دور نبویؐ میں اسلامی ریاست کا نقشہ

جناب نبی اکرمؐ کی ہجرت سے قبل یثرب کے علاقہ میں ریاست کا ماحول بن چکا تھا اور اس خطہ میں قبائلی معاشرہ کو ایک باقاعدہ ریاست و حکومت کی شکل دینے کی تیاریاں مکمل تھیں۔ بخاری شریف کی روایت کے مطابق انصار مدینہ کے قبیلہ بنو خزرج کے سردار حضرت سعد بن عبادہؓ نے آنحضرتؐ کو بتایا کہ آپؐ کی تشریف آوری سے پہلے اس بحیرہ کے لوگوں نے باقاعدہ حکومت کے قیام کا فیصلہ کر کے عبد اللہ بن أبی کو اس کا سربراہ منتخب کر لیا تھا اور صرف تاج پوشی کا مرحلہ باقی رہ گیا تھا کہ آپ یعنی جناب نبی اکرمؐ تشریف لے آئے جس سے عبد اللہ بن أبی کی بادشاہی کا خواب بکھر گیا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲ ستمبر ۲۰۱۶ء

قرآنِ کریم اور سماج باہم لازم و ملزوم ہیں

حضرت آدمؑ سے لے کر حضرت محمدؐ تک اللہ تعالیٰ کی طرف سے مبعوث ہونے والے ہزاروں انبیاء کرامؑ کی تعلیمات پر ایک نظر ڈال لی جائے کہ سماجی ارتقاء اور معاشرتی ترقی کے بارے میں ان کا طرز عمل کیا تھا اور انہوں نے سوسائٹی کے اجتماعی فیصلوں اور طرز عمل کے ساتھ کیا رویہ اختیار کیا تھا؟ اسے ہم قرآن کریم کے حوالہ سے دیکھیں تو کچھ اس طرح کا نقشہ سامنے آتا ہے کہ حضرت آدمؑ کے بعد انسانی سوسائٹی نے جو ترقی کی تھی اور اس دوران جو سماجی ارتقاء عمل میں آیا تھا، حضرت نوحؑ نے اسے من و عن قبول نہیں کیا تھا ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۸ اگست ۲۰۱۶ء

وہی قاتل، وہی مخبر، وہی منصف ٹھہرے

امریکہ نے جب اقوام متحدہ کے سامنے اپنا کیس رکھا اور اس سے دہشت گردی کے خلاف کارروائی کے لیے این او سی مانگا تو دلیل اور دانش نے ڈرتے ڈرتے وہاں بھی عرض کیا تھا کہ ’’دہشت گردی‘‘ کی تعریف طے کر لی جائے اور اس کی حدود متعین کرلی جائیں تاکہ دہشت گردی کے خلاف کارروائی کی زد میں وہ مظلوم اور مجبور اقوام نہ آجائیں جو اپنی آزادی اور تشخص کے لیے قابض اور مسلط قوتوں کے خلاف صف آراء ہیں۔ مگر دلیل اور دانش کی آنکھوں پر یہ کہہ کر پٹی باندھ دی گئی کہ ابھی اس کا وقت نہیں آیا، ابھی امریکہ کو اپنے ایجنڈے کی تکمیل کرنی ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۵ دسمبر ۲۰۰۱ء

دانشوروں کی سوچ تاریخ کے آئینے میں

سلطان ٹیپوؒ سمجھ رہا تھا کہ انگریزوں نے اس کی سلطنت پر حملہ تو ویسے بھی کرنا ہے مگر وہ اس کے لیے فرانسیسیوں کی موجودگی کا بہانہ کر رہے ہیں، اس لیے اس نے انگریزوں کی کوئی بھی شرط ماننے سے انکار کر دیا۔ سلطان ٹیپوؒ کی فوج کے فرانسیسی افسر خود سلطان ٹیپوؒ کے پاس آئے اور کہا کہ اگر اس سے انگریزوں کا غصہ وقتی طور پر ٹھنڈا ہوتا ہے تو ہمیں کوئی اعتراض نہیں، آپ ہمیں ان کے حوالے کر دیں۔ اس وقت بھی کسی نہ کسی دانشور، ڈپلومیٹ، یا فقیہ عصر نے سلطان ٹیپوؒ کو یہ مشورہ ضرور دیا ہوگا کہ کوئی حرج کی بات نہیں، وقت نکالو اور سر پر آئی ہوئی جنگ کو سردست ٹالنے کی کوشش کرو ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۹ نومبر ۲۰۰۱ء

ماہنامہ قومی ڈائجسٹ کا انٹرویو

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی طویل عرصے تک خارزار سیاست میں آبلہ پائی کرنے کے بعد اب کئی سالوں سے علمی اور تحقیقی سرگرمیوں میں مصروف ہیں۔ دنیا کی دوسری تہذیبوں سے مکالمہ کرتے اور ان پر اسلام کی حقانیت واضح کرتے ہیں۔ وہ قدیم اسلامی علوم میں بھی دستگاہ رکھتے ہیں اور دور جدید کے سیاسی، معاشی، اور عمرانی مسائل کی مبادیات پر بھی نظر رکھتے ہیں۔ ہم نے ان کے سیاسی تجربات اور قومی حوادث کے بارے میں بھی استفسار کیا اور اسلامی دنیا کی بحرانی کیفیت پر بھی کئی سوالات اٹھائے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

