی حقائق کو سامنے رکھ کر ہی توازن کا صحیح راستہ اختیار کیا جا سکتا ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۸ اکتوبر ۲۰۱۶ء

دستور کی اسلامی دفعات اور ڈاکٹر محمود احمد غازی کی وضاحت

وزارت قانون کے ترجمان کی مذکورہ وضاحت کے اس جملہ کو دوبارہ دیکھ لیں کہ ’’اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین کی دفعات معطل ہونے کے باوجود پاکستان کو ہر ممکن طور پر اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین کے مطابق ہی چلایا جائے گا۔‘‘ اس جملہ میں ہمیں دو باتیں کھٹک رہی ہیں: ایک بات دستور معطل ہونے یا دستور کی دفعات معطل ہونے میں اٹکی ہوئی ہے۔ اگر دستور معطل ہوا ہے تو اس کی اسلامی دفعات کیسے باقی ہیں اور اگر دستور کی دفعات معطل ہوئی ہیں تو معطل ہونے والی اور بحال رہنے والی دستوری دفعات کی تفصیل کہاں ہے؟ دوسری بات ’’ہر ممکن طور پر’’ کا جملہ ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۲ مارچ ۲۰۰۰ء

عورت کا طلاق کا اختیار

اسلام نے طلاق کا غیر مشروط حق صرف مرد کو دیا ہے کہ وہ جب چاہے عورت کو طلاق دے کر اپنی زوجیت سے الگ کر دے۔ اگرچہ بلاوجہ طلاق کو شریعت میں سخت نفرت کی نگاہ سے دیکھا گیا ہے اور جناب نبی اکرمؐ نے طلاق کو مباح امور میں مبغوض ترین چیز قرار دیا ہے لیکن گناہ اور ناپسندیدہ ہونے کے باوجود مرد کو یہ حق بہرحال حاصل ہے کہ وہ اگر طلاق دے تو اس سے دونوں میں نکاح کا رشتہ ختم ہو جاتا ہے۔ جبکہ عورت کو براہ راست اور غیر مشروط طلاق کا حق اسلام نے نہیں دیا۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اسے اس حوالہ سے کوئی حق ہی سرے سے حاصل نہیں ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۶ جنوری ۲۰۰۰ء

Pages


2016ء سے
Flag Counter