دسمبر ۲۰۰۷ء

مولانا رحمت اللہ کیرانویؒ

خلافت عثمانیہ کے خلیفہ سلطان عبد المجید مرحوم بہت متاثر ہوئے اور مولانا رحمت اللہ کیرانویؒ سے فرمائش کی کہ وہ اسلام اور مسیحیت کے حوالے سے متعلقہ مسائل پر مبسوط کتاب لکھیں جو سرکاری خرچے پر چھپوا کر دنیا میں تقسیم کی جائے گی۔ چنانچہ مولانا نے ’’اظہار الحق‘‘ کے نام سے ایک ضخیم کتاب تصنیف کی جس کا مختلف زبانوں میں ترجمہ کروا کر سلطان ترکی نے اسے تقسیم کرایا۔ یہ معرکۃ الاراء کتاب عربی میں ہے اور جسٹس (ر) مولانا مفتی محمد تقی عثمانی نے ’’بائبل سے قرآن تک‘‘ کے نام سے اردو میں اس کا ترجمہ کر کے ایک وقیع مقدمہ بھی اس پر تحریر کیا ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۷ جنوری ۲۰۰۵ء

پاک امریکہ تعلقات ۔ سابق صدرجنرل محمد ایوب خان کے خیالات

اس گفتگو میں ایک پاکستانی سیاستدان نے مسٹر ہالبروک سے کہا کہ امریکہ ہمارا آقا نہ بنے بلکہ دوست بنے اور دوستوں کی طرح ہمارے ساتھ معاملات کرے۔ یہ بات بھی صدائے بازگشت ہے پاکستان کے سابق صدر جناب محمد ایوب خان مرحوم کے اس رد عمل کی جو انہوں نے پاکستان کی طرف سے امریکہ کے ساتھ دوستی کی پرخلوص کوششوں اور امریکہ کی طرف سے اس کے کم از کم الفاظ میں غیر مثبت جواب پر ظاہر کیا تھا۔ فیلڈ مارشل محمد ایوب خان نے اپنی یادداشتوں پر مشتمل جو کتاب شائع کی اس کا نام ہی ’’آقا نہیں دوست‘‘ ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

فروری ۲۰۰۹ء

کیا قرآن کریم اور سماج کا آپس میں کوئی تعلق نہیں ہے؟

ایک فاضل دوست نے شکوہ کیا ہے کہ جب ہم سماجی مطالعہ اور معاشرتی ارتقاء کی بات کرتے ہیں تو کچھ لوگ قرآن کریم کی آیات پڑھنا شروع کر دیتے ہیں۔ محترم دانشور کے ایک حالیہ کالم میں یہ بات پڑھ کر بے حد تعجب ہوا اور میں سوچ میں پڑ گیا کہ کیا قرآن کریم اور سماجی مطالعہ ایک دوسرے سے ایسے لاتعلق ہیں کہ سماج کے حوالہ سے گفتگو کرتے ہوئے قرآن کریم کو (نعوذ باللہ) لپیٹ کر ایک طرف رکھ دینا چاہیے؟ اور کیا ہماری دانش خدانخواستہ اس مقام پر پہنچ گئی ہے کہ سوسائٹی اور سماج کے معاملات کو دیکھتے ہوئے قرآن کریم کا حوالہ بھی اسے اجنبیت کی فضا میں لے جاتا ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۶ اگست ۲۰۱۶ء

دینی اداروں میں یوم آزادی کی تقریبات

قیام پاکستان کے فورًا بعد اس کی مخالفت کرنے والے سرکردہ علماء کرام بالخصوص ان کے دو بڑے راہ نماؤں شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمدؒ مدنی اور امیر شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاریؒ کی طرف سے واضح طور پر کہہ دیا گیا تھا کہ یہ اختلاف پاکستان کے قیام سے پہلے تھا جبکہ پاکستان بن جانے کے بعد یہ اختلاف باقی نہیں رہا۔ مولانا سید حسین احمدؒ مدنی نے تو یہاں تک فرما دیا تھا کہ مسجد تعمیر ہونے سے پہلے اس کے نقشہ اور سائز کے بارے میں اختلاف ہو جایا کرتا ہے لیکن جب مسجد بن جائے تو وہ جیسے بھی بنے مسجد ہی ہوتی ہے اور اس کا احترام سب کے لیے ضروری ہوتا ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۲۳ اگست ۲۰۱۶ء

کویت ایئرویز کا تجربہ اور اردو کی بے چارگی

کویت ایئرویز کے ذریعے زندگی میں پہلی بار سفر کا موقع ملا۔ عید الاضحیٰ کی تعطیلات کے دوران مجھے دارالعلوم نیویارک میں اساتذہ و طلبہ کے لیے ’’دینی تعلیم کے معروضی تقاضے‘‘ کے عنوان سے منعقد ہونے والی سات روزہ ورکشاپ میں شرکت کے لیے امریکہ آنا تھا۔ میں ہمیشہ قومی ایئرلائن سے سفر کو ترجیح دیتا ہوں مگر اس بار کویت ایئرویز کے ٹکٹ میں 20 ہزار روپے سے زائد رقم کی بچت دیکھ کر یہ ترجیح بدلنا پڑی۔ اس لیے کہ مجھ جیسے فقیر آدمی اور بلانے والے دینی اداروں کے لیے یہ فرق خاصا نمایاں ہے ۔ ۔ ۔ مکمل تحریر

۱۸ نومبر ۲۰۱۱ء

Pages


2016ء سے
Flag Counter